• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی کانگریس وفد ہیلو، ہائے، ٹاٹا، بائے بائے کرتے ہوئے ہنستا مسکراتا واپس واشنگٹن جا چکا ہے۔ ٹرمپ افغانستان میں امریکی ہتھیاروں کی گمشدگی بارے انتہائی فکر مند دکھائی دے رہے ہیں۔ اسحق ڈار ان ہتھیاروںکی تلاش میں کابل سے بھی ہو آئے ہیں۔ افغان عبوری انتظامیہ کو امریکہ اور ڈار صاحب کی باتیں کچھ کچھ سمجھ آنے لگی ہیں۔ اب اسحق ڈار ڈھاکہ جارہے ہیں توقع یہی رکھی جارہی ہے کہ وہاں سے بھی دوستی، محبت کا پیغام لے کر ہی آئیں گے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے تاریخی کنونشن سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے پُرجوش، ولولہ انگیز خطاب نے بیرون ملک مقیم مایوس پاکستانیوں کے دلوں میں اُمید ، جوش ولولے کی ایک نئی لہر پیدا کرکے ہارڈ اسٹیٹ کا مطلب اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔ گویا کہ تمام تر شکووں ، شکایتوں، رکاوٹوں کے باوجود یہ نظام پوری آب و تاب سے خارجی و داخلی سطح پر آگے بڑھ رہا ہے۔ مقبولیت والے قبولیت کھو رہے ہیں اور مقبولیت بھی۔

شہباز حکومت کی ملکی و بین الاقوامی محاذوں پر اونچی پروازیں جاری ہیں جسکا واضح ثبوت یہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ستائش ہر سیاسی جماعت کررہی ہے، اس مسئلے پر سڑکوں پر سب سے زیادہ احتجاج کرتی جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن لیاقت بلوچ کی ہمراہی میں خود چل کر وزیراعظم کو مبارک باد دینے گئے اور واپسی پر مزید ریلیف ملنے کی خوش خبری لے کر آئے ۔ ہماری سیاست میں خال خال ہی ایسا ہوتا ہے کہ نظام کو قبول نہ کرنے والی کوئی سیاسی جماعت حکومت کے کسی اچھے اقدام کا اس طرح برملا اعتراف کرکے مبارک باد دے اور عوام کو مزید ریلیف دلانے کے لئے حکومت پر دباؤ بھی برقراررکھے۔ حافظ نعیم الرحمن نے ایک اچھی سیاسی روایت کی بنیاد رکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ مثبت سیاست سے ملک و قوم کو درپیش مسائل مل بیٹھ کر حل کئے جاسکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی قیادت کے اس اقدام نے جلاؤ گھیراؤ ، توڑ پھوڑ، دھرنوں کے مقابلے میں پُرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے نہ صرف جمہوریت کے استحکام، معاشی خوش حالی اور عوامی مسائل حل کرنے کا ایک نیا راستہ کھول کر پی ٹی آئی سمیت تمام چھوٹی بڑی قومی و علاقائی سیاسی جماعتوں، گروپوں کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان جن سنگین معاشی حالات سے نکلنے کی کوششیں کررہا ہے ان میں ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کرنا ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اداروں کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہونا اور قومی یک جہتی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

امیر جماعت اسلامی کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات گرد آلود ہواؤں میں بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ اب گیند وفاقی حکومت کے کورٹ میں ہے کہ وہ عوام کو آئندہ بجٹ میں بجلی، گیس، روزمرہ اشیاءکی قیمتوں میں کیا ریلیف دیتی ہے یا ایک ہاتھ دے دو ہاتھ واپس لے والی بات نہ ہو کہ عوام کے ناتواں کندھوں پر مزید بوجھ لاد دیا جائے۔ فی الحال وفاق، پنجاب اور سندھ میں نئی نہروں کا تنازع عروج پر ہے۔خیبرپختونخوا ، بلوچستان میں معدنیات کے ذخائر کی اونر شپ کا مسئلہ نئے سیاسی بحران کو جنم دے رہا ہے۔ پیپلزپارٹی دریائے سندھ کے پانی پر اپنی بقاکی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کا حل بھی صرف مذاکرات ہیں۔ جتنا جلد ممکن ہو وفاقی حکومت پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے، سندھ کے حصے کا پانی سندھ کو ملے ، پنجاب کو اپنے حصے کے پانی کا آزادانہ طور پر استعمال کرنے کا حق دیا جائے، چاہے وہ اس پانی سے نئی نہریں بنائے یا ڈیم۔ تکنیکی و سیاسی وجوہات میں جائے بغیر صرف اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں، بھارتی آبی جارحیت ہماری زراعت کو ٹڈی دل کی طرح کھائے جارہی ہیں۔ ایسی صورت میں نئے آبی ذخائر کی فوری تعمیر، پانی کی منصفانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یقینی بنائی جائے کہ کوئی صوبہ اپنے حصے کا پانی ضائع نہ کرے۔

پانی کے بحران سے نمٹنے کے لئے چاروں صوبوں میں کم پانی سے زیادہ پیداوار کی جدید سہولتوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ پنجاب کے کاشت کار، کسان گندم کی کم قیمت ملنے پر شدید پریشان ہیں۔ وفاقی حکومت چاروں صوبوں کی مشاورت سے زرعی اجناس کی قیمتوں بارے کوئی ایسا میکنزم بنائے جس سے کاشت کار کو فصلوں کی صحیح قیمت مل سکے۔ پنجاب حکومت کا یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ کسان سال میں دو سے تین فصلوں سے اتنا کما لیتے ہیں کہ انہیں گندم کی کم قیمت سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور صرف گندم کی فصل آنے پر کم قیمت ملنے کا واویلا کیا جاتا ہے۔ ایسے بیانات عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف (ن) لیگ کی پنجاب حکومت کے عوامی فلاح و بہبود کے نوے فی صد منصوبوں کے اچھے اثرات کے برعکس اس سوچ کو تقویت دے رہے ہیں کہ (ن) لیگ جب بھی برسراقتدار آتی ہے کسانوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ گندم کی قیمت کا تعین فی ایکڑ پیداواری لاگت، کاشت کار کے منافع سے مشروط ہوگی تو سرسبزو شاداب پاکستان کا خواب پورا ہوگا ۔

تازہ ترین