• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نرسز کی فلاح و بہبود، معاشی استحکام کی ضمانت

کچھ شُعبۂ ہائے زندگی ایسے ہیں، جو عالمی صورتِ حال سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں اور اُن میں نرسنگ کا شُعبہ بھی شامل ہے۔ نرسنگ کے شُعبے میں معیشت، افرادی قوّت اور ٹیکنالوجی کا خاصا عمل دخل ہے، لہٰذا اس کی بہتری کے لیے ہمیں مذکورہ بالا سیکٹرز کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔ 

آئی سی این (انٹرنیشنل کائونسل آف نرسز) دُنیا بَھرمیں نرسز کی نمائندگی کرنے والی ایک غیر سرکاری اور غیرمنافع بخش بین الاقوامی تنظیم ہے۔ آئی سی این کا قیام 1899ء میں عمل میں آیا اور یہ نرسنگ کی پہلی بین الاقوامی تنظیم ہے۔

مذکورہ کاؤنسل کے قیام کا مقصد نرسنگ کے پیشے کا فروغ، نرسز کے حقوق کا تحفّظ، صحتِ عامّہ میں بہتری لانا، نرسنگ کی تعلیم کے معیار کو بلند کرنا اور بین الاقوامی سطح پر نرسنگ کی تنظیموں کو ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیاکرنا ہے، تاکہ وہ صحتِ عامّہ کے فروغ میں مؤثر کردار ادا کرسکیں۔ اِس وقت 130سے زائد ممالک کی قومی نرسنگ تنظیمیں آئی سی این کی رُکن ہیں اور مذکورہ کاؤنسل کے تحت ہر سال 12 مئی کو’’نرسز کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ 12 مئی 1820ء جدید نرسنگ کی بانی، فلورنس نائٹ انگیل کا یومِ پیدائش ہے۔

’’انٹرنیشنل کاؤنسل آف نرسز‘‘ ہرسال نرسز کے عالمی یوم پرایک مخصوص تِھیم کا بھی انتخاب کرتی ہے، جس کا مقصد اس شُعبے کو درپیش اہم مسائل اور عالمی سطح پر نرسز کے کردار کو اُجاگر کرنا ہوتا ہے اور تھِیم کا انتخاب صحتِ عامّہ کو درپیش چیلنجز، نرسنگ کے پیشے کی ضروریات اورنرسزکی فلاح و بہبود کے حوالے سے تشکیل کردہ پالیسیز اور تحقیق کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔

رواں برس نرسنگ کے عالمی یوم کے لیے تھیم ’’Our Nurses, Our Future, Caring for nurses strengthens economies.‘‘ (ہماری نرسز، ہمارا مستقبل: نرسزکی دیکھ بھال معیشتیں مضبوط کرتی ہے) کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مذکورہ تِھیم نرسز کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی صحت کی اہمیت اُجاگر کرتا اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ مُلکی سطح پر نرسز کی فلاح و بہبود پر سرمایہ کاری نہ صرف صحت کے نظام کو بہتر بناتی ہے بلکہ معیشت کو بھی مستحکم کرتی ہے۔

انٹرنیشنل کائونسل آف نرسز کی صدر، ڈاکٹر پاملاسیپریانونے اس تِھیم کے انتخاب کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ’’نرسز جسمانی، ذہنی، جذباتی اوراخلاقی چیلنجز کا سامنا کرتی ہیں اوران سے نمٹنے کے لیے اُن کی فلاح و بہبود پر توجّہ دینا ازحدضروری ہے۔ یہ تِھیم مسائل کے قابلِ عمل حل سامنے لانے کا موقع فراہم کرتا ہے اور نرسز کی روزمرّہ زندگی میں اِس کے فوری اطلاق سے اُن کے معاملاتِ زندگی میں طویل المدّت بہتری لائی جاسکتی ہے۔‘‘

عالمی یوم کے کچھ عرصے بعد آئی سی این اس تِھیم کے تحت ایک رپورٹ بھی جاری کرے گی، جس میں نرسز کی صحت اور فلاح وبہبود کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس شواہد پر مبنی حل پیش کیے جائیں گے۔ یہ رپورٹ نرسز کی ذہنی صحت، جسمانی فِٹ نیس، کام کی جگہ کی حفاظت اور مثبت کام کے ماحول کی تخلیق جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کرے گی۔

ہرچند کہ انٹرنیشنل کائونسل آف نرسزکی جانب سے 2025ء کا منتخب کردہ تِھیم مُلکی حالات کے تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، تاہم پاکستان کےزمینی حقائق اور معاشی و معاشرتی حالات کے پیشِ نظر اس تِھیم پر مؤثر انداز سے عمل درآمد خاصا مشکل ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں نرسنگ کے شُعبے کو گزشتہ کئی دہائیوں سے بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے نرسزکو نہ صرف پیشہ ورانہ سطح پرچیلنجز کا سامنا ہےبلکہ سماجی، معاشی اورادارہ جاتی سطح پر بھی اُن کے ساتھ انصاف نہیں کیاجارہا۔ نرسز کاسب سے بڑا مسئلہ وسائل کی کمی ہے۔ 

سرکاری اسپتالوں اور دیگر طبّی اداروں میں فنڈز کی قلّت کے باعث اُن کی تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت، ذہنی وجسمانی صحت اور فلاح و بہبود پر خاطر خواہ توجّہ نہیں دی جاتی اور اکثر نرسز کو فرسودہ آلات، ناکافی حفاظتی لباس اور بنیادی سہولتوں کے بغیر ہی خدمات انجام دینا پڑتی ہیں، جس سے نہ صرف اُن کی صحت بلکہ مریضوں کی دیکھ بھال بھی متاثر ہوتی ہے۔ 

علاوہ ازیں، غیر مناسب حالاتِ کار اور طویل اوقاتِ کار اُنھیں جسمانی و ذہنی طور پر سخت تھکا دیتے ہیں۔ یہاں یہ اَمربھی قابلِ ذکر ہے کہ اکثر اسپتالوں میں نرسزکی تعداد مریضوں کے مقابلے میں خاصی کم ہے، جس کی وجہ سے ہر نرس پر اضافی بوجھ پڑتا ہے، جب کہ شفٹس کا مناسب نظام نہ ہونے کی وجہ سے اُنھیں عموماً بغیر وقفے کے کام کرنا پڑتا ہے، جس سے اُن کی کارکردگی، جذبۂ خدمت اور صحت پر منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان میں نرسز کی تن خواہوں اور مراعات کا مسئلہ بھی خاصا اہم ہے۔ اکثر پاکستانی نرسز کو وہ معاوضہ نہیں مل رہا کہ جو اُن کی محنت اور خدمات کے شایانِ شان ہو۔ نیز، اُن کی ترقّی کے مواقع بھی خاصے محدود ہیں، جس سےنرسز میں مایوسی اور عدم اطمینان جنم لیتا ہے۔ 

دوسری جانب پاکستان میں سماجی طور پر بھی نرسز کو وہ عزّت ومقام حاصل نہیں کہ جس کی وہ مستحق ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اُنھیں کم تر سمجھا جاتا ہے اور بالخصوص خواتین نرسز کوکئی طرح کے تعصّبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کےنتیجے میں اُن کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔

اِسی طرح ہمارے ہاں نرسز کی ذہنی صحت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ نرسز کو اپنے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران مریضوں اور اُن کے لواحقین کے منفی رویّوں کے سبب دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نیز، خاندان اور پیشہ ورانہ زندگی میں توازن قائم رکھنے میں بھی اُنہیں مسائل کا سامنا رہتا ہے، جب کہ دوسری جانب اُنہیں کوئی مستقل سپورٹ سسٹم یا کاؤنسلنگ کی سہولت بھی دست یاب نہیں۔

بہرکیف، مذکورہ بالا تمام ترمشکلات کے باوجود اگرحکومت، متعلقہ ادارے اور معاشرہ سنجیدگی سے نرسز کی فلاح و بہبود کو ترجیح دے، تو نہ صرف اُن کا معیارِ زندگی بہتر ہوسکتا ہے بلکہ صحتِ عامّہ کا نظام اور معیشت بھی مستحکم ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ نرسز کی جسمانی و ذہنی صحت میں سرمایہ کاری ایک دیرپا قومی فائدہ ہے، جس سے مریضوں کی بہتر دیکھ بھال اور نرسنگ کے پیشے میں نئی نسل کی دِل چسپی کو فروغ ملے گا۔ تو اس تِھیم کو سنجیدگی سے اپنانا نہ صرف پاکستان میں صحتِ عامّہ کی بہتری بلکہ معیشت کے استحکام کی بھی ضمانت بن سکتا ہے۔ (مضمون نگار، پی ایچ ڈی اسکالر(نرسنگ) اور سندھ نرسز ایگزامینیشن بورڈ کے سابق اسسٹنٹ کنٹرولر ہیں)