• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مصوّرہ کا تاثراتی انداز فطری مناظر کو انفرادی اسلوب عطا کرتا ہے
 مصوّرہ کا تاثراتی انداز فطری مناظر کو انفرادی اسلوب عطا کرتا ہے

ڈاکٹر انیلہ ذوالفقار، لاہور

آرٹ، مصوّر کی زندگی کو کینوس کی سطح پر بکھیرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں رنگ، بُرش اور کینوس کے ذریعے مصوّر اپنی ذات کا اظہار کرتا ہے۔ اور…کہکشاں جعفری کی مصوّری کی نمائش میں جاکر یہ احساس ہوا کہ ہر مصوّر فطرت کے مشاہدے، دنیا کو سمجھنے اور حالاتِ حاضرہ پر تبصرے کا ایک منفرد نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ کہکشاں کی انفرادی مصوّری کی نمائش کا انعقاد حال ہی میں’’ ظہور الاخلاق آرٹ گیلری‘‘(ٹولینٹن بلاک)، نیشنل کالج آف آرٹس میں ہوا، جس کا افتتاح مایہ ناز ماہرِ فنِ تعمیرات، کامل خان ممتاز نے کیا۔

کہکشاں کراچی میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔آرٹ، ادب اور ثقافت سے اُنھیں ہمیشہ دل چسپی رہی، جب کہ اُنہوں نے آرٹس کی تعلیم پنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس سے حاصل کی۔ 1988ء سے یونی ورسٹی میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور28سال شعبہ فائن آرٹس سے وابستہ رہیں۔ 

کہکشاں جعفری کے فن کی مہارت رنگوں کے چناؤ، اُن کے استعمال میں فطری بہاؤ اور متحرّک پہلو میں نظر آتی ہے۔ اُنہوں نے اپنے کام میں روشنی اور سائے کے امتزاج کو نمایاں کرنے کے لیے متضاد رنگوں کو چُنا، جس کی بنا پر تصاویر پُرکشش معلوم ہوتی ہیں اور دیکھنے والوں کی توجّہ ڈرامائی انداز سے اپنی جانب مرکوز کرتی ہیں۔ رنگوں کے تضاد کی بنا پر تصاویر میں ایک چمک نمایاں ہے۔ 

کہکشاں کے مصوّرانہ اسلوب کا تجزیہ کیا جائے، تو تاثراتی انداز نمایاں ہے،جو فطری مناظر کو اپنے انفرادی اسلوب اور سوچ میں ڈھالتا ہے۔ مصوّرہ کہتی ہیں کہ کچھ فن کاروں کا آرٹ دیکھنے والوں کے لیے آگاہی اور سوچ کا باعث ہوتا ہے۔ خود اِن کی مصوّری، شائقین کی توجّہ فطری احساسات کی جانب مبذول کرواتی ہے، کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ بعض اوقات الفاظ تاثرات کے اظہار کے لیے کافی نہیں ہوتے اور اُن کے لیے مصوّری ہی اظہار کا ایک عُمدہ ذریعہ ہے۔

کہکشاں کے کام میں رنگ محض جمالیات کا اظہار نہیں، بلکہ فطری کیفیات ظاہر کرنے کا بھی باعث ہیں۔ اُن کے کام میں رنگوں کا انداز مکمل طور پر تاثر پر مبنی ہے، جو حقیقت سے زیادہ مصوّرہ کے انفرادی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ایک جملے میں کہیں، تو کہکشاں کی پینٹنگز اُن کی زندگی کی ترجمانی کرتی ہیں۔

جرمن تاثراتی مصوّری نے بیسویں صدی میں دنیا کو متاثر کیا،جس میں فن کاروں نے حقیقت کی بجائے جذباتی سچائی کو ترجیح دی۔ اُن کے ہاں رنگ، جذبات کی شدّت کے لیے استعمال کیے جاتے تھے اور یہ رنگ، عمومی طور پر غیر فطری اور علامتی ہوتے، جو فن کار کی انفرادی کیفیت ظاہر کرتے، نہ کہ محض کسی خاص مقام کی منظر کشی کرتے۔ جرمن تاثراتی مصوّروں کے مطابق، ہر رنگ جذباتی کیفیت رکھتا ہے۔ 

رنگ کی شدّت کو حقیقت سے بڑھ کر دِکھایا جاتا ہے تاکہ احساس کو تقویت دی جائے اور کہکشاں جعفری کا رنگوں سے برتاؤ بھی تاثراتی مصوّری کی تحریک سے منسلک دِکھائی دیتا ہے کہ مصوّرہ تہہ در تہہ برش اسٹروکس سے فن پارے میں تاثر نمایاں کرتی ہیں، جو دیکھنے والے کو خواب اور حقیقت کی کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔

کہکشاں کہتی ہیں کہ آرٹ کی مختلف تحریکوں کے مطالعے نے اُن کے خیال و مشاہدے کو متاثر کیا، لیکن بتدریج فطری انداز میں اُن کا مصوّرانہ اسلوب نمایاں ہوا، جو اُن کے تخیّل، تجربے اور احساسات کی نمائندگی کرتا ہے۔کہکشاں جعفری کے کام کا نمایاں موضوع مختلف فطری مناظر کی تصویر کشی ہے اور نمائش میں، اِس موضوع پر بڑی تعداد میں فن پارے نظر آئے۔ پہاڑی علاقے، وادیاں اور لاہور کے فطری مناظر کی عکّاسی میں موسم کی کیفیت کو منفرد انداز میں مصوّر کیا گیا۔

کچھ فن پارے براہِ راست اُنہی مقامات پر مصوّر کیے گئے، لیکن انفرادی تاثراتی اسلوب اِن فن پاروں پر نمایاں نظر آتا ہے۔ کچھ فطری مناظر اسٹوڈیو میں تصوّراتی خیال سے مصوّر کیے گئے۔ کہکشاں اپنے مصوّری کے تخلیقی عمل سے متعلق کہتی ہیں کہ وہ ابتدائی مرحلے میں اپنے مصوّرانہ موضوع کو سمجھتی ہیں اور پھر بتدریج رنگ اور برش سے تہہ در تہہ، چھوٹے بڑے فطری انداز سے لگائے گئے برش اسٹروکس سے تصویر کو منظرِ عام پر لاتی ہیں۔ دراصل نمائش میں انفرادیت، موضوعات اور تصاویر کی کمپوزیشن کی بنا پر نظر آئی اور شائقین ایک سے دوسری تصویر دیکھ کر جمالیاتی احساس سے روشناس ہوتے گئے۔ مجموعی طور پر ان کے کام کا تجزیہ کیا جائے، تو فنی اسلوب’’اظہار‘‘ پر مبنی ہے۔ 

کینوس پر نمایاں ہوتے چھوٹے بڑے برش اسٹروکس اور رنگ، اُن کے جذبات کی ہر فن پارے میں عکّاسی کرتے ہیں۔ اُن کا اندازِ مصوّری ایک مخصوص طرز پر مبنی ہے، جو وقت کے ساتھ مختلف موضوعات اپناتا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصوّرہ خط، لکیر سے زیادہ رنگوں کی روانی اور اہمیت میں دل چسپی رکھتی ہیں۔

پنجاب یونی ورسٹی میں کہکشاں جعفری کی شخصیت بحیثیت استاد باوقار، اصول پسند اور اخلاص سے بھرپور رہی۔ ان کا شمار اُن اساتذہ میں ہوتا ہے، جو تدریس کو محض ایک پیشہ نہیں، بلکہ اہم ذمّے داری سمجھتے ہیں۔ اِن کی تدریسی روش میں وقت کی پابندی، نظم و ضبط اور طلبہ کی مکمل تربیت کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ وہ فنی تعلیم کے ضمن میں فن کے بنیادی اصولوں کی سمجھ بوجھ پر خصوصی توجّہ دیتی ہیں اور اُن کا اندازِ تدریس نہایت مربوط، مرحلہ وار اور سوجھ بوجھ پر مبنی رہا۔ اُن کی تدریس کا مقصد طلبہ کو باشعور، حسّاس اور فکری طور پر انفرادی فن کار بنانے پر مرکوز رہا۔ 

اُنہوں نے طلبا و طالبات کو تیکنیک کے ساتھ مشاہدے کی اہمیت سے روشناس کروایا۔ وہ طلبہ کی تربیت میں کسی قسم کی نرمی یا سمجھوتے کی قائل نہیں، بلکہ سختی، سچائی اور مستقل مزاجی سے طلبہ کے فن میں پائے داری لانے پر یقین رکھتی ہیں۔ اُن کی فنی زندگی اور تدریس میں مستقل مزاجی اور عزم نمایاں ہے، جس کی بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر لگن کے ساتھ وقت کا درست استعمال کیا جائے، تو کام یابی کا حصول مشکل نہیں۔ بہرکیف، اُن کی زندگی اور فن و تدریس میں نظم و ضبط اور ترتیب کا عُمدہ امتزاج نظر آتا ہے، جو ایک قابلِ تحسین امر ہے۔