’’مدرز ڈے‘‘ یعنی’’ماؤں کے لیے مخصوص دن‘‘، دنیا بَھر میں ایک عظیم ترین رشتے سے اظہارِ الفت و چاہت کا دن ہے۔ یہ صرف گُل دستے، تحائف، محبّت بَھرے کارڈز یا خُوب صُورت الفاظ کے تبادلے کا دن نہیں، بلکہ ایک ایسا دن ہے، جب ہم اپنی زندگی کی سب سے قیمتی ہستی، ماں کے بے پایاں احسانات، قربانیوں کو یاد کرتے ہیں، اُس ماں کی قربانیوں کو، جو ہمارے وجود کی ابتدا اور بقا کا سرچشمہ ہے کہ ماں صرف ہماری جسمانی و ذہنی پرورش ہی کی نگہبان نہیں، اخلاقی و روحانی تعلیم و تربیت کی پہلی درس گاہ بھی ہے۔
تاریخ کے آئینے میں جھانک کر دیکھیں، تو ہمیں کچھ ایسی عظیم الشّان مائیں بھی نظر آتی ہیں، جن کی قربانیوں اور خدمات نے ایک انقلاب برپا کردیا اور ان عظیم ماؤں کی صفِ اوّل میں حضرت بی بی خدیجۃ الکبریٰؓ اور بی بی فاطمۃ الزہراؓ کے مبارک نام سب سے روشن اور تاب ناک دِکھائی دیتے ہیں۔ یہ مقدّس ہستیاں ایسی مثالیں ہیں، جن پر نہ صرف اہلِ ایمان، بلکہ ہر وہ شخص فخر کرتا ہے، جو خلوص، قربانی، صدق اور استقامت کے جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ : نبی کریمﷺ کی پہلی رفیقۂ حیات، اُمّتِ مسلمہ کی عظیم ماں
بی بی خدیجۃ الکبریٰؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور پھر اپنی پوری زندگی اور تمام تر دولت آپﷺ کے مبارک ومقدّس مشن پر نچھاور کر دی۔ آپؓ کی زندگی سراپا صداقت، قربانی، اور محبّت تھی۔
اُن کی ہستی گویا ایک چراغ کی مانند تھی۔ جب عرب معاشرہ جہالت، ظلم اور جبر کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا، حضرت خدیجہؓ کا کردار و عمل اِس قدر غیر معمولی رہا کہ آپؓ نے نہ صرف بطور تاجرہ ایک عظیم مقام حاصل کیا بلکہ سچّائی، دیانت اور عدل کے اصولوں پر کاربند رہ کر وہ تمام سماجی رکاوٹیں بھی توڑ ڈالیں، جو اُس زمانے میں عورتوں کے راستے میں حائل تھیں۔
جب حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبوّت کا اعلان فرمایا، تو ہر طرف سے مخالفت کا طوفان امنڈ پڑا۔ ایسے میں بی بی خدیجہؓ ہی وہ ہستی تھیں، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کو تسلّی و تشفّی دی، اپنے مال سے اُن کا مشن آگے بڑھایا۔ اپنی ہستی، قدم قدم ساتھ سے اُنھیں بھرپور حوصلہ دیا۔
آپؓ کی مالی قربانیوں کا یہ عالم تھا کہ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے ابتدائی دنوں کا تقریباً ہر عمل بی بی خدیجہؓ ہی کی دولت و ایثار کا مرہونِ منّت تھا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک خاتون اپنے مال و دولت، معاشرتی حیثیت، اپنے خاندان، حتیٰ کہ اپنی جان کو بھی حق و صداقت کی خاطر داؤ پر لگا دے، مگر بی بی خدیجہؓ نے یہ سب کچھ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبّت میں خوشی خوشی قربان کر دیا۔
بی بی خدیجہؓ کی شخصیت میں ہمیں ایک ماں کا وہ لازوال رُوپ بھی دِکھائی دیتا ہے، جو اپنی اولاد کی صرف جسمانی و ذہنی نشوونما ہی نہیں کرتی، بلکہ اُسے روحانی عظمتوں سے بھی روشناس کرواتی ہے کہ اُن کی گود میں پرورش پانے والی، حضرت بی بی فاطمۃ الزہراؓ ایک ایسی مثالی ہستی بنیں، جنہوں نے دنیا کو صبرو استقامت، عفّت و پاکیزگی اور عزّت و عظمت کا حقیقی مفہوم سِکھایا۔
حضرت فاطمۃ الزہراؓ: عظمتِ مادر کی معراج
اگر حضرت بی بی خدیجہؓ قربانی کی ابتدا ہیں، تو حضرت بی بی فاطمہؓ قربانی کی تکمیل۔ بی بی فاطمہؓ کی زندگی کا ہر پہلو ایک کامل ماں کی تصویر پیش کرتا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے آپؓ سے متعلق فرمایا۔’’فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔‘‘اور نبی کریم ﷺ کے جگر کے ٹکڑے نے بچپن ہی سے جدوجہد، قربانی اور مہر و وفا کی عملی تربیت اپنی ماں، بی بی خدیجہؓ سے حاصل کی۔
حضرت فاطمہؓ نے ایک مثالی بیٹی کی حیثیت سے نبی کریم ﷺ، ایک وفا شعار بیوی کی حیثیت سے حضرت علیؓ کی، تو بعدازاں ایک عظیم ماں کے طور پر حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ، بی بی زینبؓ اور بی بی اُمِ کلثومؓ جیسی جلیل القدر ہستیوں کی پرورش کر کے تاریخِ انسانیت کو وہ چراغ عطا کیے، جو قیامت تک حق و باطل کے معرکوں میں روشنی دیتے رہیں گے۔
حضرت فاطمہؓ کی مادرانہ عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپؓ نے نہ صرف اپنی اولاد کی عُمدہ پرورش کی، بلکہ اُن کی فکری، روحانی اور اخلاقی تربیت کا بھی ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کیا کہ پھر اُن کی اولاد میدانِ کربلا میں رہتی دنیا تک کے لیے صبر و وفا، غیرت و شجاعت اور حق پرستی کی ایک لازوال مثال بن گئی۔
اُنھوں نے ماں کے منصب کو محض ایک ذمّے داری نہیں سمجھا، بلکہ اُسے ایک عطیۂ خداوندی اور عبادت کا درجہ دیا اور درحقیقت’’مدرز ڈے‘‘ کی اصل رُوح، اِن ہی عظیم ہستیوں کے نقوشِ قدم پر چلنا ہے،کیوں کہ ایسی ہی مائیں معاشرے کو علم و حکمت، اخلاق و ایثار کی بنیادوں پر استوار کرتی ہیں۔اور ایسی ہی ماؤں کی تعلیم و تربیت سے وہ نسلیں تیار ہوتی ہیں، جو آگے چل کر نہ صرف دنیا کی رہنمائی کرتی ہیں، بلکہ تاریخ کو بھی نئی سمت عطا کرتی ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح ؒ: مادرِ ملّت، قوم کی ماں
اگر تاریخِ پاکستان میں ہم کسی ایک ایسی عظیم شخصیت کو تلاش کریں، جسے حقیقتاً’’ قوم کی ماں‘‘ کہا جا سکے، تو ذہن بلاتردّد محترمہ فاطمہ جناحؒ ہی کی طرف جاتا ہے۔ وہ مجسّم روشنی تھیں۔ اُن کا بانیٔ پاکستان، قائدِ اعظم محمّد علی جناحؒ کے ساتھ رشتہ، محض ایک بہن کا نہیں تھا، وہ اُن کی ساتھی، مشیر، دوست اور سب سے بڑھ کر اُن کے مشن کی ایک خاموش، مگر فعال محافظ تھیں۔
جس طرح ایک ماں اپنے بچّے کی پرورش میں اُس کی چھوٹی چھوٹی ضروریات، جذبات اور مسائل محسوس کرتی ہے، اِسی طرح محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنے بھائی اور اُن کے مشن کی ہر ضرورت، ہر درد اور ہر آزمائش کو اپنی جان پر جھیلا۔
اُنھوں نے اپنے بھائی کی بیماری کے ایّام میں جو قربانیاں دیں، وہ کسی ماں کی بے لوث، پُرخلوص خدمات سے کسی طور کم نہ تھیں۔ اُنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات، سماجی زندگی اور اپنا آرام وسکون، گویا سب کچھ ایک عظیم مقصد، آزاد مسلم ریاست کے خواب کی تعبیر کے لیے وقف کر دیا۔
جب تحریکِ پاکستان عروج پر تھی اور قائدِ اعظمؒ دن رات ایک آزاد مملکت کی جدوجہد کے لیے کوشاں تھے، تو پسِ پردہ ایک خاموش، مگر مضبوط قوّت کی طرح محترمہ فاطمہ جناحؒ ہر لمحہ اُن کی ڈھارس بندھاتی رہیں۔ تحریکِ پاکستان کے اجتماعات میں خواتین کو منظّم کرنا، اُنہیں بے دار کرکے قومی جدوجہد کا حصّہ بنانا ان کا ایک عظیم کارنامہ تھا۔
وہ نہ صرف خود میدانِ سیاست میں اُتریں، بلکہ اُنہوں نے ایک ایسی نسل بھی تیار کی، جس نے آزادی کے سفر میں عورت کے کردار کو زندۂ جاوید کر دیا۔ایک موقعے پر قائدِ اعظم نے فرمایا۔’’اگر فاطمہ میری ہم سفر نہ ہوتیں، تو شاید مَیں اپنے مقاصد حاصل نہ کرپاتا۔‘‘
یہ الفاظ اِس رشتے کی گہرائی اور عظمت کا پتا دیتے ہیں۔ اُنھوں نے قائدِ اعظمؒ کی بیماری کے آخری ایّام میں جس صبر و حوصلے اور ہمّت و استقامت سے اُن کی خدمت کی، وہ دنیا کی بہترین ماؤں کے مثل ہے۔یہ سچ ہے کہ وہ تھکتی تھیں، نہ شکایت کرتیں اور نہ ہی خوف زدہ ہوتیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد فاطمہ جناحؒ نے’’مادرِ ملّت‘‘ کا لقب پایا، جو یقیناً قوم کے لیے اُن کی بے پایاں محبّت و خدمت اور قربانیوں کا اعتراف تھا۔ جب پاکستان اپنے ابتدائی ایّام میں مشکلات کا شکار تھا، ہر طرف سازشیں ہو رہی تھیں اور جمہوریت کو قدم جمانے کی مہلت نہیں دی جا رہی تھی، تو مادرِ ملّت نے ایک مرتبہ پھر اپنی قوم کی رہنمائی کے لیے آواز بلند کی۔
1965ء میں اُنہوں نے ایک’’ مردانہ سیاسی میدان‘‘ میں داخل ہو کر ایّوب خان جیسے آمر کے خلاف صدارتی انتخاب لڑا۔ اگرچہ دھاندلی اور ریاستی جبر کے ذریعے اُن کی کام یابی چھین لی گئی، مگر فاطمہ جناحؒ نے قوم کو یہ سبق ضرور دیا کہ حوصلے، ہمّت اور سچّائی کے ساتھ ظلم و استبداد کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے۔
ایک بوڑھی، نحیف خاتون نے پاکستان کے کونے کونے میں جا کر عوام کو جگایا، اُن کے دِلوں میں جمہوریت کی شمع روشن کی اور مظلوم عوام کو اُن کا حق مانگنے کا سلیقہ سکھایا اور اُن کا یہ کردار، ماں کے اُس جذبے کی تجسیم تھا، جو اپنی اولاد کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتی۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے بطور’’ مادرِ ملّت‘‘ پاکستانی ماؤں کو یہ پیغام دیا کہ ماں کا اصل مقصد صرف اپنی اولاد کی دیکھ بھال ہی نہیں، بلکہ اُس کی فکری، اخلاقی اور قومی تربیت بھی ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹّو: عالمی رہنما، دخترِ مشرق، مثالی ماں
بے نظیر بھٹّو شہید کا نام ذہن میں آتے ہی علم و دانش، ہمّت و حوصلے، وفا و قربانی اور بے مثال محبّت کی تصویر اُبھرتی ہے۔ وہ صرف پاکستان کی پہلی منتخب خاتون وزیرِ اعظم ہی نہیں تھیں، بلکہ ایک ایسی ماں بھی تھیں، جس نے قوم سے بھی اپنی اولاد کی طرح محبّت کی، اس کی پرورش کی، اس کے زخموں پر مرہم رکھا اور پھر اپنی جان کا نذرانہ دے کر اپنی قوم کو سربلندی اور جمہوریت کا پیغام دیا۔ بے نظیر بھٹو نے بچپن ہی سے جرأت و بہادری، ایثار و قربانی کا درس اپنے عظیم والد، ذوالفقار علی بھٹو سے لیا۔
جب اُن کے والد کو جیل میں ڈالا گیا، عدل کے نام پر ظلم کے فیصلے سُنائے گئے، تو ایک بیٹی نے نہ صرف اپنے والد کا مقدمہ لڑا، بلکہ قوم کے ہر مظلوم کا مقدمہ لڑنے کا بار بھی اپنے کاندھوں پر اُٹھا لیا۔ وہ درد جو ایک بیٹی نے اپنے والد کی قربانی میں محسوس کیا، وہی درد اُنہوں نے اپنے پورے سیاسی سفر میں اپنی قوم کے لیے محسوس کیا اور یہی درد اُنہیں ایک عظیم ماں کا درجہ عطا کرتا ہے۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی ایک مثالی ماں کا کردار نبھایا۔ بحیثیت ایک عالمی رہنما، جب ان پر ذمّے داریوں کا بوجھ تھا، جب وہ دنیا بَھر کے دباؤ اور اندرونی سازشوں کا بھی سامنا کر رہی تھیں، تب بھی اُنہوں نے اپنی اولاد بلاول، بختاور اور آصفہ کی تربیت اور حفاظت کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔
وہ ہر اُس عظیم ماں کی شبیہہ تھیں، جو چاہے جتنی بھی مصروف ہو، اپنی اولاد کی ضروریات، جذبات و احساسات اور خوابوں سے کبھی غافل نہیں ہوتی۔ اُن کے وہ الفاظ آج بھی دل چُھو لیتے ہیں۔’’میرے بچّوں کی مسکراہٹ میری سب سے بڑی کام یابی ہے۔‘‘یہ جملہ محض ایک ماں کی بے لوث محبّت کا اظہار نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی عظیم عورت کا اعلان تھا، جو ذاتی اور قومی ذمّے داریاں یک ساں طور پر نبھاتی تھی۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی قوم کے ساتھ بھی ایک ماں جیسا رشتہ استوار کیا۔ جب ہر طرف غربت، جہالت، اور آمریت کی ظلمتوں نے اندھیرا کر رکھا تھا، تو اُنھوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھانے کا خطرہ مول لے کر عوام کی آواز بننے کا فیصلہ کیا۔
ہر مظلوم، محروم، مجبور پاکستانی کو اپنی اولاد کی طرح سمجھا اور قوم کی خدمت کو اپنامحور و مقصد بنا لیا۔ اُن کے دورِ حکومت میں عورتوں کے حقوق، تعلیم، صحت اور معاشی خوش حالی کے جو منصوبے شروع کیے گئے، وہ اِس امر کی دلیل ہیں کہ وہ قوم کی بیٹیوں کے لیے ایک ماں ہی جیسا درد رکھتی تھیں۔
وہ انتہائی خطرناک حالات میں پاکستان لَوٹیں کہ دل میں صرف ایک فکر تھی، میری قوم، میرے لوگ، میری زمین۔ اُنہیں علم تھا کہ واپسی کی قیمت شاید اُن کی جان ہو، لیکن اُنہوں نے یہ قیمت خوشی سے چُکائی، کیوں کہ ایک ماں اپنی اولاد کی سلامتی کے لیے اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی اور اُن کی شہادت نے اِس حقیقت پر مہر ثبت کردی۔ بلاشبہ اگر کوئی ماں، قوم کی ماں بننے کا فیصلہ کر لے، تو پھر اس کی جدوجہد اور قربانی رہتی دنیا تک یاد رکھی جاتی ہے۔
نیز، بے نظیر بھٹو نے اپنی جان دے کر یہ بھی ثابت کر دیا کہ مائیں صرف گھروں کی دیواروں میں مقیّد نہیں ہوتیں، وہ قوموں کی سرحدوں کی محافظ ہیں اور تاریخ کی تقدیر بھی سنوارتی ہیں۔
’’مدرز ڈے‘‘ہمیں یہ عہد یاد دِلاتا ہے کہ ہم اپنی ماؤں کا سر کبھی جُھکنے نہیں دیں گے۔ ہم اپنے مُلک کو امن، ترقّی اور خوش حالی کا گہوارہ بنائیں گے۔ ہم اپنی ماؤں کے خوابوں کو ٹوٹنے نہیں دیں گے۔ ہم ہر اُس سازش کو ناکام بنائیں گے، جو ہماری آزادی، غیرت اور ہماری شناخت مٹانے کے لیے گھڑی جائے گی۔