• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرحین

درخت اور انسان کا رشتہ صدیوں پُرانا ہے۔ اشجار صرف ہریالی، چھائوں اور ٹھنڈک ہی کا ذریعہ نہیں، بلکہ بقائے زندگی کے بھی ضامن ہیں۔ آکسیجن کی فراہمی، ماحولیاتی توازن اور حیاتیاتی تنوّع کا تحفّظ درختوں ہی کی بدولت ممکن ہے۔ اگر دنیا سے درخت ختم ہوجائیں، تو نہ صرف آکسیجن کی فراہمی منقطع ہوجائے گی، بلکہ انسانی زندگی بھی شدید خطرات سے دوچار ہوجائے گی۔ 

ماہرینِ ماحولیات متعدد بار خبردار کرچُکے ہیں کہ پاکستان خصوصاً وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد کے جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور اُن کی بے دریغ کٹائی کے ماحولیاتی اثرات واضح طور پر محسوس کیے جارہے ہیں۔ اسلام آباد، جو کسی دَورمیں اپنی سرسبز پہاڑیوں اور قدرتی حُسن کے باعث دُنیا بَھرمیں مشہور تھا، اب تیزی سے کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور 2024ء میں وفاقی دارالحکومت میں پڑنے والی شدید گرمی اس تبدیلی کی ایک نمایاں مثال ہے۔

پاکستان کے، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے، کُل رقبے کا صرف 2.1 فی صد جنگلات پر مشتمل ہے، جب کہ ماہرین کے مطابق یہ تناسب کم از کم 25 فی صد ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے پاکستان دُنیا کے اُن پانچ ممالک میں شامل ہے کہ جہاں جنگلات کی کٹائی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اورمعاشی حب، کراچی پہلے ہی کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوچُکا ہے اور حالیہ برسوں میں اسلام آباد میں بھی، جو اپنی ہریالی، فطری مناظر اور جنگلات کی وجہ سے منفرد شناخت رکھتا ہے، درختوں کےصفائے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے مطابق، مُلک میں تقریباً 40لاکھ ایکڑ رقبے پر جنگلات موجود ہیں، مگر ہر سال 11 ہزار ایکڑ پر محیط جنگلات ختم ہو رہے ہیں اور اس کے نتائج موسمیاتی تبدیلیوں، حیاتیاتی تنوّع میں کمی اور قدرتی آفات کی صُورت سامنے آرہے ہیں۔

پاکستان کو ایک جانب ماحولیاتی آلودگی کا چیلنج درپیش ہے، تو دوسری جانب نام نہادشجر کاری کی مہمات ’’جلتی پرتیل‘‘ کا کام کررہی ہیں۔ گرچہ آج ہر کوئی درخت تو لگا رہا ہے، لیکن وہ اس بات سے بےخبر ہے کہ کون سا درخت کراچی یا اسلام آباد کے لیے موزوں ہے اورکون سا نہیں۔ اس حوالے سے ماہرِ ماحولیات، صفوان شہاب کا کہنا ہے کہ ’’بدقسمتی سے پاکستان میں جنگلات کی کٹائی کا عمل مزید تیز ہوچُکا ہے۔

درحقیقت مُلک کاصرف 2.1فی صد حصّہ جنگلات پر مشتمل ہے، جسے کبھی4 یا 5 فی صد بتایا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں جنگلات کے تحفّظ کے لیے ایک باقاعدہ پالیسی تشکیل دی جائے۔‘‘ ماہرِ ماحولیات نے خبردار کیا کہ ’’پاکستان میں جنگلات کی کٹائی کے باعث صورتِ حال اتنی تشویش ناک ہوچُکی ہے کہ اس حوالے سے ایمرجینسی کا نفاذ ہونا چاہیے۔‘‘

اس ضمن میں ماحولیاتی تبدیلیوں پرنگاہ رکھنے والے صحافی محمود احمد خالد کا کہنا ہے کہ ’’عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا رقبہ کم از کم 25 فی صد ہونا چاہیے، مگر بدقسمتی سے یہ صرف 2 سے 2.5 فی صد رہ گیا ہے، جو لمحۂ فکریہ ہے۔ عموماً ہم گھروں میں لگے درختوں کو بھی جنگلات میں شمار کرتے ہیں، جو ایک غلط تصوّر ہے اور اس ضمن میں، افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے، جو جنگلات کی کٹائی کے اعتبار سے سرِفہرست ہیں، جب کہ ہمارے یہاں کوئی ایسا ادارہ بھی موجود نہیں، جو عوام کوآگاہ کرے کہ کون سے درخت فائدہ مند ہیں اور کون سے نقصان دہ؟

کون سے مقامی ہیں اور کون سے غیر مقامی۔‘‘ کس قدر ظلم ہے کہ کراچی میں 2015ء کی بدترین ہِیٹ وَیو کے 10 سال گزرنے کے بعد بھی بڑے پیمانے پر شجر کاری نہیں کی گئی اور یہاں سایہ دار درختوں کی کمی کی سب سے بڑی وجہ عوام میں اس حوالے سے آگہی کا فقدان ہے۔ ای پی اے کی جانب سے ہدایت موجود ہےکہ اگر کسی ترقّیاتی منصوبے کےلیےایک درخت کاٹا جائے، تو پانچ نئے درخت لگائے جائیں، لیکن عملاً ایسا کہیں نہیں ہوتا۔

شجرکاری بِلاشُبہ ایک نیکی ہے، لیکن یہ نیکی اُسی وقت مفید ثابت ہوسکتی ہے کہ جب درخت ماحولیاتی حالات سے ہم آہنگ ہوں۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں شجرکاری کی زیادہ تر مہمّات محض نمائش ہی تک محدود رہتی ہیں اور اکثر مقامات پر ایسے درخت لگا دیئے جاتے ہیں کہ جو مقامی ماحول کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ 

اسلام آباد جیسے پہاڑی اورنسبتاً سرد علاقے کے لیے ایسے درخت موزوں ہیں، جو وہاں کے قدرتی ماحول سے ہم آہنگ ہوں۔ چِیڑ (پائن)، دیودار اور چنار کے درخت نہ صرف سرد موسم سے مطابقت رکھتے ہیں، بلکہ ماحول کی خوب صُورتی میں اضافے کے ساتھ سائے کی فراہمی اور ہوا کو صاف کرنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔ 

اسی طرح شہتوت اوراملتاس کے درخت پھل دار اور سجاوٹی ہوتے ہیں، جو شہر کی خُوب صُورتی اور ماحول دونوں ہی کے لیے اہم ہیں۔ اس کے برعکس اسلام آباد میں لگائے گئے کونوکارپس جیسے غیر مقامی درخت ماحولیاتی توازن بگاڑتے اور مقامی نباتات کو متاثر کرتے ہیں، جب کہ یوکلپٹس زمین سے زیادہ پانی جذب کر اسےخُشک کردیتا ہے، نیز، کیلے اورناریل کے درخت سَرد موسم میں نہ تو نشوونما پا سکتے ہیں اور نہ ہی زندہ رہ پاتے ہیں، اِس لیے ان کی افزائش غیرمفید ہے۔

کراچی کے گرم اور نیم صحرائی موسم کے لیے نِیم، کیکر، بیری، گول مور اور مورنگا جیسے درخت موزوں ہیں۔ یہ درخت کم پانی میں اُگتے ہیں، جراثیم کُش خواص رکھتے ہیں، پھل دار ہوتےہیں اور ماحولیاتی خُوب صُورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، مورنگا غذائیت سے بھرپور ہونے کے ساتھ ادویہ کی تیاری میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

اس کے برعکس کراچی میں لگائے گئے کونوکارپس کے درختوں کی جڑیں انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچاتی اور مقامی حیاتیات پر منفی اثرات مرتّب کرتی ہیں۔ اسی طرح سپروس جیسے ٹھنڈے علاقوں کے درخت کراچی کے گرم موسم میں زندہ نہیں رہ سکتے اور یوکلپٹس یہاں بھی زیرِزمین پانی کو جذب کر کے ماحولیاتی توازن کو متاثر کرتا ہے۔

بےشک، درخت لگانا نیکی ہے، لیکن صحیح درخت لگانا حکمت ہے اور شجرکاری کے وقت درختوں کی مقامی اقسام کوترجیح دینا ماحولیاتی توازن کے لیے نہایت ضروری ہے۔ شہری شجر کاری کے لیے ایسے درخت منتخب کیے جائیں کہ جو کم پانی میں اُگتے ہوں، سایہ دار اور مقامی ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں اور اس کےساتھ ہی ایک باقاعدہ پالیسی، عوامی آگہی اور ماہرین کی رہنمائی بھی ناگزیرہے، تاکہ پاکستان کو قدرتی آفات سے بچا کر یہاں ایک صحت مند ماحولیاتی نظام قائم کیا جاسکے۔