• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیلاب متاثرین کے لیے سندھ کا تاریخی رہائشی منصوبہ

سن2022 ء پاکستان کی تاریخ کا وہ موڑ ثابت ہوا، جب قدرتی آفت نے ہمارے قومی اجتماعی شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ شدید مون سون بارشوں اور غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے مُلک کا تقریباً ایک تہائی حصّہ ڈبو دیا۔ درجنوں اضلاع متاثر ہوئے، لاکھوں گھر زمیں بوس ہو گئے اور کروڑوں انسان اپنی چھت، روزگار سے محروم ہو گئے۔ اقوامِ متحدہ نے اسے’’عالمی سطح کی موسمیاتی تباہی‘‘ قرار دیا۔

اس آفت کا سب سے پہلا اور شدید ہدف سندھ بنا کہ یہاں کے24 اضلاع میں تباہی کی شدّت اِتنی زیادہ تھی کہ سیکڑوں دیہات صفحۂ ہستی سے مِٹ گئے۔اِس پس منظر میں یہ سوال سامنے آیا کہ اِس تباہی کے بعد حکومت کا ردِعمل کیا تھا؟کیا یہ محض امدادی سامان کی ترسیل تک محدود رہا یا اس کی پُشت پر کوئی گہرا وژن، کوئی ہمہ گیر منصوبہ اور کوئی سیاسی و سماجی فلسفہ موجود تھا؟

سندھ حکومت نے اس موقعے پر جو کردار ادا کیا، وہ صرف ایک صوبائی انتظامیہ کا نہیں بلکہ ایک باشعور، عوام دوست اور ترقّی یافتہ سیاسی سوچ کا مظہر تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹّو زرداری کی قیادت میں حکومتِ سندھ نے’’سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ ایفیکٹیز‘‘ (SPHF) کے نام سے جو منصوبہ تشکیل دیا، وہ صرف گھروں کی تعمیر کا منصوبہ نہیں بلکہ ایک مکمل سماجی، نظریاتی اور معاشی تحریک ہے۔ یہ منصوبہ صرف اینٹ، گارے اور سیمنٹ کی دیواروں تک محدود نہیں، بلکہ اس کا دائرۂ کار انسانی وقار، صنفی مساوات، طبقاتی انصاف اور ماحولیاتی پائے داری تک پھیلا ہوا ہے۔

یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور جامع صوبائی رہائشی منصوبہ ہے، جس کے تحت21 لاکھ سے زائد مکانات کی تعمیر کا ہدف مقرّر کیا گیا۔ سب سے بڑی بات جو اِس منصوبے کو منفرد اور انقلابی بناتی ہے، وہ ہے ’’حقِ ملکیت کا تصوّر۔‘‘ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر خواتین کو گھروں کی قانونی ملکیت دی گئی ہے اور اب تک8 لاکھ سے زائد خواتین کو باقاعدہ مالکانہ حقوق دیے جا چُکے ہیں۔

پاکستان جیسے پدر شاہی سماج میں، جہاں عورت کی شناخت اکثر اُس کے شوہر، والد یا بیٹے کے سائے میں گم ہو جاتی ہے، وہاں سندھ حکومت نے یہ اعلان کیا کہ عورت ایک خودمختار اور بااختیار وجود ہے۔ اِس منصوبے کے تحت جب ایک بیوہ، ایک محنت کش ماں، یا ایک معذور خاتون کو اُس کے نام پر گھر دیا جاتا ہے، تو وہ صرف اینٹوں کی دیواریں نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دیواریں ایک نئی خودی، ایک نئی عزّتِ نفس اور ایک نئی پہچان کی بنیاد بنتی ہیں۔

یہی نہیں، اس منصوبے میں ان طبقات کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو ہمیشہ حکومتی پالیسیز اور اسکیمز سے باہر رکھے گئے۔جیسے معذور افراد، اقلیتی برادریاں، خواجہ سرا، بے زمین ہاری اور غیر رسمی بستیوں کے مکین۔ایک لاکھ، گیارہ ہزار سے زائد معذور افراد، ہزاروں اقلیتی خاندان اور بے زمین کسان اس منصوبے کے اوّلین مستفیدین میں شامل ہیں۔ یہ شمولیت کوئی خیرات نہیں، یہ اُن کا حق ہے اور یہی پاکستان پیپلز پارٹی کا فلسفہ ہے کہ حق دیا جاتا ہے، بانٹا نہیں جاتا۔عوام کو صرف ووٹ ڈالنے ہی کا حق نہیں، بلکہ اپنے گھر، اپنے مستقبل، اپنی شناخت پر بھی مکمل اختیار حاصل ہے۔ 

یہ منصوبہ وفاق کی centralized سوچ کے برعکس ایک عوامی، مقامی، اور شفّاف ماڈل ہے۔ ہر ضلعے، تحصیل اور متاثرہ گاؤں میں منصوبے کی موجودگی اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ صرف فائلوں میں قید ایک اسکیم نہیں، بلکہ زمین پر اُگتی ہوئی ایک حقیقت ہے۔ سکھر میں 83 ہزار سے زائد مکانات زیرِ تعمیر ہیں، کشمور میں 4,200 مکانات مکمل ہو چُکے ہیں اور مزید 10 ہزار پر کام جاری ہے۔ جیکب آباد، گھوٹکی، حیدرآباد، دادو، سجاول، لاڑکانہ اور شکارپور جیسے درجنوں اضلاع میں ہزاروں خاندان پہلے ہی اپنے نئے گھروں میں منتقل ہو چُکے ہیں۔

2022 ء کے سیلاب کے بعد جب وفاقی سطح پر سُست روی اور سیاسی کشمکش کا غلبہ تھا، تب سندھ حکومت نے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے تیز رفتار، شفّاف اور سائنسی بنیادوں پر منصوبہ بندی کا آغاز کیا۔ SPHF کی سب سے منفرد خصوصیات میں سے ایک اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے۔ ڈرون سروے، جیو اسپیشل میپنگ، سیٹلائٹ ڈیٹا، اور رئیل ٹائم ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹمز کی مدد سے ہر زیرِ تعمیر مکان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ یہ صرف سندھ ہی میں نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے کسی بھی حکومتی منصوبے میں پہلی مرتبہ اتنے وسیع پیمانے پر ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال کیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ، ہر متاثرہ خاندان کی مکمل بائیو میٹرک رجسٹریشن کی گئی ہے۔ ان کے خاندان، آمدنی، املاک اور نقصان کی تفصیلات کو ڈیجیٹل ریکارڈ کا حصّہ بنایا گیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ مالی امداد، پلاٹس کی الاٹمنٹ اور تعمیراتی فنڈز کی ترسیل شفّاف طریقے سے براہِ راست مستحقین تک ہو رہی ہے، جس میں اقربا پروری، سیاسی سفارش اور بدعنوانی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ تمام مستحقین کے لیے بینک اکاؤنٹس کھلوائے گئے ہیں، جو خواتین کے ناموں پر رجسٹرڈ ہیں۔ 

یہ قدم مالی خودمختاری کی طرف ایک بڑا قدم ہے، جو خواتین کو صرف ایک گھر کی مالک نہیں بلکہ ایک مالی اکائی کے طور پر بھی بااختیار بناتا ہے۔ SPHF منصوبے میں ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ماحولیات اور موسمیاتی تحفّظ کو بھی مرکزی اہمیت دی گئی ہے۔ چوں کہ یہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے منصوبہ تھا، اس لیے حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ آئندہ قدرتی آفات کے ضمن میں زیادہ سے زیادہ اھتیاطی تدابیر بروئے کار لائی جائیں۔ خطرات کم سے کم کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے 2 لاکھ سے زائد گھروں میں سولر پینلز نصب کیے جا چکے ہیں، جو نہ صرف بجلی کی ضرورت پوری کرتے ہیں بلکہ کاربن اخراج کم کرنے میں بھی معاون ہیں۔ 

یہ گھروں کا ماڈل روایتی کنکریٹ اور غیر محفوظ ڈھانچوں کی بجائے ماحول دوست، وینٹیلیشن اور بارش سے بچاؤ کی جدید تیکنیکس پر مبنی ہے۔ گھروں کی تعمیر میں مقامی مواد، کم لاگت مگر مضبوط ڈیزائن اور خواتین کی مشاورت کو ترجیح دی گئی ہے تاکہ ہر گھر صرف رہائش نہ ہو، بلکہ ایک محفوظ، قابلِ فخر اور پائے دار زندگی کی ضمانت ہو۔ اس منصوبے کی کام یابی کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی اداروں نے اس پر نہ صرف اعتماد کا اظہار کیا بلکہ براہِ راست مالی اور تیکنیکی تعاون بھی فراہم کیا۔ ورلڈ بینک نے SPHF کے لیے500 ملین ڈالر کی فنڈنگ منظور کی، جو کہ پاکستان کے کسی بھی صوبائی منصوبے کے لیے سب سے بڑی مالی امداد شمار ہوگی۔ 

اس کے ساتھ ADB (Asian Development Bank)، UNDP، UNICE اور Islamic Relief جیسے ادارے بھی اس منصوبے کے مختلف پہلوؤں میں شراکت دار ہیں۔عالمی بینک کے نمائندگان نے اِس منصوبے کو’’سدرن ایشیا کا ماڈل ری ہیبلیٹیشن پراجیکٹ‘‘ قرار دیا، جب کہ UNDP کی رپورٹ میں اسے ’’climate-resilient community development‘‘ کی مثال کے طور پر سراہا گیا۔ یہ نہ صرف سندھ حکومت بلکہ پاکستان کے لیے ایک بین الاقوامی اعتراف ہے کہ صوبائی سطح پر شفاف، مؤثر اور پائے دار ترقّی ممکن ہے۔

تاہم، جہاں عالمی اداروں نے اعتماد کیا، وہیں وفاقی حکومت کا رویّہ افسوس ناک رہا۔ وفاقی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ سندھ میں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے50 ارب روپے کی خطیر رقم مہیّا کی جائے گی، لیکن آج تک یہ رقم مکمل طور پر فراہم نہیں کی گئی۔ نتیجتاً، سندھ حکومت نے اپنے محدود وسائل سے227 ملین ڈالر کی رقم مختص کی، جس سے کئی دوسرے ترقیاتی منصوبے متاثر ہوئے، لیکن انسانی ہم دردی اور عوامی ضرورت کے پیشِ نظر حکومت نے یہ قربانی دی۔

یہ وہ واضح تضاد ہے جو وفاق اور سندھ کے درمیان پالیسی، ترجیحات اور احساسِ ذمّے داری میں موجود ہے۔ سندھ کو اکثر وفاقی وسائل کی تقسیم میں نظر انداز کیا جاتا ہے اور SPHF جیسے منصوبوں کی تاخیر یا مالی مشکلات بھی اسی مرکزی امتیاز کا نتیجہ ہیں، لیکن سندھ حکومت نے یہ رکاوٹ بھی عوامی طاقت اور بین الاقوامی تعاون سے عبور کر لی۔ یہ وہی سندھ ہے، جسے اکثر سُست، کرپٹ یا غیر ترقّی یافتہ قرار دیا جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ SPHF جیسے منصوبے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک مثال بن چُکے ہیں۔

سندھ کے مختلف اضلاع سے حاصل کردہ رپورٹس کے مطابق، جہاں یہ مکانات مکمل ہو چُکے ہیں، وہاں تعلیمی اداروں میں بچّوں کا اندراج بڑھا ہے، خواتین کی مالی شمولیت میں اضافہ ہوا ہے اور مقامی سطح پر چھوٹے کاروبار دوبارہ زندہ ہو رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں خواتین نے گھریلو صنعتوں کا آغاز کیا ہے، کیوں کہ ان کے پاس اب محفوظ اور مستحکم ماحول موجود ہے۔ 

بچوں کے لیے تعلیم کا تسلسل ممکن ہوا ہے، کیوں کہ اب وہ خیموں یا کُھلے آسمان تلے نہیں، بلکہ ایک باقاعدہ مکان سے اسکول جا رہے ہیں۔ یہ منصوبہ ایک ایسے وقت میں مکمل ہو رہا ہے، جب مُلک میں معاشی بدحالی، بے روزگاری اور سیاسی تقسیم نے عوام کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ایسے میں SPHF صرف سندھ ہی نہیں، پورے پاکستان کے ہر اس شہری کے لیے اُمید کی کرن ہے، جو برسوں سے اپنے حقِ ملکیت، شناخت، اور ریاستی تحفّظ سے محروم رہا ہے۔  (مضمون نگار، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں)