کرن نعمان
حویلی کے احاطے میں گاڑیاں تیار کھڑی تھیں، ہر طرف چہل پہل اور رونق سی لگی تھی۔ جہانگیر خان اپنے بندوں کو خاص ہدایات دے کر حویلی کے رہائشی حصّے کی طرف آگیا۔ یہاں بھی خوب ہل چل تھی۔ علاقے کی کافی عورتیں جمع تھیں۔ وہ سیدھا اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھا، جہاں اُس کی بیوی پلوشہ ہی نہیں، اُس کی پانچوں بہنیں، بھانجیاں، بھتیجیاں اور دیگر رشتے دار عورتیں بھی موجود تھیں۔ اُسے کمرے کا ماحول دیکھ کر حیرت ہوئی۔ لڑکیاں میچنگ میں سبقت لے جانے پر تُلی ہوئی تھیں۔ کوئی ہیئر اسٹائل بنا رہی تھی، تو کوئی میک اَپ کا پلستر چڑھا رہی تھی۔
خُود پلوشہ بھی بار بار ہونٹوں پر میرون لپ اسٹک پھیر کر قدِ آدم آئینے میں اپنا جائزہ لے رہی تھی۔ جہانگیر خان کا دل چاہا، اپنا سر ہی پیٹ لے۔ یہ عورتیں تو ایسے تیاری میں لگی ہوئی ہیں، جیسے حویلی سے بارات نکلنے والی ہو۔ ’’پلوشے…!!‘‘ اُس نے رعب دار آواز میں بیوی کو پکارا، تو ساری کی ساری اپنی تیاریاں بھول کر مؤدب ہوگئیں۔ خُود پلوشہ نے جلدی سے دوپٹا وجود پر پھیلایا اور اُس کے قریب آگئی۔ ’’تم لوگوں کا دماغ تو ٹھیک ہے، کس لیے اتنی تیاریاں ہورہی ہیں۔ پولنگ بوتھ جانا ہے، ووٹ ڈالنے اور فیشن تم ایسے کر رہی ہو، جیسے مامے کے بیٹے کی شادی میں جارہی ہو۔
چلو، اب جلدی جلدی برقعے پہنو اور باہر نکلو، گاڑیاں تیار کھڑی ہیں۔ اور ہاں، اپنے اپنے شناختی کارڈ لینا نہ بھولنا، ورنہ مَیں سب کے سامنے بھول جاؤں گا کہ تم سب سے میرا کیا رشتہ ہے۔‘‘ اُس کی ڈانٹ پر سبھی اندر سے کپکپا گئیں۔ اُس نے سب پر نگاہ ڈال کر حُکم جاری کیا، پھر اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’اور تم… تم تو جہالت میں سب سے آگے ہو۔‘‘ قصور پلوشہ کا ہو، نہ ہو، پر ڈانٹ سب سے زیادہ اُسے ہی پڑتی تھی۔ جیسے ہی وہ کمرے سے باہر گیا، پلوشہ نے بُرا سا منہ بنا کر ہاتھ کے اشارے سے دفع دُور کیا اور اپنا نیا ٹوپی والا برقع سر پر جمانے لگی۔
ڈرائیور کےبرابر بیٹھا وہ مسلسل گھر کی عورتوں کو ہدایت دے رہا تھا کہ ٹھپّا صرف چراغ پر لگانا ہے، جو اُن کی پارٹی کا نشان ہے۔ غلطی سے بھی کسی کی مُہر کرسی کو نہ لگے، جو اُس کے مخالفوں کا نشان تھا۔ آج الیکشن کا دن تھا اور پورے ملک میں ایک جوش و خروش اور افراتفری سی تھی۔ ہر نیوز چینل پر الیکشن ٹرانس میشن چل رہی تھی۔ تمام شہر پارٹیوں کے جھنڈوں اور بینرز سے سجے ہوئے تھے۔ پولنگ اسٹیشنز پر لمبی لمبی قطاریں تھیں۔
پارٹیز کے دفتروں پر رونق کا عجب عالم تھا۔ دیگیں پک رہی تھیں، مٹھائیاں بٹ رہی تھیں۔ کہیں کہیں سے لڑائی جھگڑوں کی بھی اطلاعات تھیں۔ جہانگیر خان کا چاچا زرداد خان قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہا تھا اور جہانگیر خان اس کی کیمپین چلانے میں اُس کا بھرپور ساتھ دے رہا تھا۔ پچھلی بار جس پارٹی نے زرداد خان کو ٹکٹ دیا تھا، اِس بار وہی پارٹی اُس کی مخالف تھی ۔
پولنگ بوتھ میں داخل ہوتے ہی جہانگیر خان پارٹی ورکرز کی طرف بڑھ گیا تھا۔ وہ سب کی سب زردادخان کی فیملی سے تھیں، اِس لیے اُنہیں لائن میں نہیں لگنا پڑا۔ فوراً ہی اُنہیں کمرے میں جانے کے لیے راستہ دے دیا گیا تھا، جہاں سے اُنہیں ووٹ کی پرچی ملنی تھی۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے پلوشہ نے دیکھا، دُور کھڑا جہانگیر خان کسی ماڈرن طرح دار عورت سے ہنس ہنس کر بات کر رہا تھا۔ اُس کے دل میں ٹیس سی اُٹھی۔
اِس لیے نہیں کہ وہ عورت کے ساتھ کھڑا تھا، اِس لیے کہ وہ اُس عورت سے یقیناً الیکشن اور سیاست کے حوالے ہی سے بات کر رہا تھا۔ اور اُسے دو دن پہلے کی بات یاد آگئی تھی، جب وہ ٹی وی پر نشر ہونے والا کوئی سیاسی ٹاک شو دیکھ رہا تھا، اور پلوشہ نے اُس سے کہہ دیا تھا کہ ’’جہانگیر! تمہاری پارٹی کے منشور میں عورتوں کے حقوق کم رکھے گئے ہیں، جب کہ مخالف پارٹی نے اِس پر زیادہ زور دیا ہے۔ اگر تم لوگ بھی اِس طرف توجّہ دو، تو پارٹی کے مفاد میں اچھا ہوگا۔‘‘ جواباً جہانگیر نے بہت حیرت سے اُسے دیکھا تھا۔ ’’او! تم تو اپنی دانش وَری رہنے ہی دو۔
اتا پتا کچھ ہے نہیں، چلی ہیں سیاست پر بات کرنے۔ حویلی میں رہتی ہو، آنے جانے کے لیے لینڈ کروزر، پجارو دروازے پر کھڑی ملتی ہیں۔ اچھا کھانا، اچھا پہننا… اور کون سے حقوق چاہئیں تمہیں؟؟‘‘ وہ گڑبڑا سی گئی۔ ’’نہیں، مَیں تو منشور کی بات کر رہی تھی۔ پارٹی کی پوزیشن کی بات کر رہی تھی۔‘‘ تب وہ طنزیہ ہنسا۔ ’’نہ یہ تم جاہل عورتوں کے کرنے کی باتیں نہیں ہیں۔ یہ مردوں کی باتیں ہیں، وہی طے کرتے ہیں کہ کیا منشور بنانا ہے کیا نہیں۔ تم صرف کھاؤ پیو، عیش کرو اور بچّے پالو بس…‘‘ اور جہاں وہ ’’بس‘‘ کہہ دیتا تھا۔ بس، بات وہیں ختم ہو جاتی تھی۔
انگوٹھے پر نیلی لکیر کھنچوا کر اُس نے پولنگ آفیسر سے پرچی لی اور پردے کے پیچھے آگئی۔ سب سے پہلے اُس نے پرچی اپنے ہونٹوں سے لگائی، پھر اُس پر مہر لگا کر بند کردی۔ چراغ اور کرسی میں مقابلہ ٹاکرے کا ہوا۔ اگلی صبح تک غیر حتمی نتیجے کا اعلان ہو گیا چند ووٹس کے فرق سے زردار خان مخالف پارٹی کے امیدوار سے ہار گیا تھا۔ حویلی کی رونقیں ماند پڑگئیں۔ ہر طرف سوگ کی فضا طاری ہوگئی۔ ہر مرد غصّے سے بھرا ہوا تھا۔ سب لمبی لمبی کالز میں مصروف تھے۔
جہانگیر خان نے ساری رات زرداد خان کی حویلی میں گزاری تھی۔ پلوشہ کا خیال تھا کہ وہ سرکاری نتائج کے اعلان سے پہلے اپنی حویلی واپس نہیں آئے گا، لیکن تھکن اور اعصابی کھچاوٹ لیے وہ اعلان سے پہلے ہی حویلی واپس آگیا تھا۔ سب اپنے اپنے کمروں میں سو رہے تھے یا پھرٹی وی کے آگے بیٹھے تھے۔ اُس کے کمرے سے بھی خبروں کی آواز آرہی تھی، لیکن دروازہ کھولتے اُس کے ہاتھ پلوشہ کی آواز سُن کر رُک گئے۔ شاید وہ اپنی عزیز از جان سہیلی زرمینہ سے بات کر رہی تھی۔ ’’مجھے سمجھ نہیں آتی زرمینے کہ یہ مرد خود کو اتنا طرّم خان کیوں سمجھتے ہیں۔
اُنہیں لگتا ہے کہ گھر میں سو انچ کی ایل ای ڈی لگا دی جائے اور عورت کے ہاتھ میں ڈھائی لاکھ کا موبائل دے دیا جائے، تب بھی عورت جاہل ہی رہے گی۔ اُن کے دماغوں میں صرف یہی بات رہتی ہے کہ ٹوپی والے برقعے میں عورت کی عقل بھی دفن ہوگئی ہے، لیکن اُنہیں پتا نہیں ہے کہ عورت صرف کھاتی پیتی نہیں ہے، سوچتی سمجھتی بھی ہے۔ بچّوں کے ساتھ ساتھ اسے اپنے مُلک کی تکلیفوں، مسائل کا بھی خیال رہتا ہے۔ اب اُس کی نظر صرف گھرداری ہی پر نہیں، سیاست کے معاملات پر بھی ہوتی ہے۔
عورت کی بھی اپنی کوئی رائے ہے۔ اُس کی بھی اپنی پسند، ناپسند ہے۔ وہ بھی بات کرنا چاہتی ہے، اپنی سوچ کے مطابق حقِ رائے دہی استعمال کرنا چاہتی ہے۔ مگر… یہ مرد ہمیشہ عورت سے اپنے پسند کے نشان ہی پر ٹھپّا لگوانا چاہتے ہیں۔‘‘ پلوشہ کی باتیں اُس کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھیں، لیکن ابھی تو اُس کی سماعتوں کے لیے کچھ اور بھی سہنا باقی تھا۔
پلوشہ ایک بلند بانگ قہقہہ لگا کر زرمینہ کو بتارہی تھی۔ ’’قسم سے زرمینے! مجھے اتنا مزہ آیا کہ کیا بتاؤں، سب سے پہلے مَیں نے کرسی پر اپنے ہونٹوں کا ٹھپا لگایا اور پھر مُہر کا۔‘‘ اور… اُسی وقت جہانگیر خان دروازہ کھول کر دھاڑا۔ ’’پلوشے…!!‘‘ ڈھائی لاکھ کا موبائل بد حواس پلوشہ کے ہاتھ سے چُھوٹ کر دُور جاگرا تھا۔