معصومہ، حیدرآباد
بلاشبہ یہ مائیں بڑی امیر ہوتی ہیں کہ باتوں، یادوں کے بیش بہا خزانے ان کے زیرِ ملکیت ہوتے ہیں۔ کبھی نہ ختم ہونے والے خزانے۔ اور انہی خزانوں سےیہ اپنی زندگی میں بےبہا رنگ بھرتی ہیں۔ کبھی ہنس کر، تو کبھی رو کر۔ سنتے ہیں، گزرے زمانے میں بڑے بوڑھے اپنے گھر یا کمرے کی چھت کی کڑیاں گِن کر وقت گزار لیا کرتے تھے، لیکن اب جب کڑیاں نہیں رہیں، تو وہ ان سپاٹ چھتوں پر اپنے یادوں کے خزانے کھوجتے ہوں گے۔
کبھی کچھ لکھ کر، کبھی کچھ تصویریں بنا کر اور کبھی اُنہیں مٹا کر۔ اورجب یہ مائیں نانیاں، دادیاں بن جائیں، تب تو ان کے خزانوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کی باتوں کو بھی اپنے بچّوں کی یادوں میں جمع کرتی جاتی ہیں اور یوں اُن کا یادوں کا یہ خزانہ کبھی کبھار تو دُگنا بلکہ تین گُنا بھی ہوجاتا ہے، اور وہ مَرتے دَم تک اس خزانے کی ملکہ بنے رہنے ہی میں بڑی خوش باش، خُوب شاداں و فرحاں رہتی ہیں۔
دراصل ان ماؤں کو اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی ہرہرحرکت، شوخی شرارت میں اپنے بچّوں کا بچپن، لڑکپن اور پھر جوانی نظر آتی ہے۔ بیٹی، بہوؤں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی ہیں اور اپنا وقت یاد کرتی ہیں۔ اُن کی بھاگ دوڑ، اُن کا پکانا کِھلانا، اُن کا دھونا دُھلانا اور اُن کی صفائی سُتھرائی دیکھ کر اپنے ماضی میں کھو جاتی ہیں۔
کبھی مائیں بچّوں کو پڑھا رہی ہیں، کبھی کوئی کھیل کِھلا رہی ہیں، تو کبھی ڈانٹ ڈپٹ بھی کررہی ہیں۔ مطلب کبھی پیار،کبھی سزائیں، توکبھی دُعائیں۔ کبھی شاباشی و انعام، تو کبھی ڈانٹ پھٹکار اور کبھی ہنسی کھیل۔ اور… آج کی ماؤں کے اِن سب رنگ و آہنگ میں ماضی کی مائیں اپنا کھویا وقت دیکھتی، ایک بار پھر نئے سرے سے جینے لگتی ہیں۔
کوئی بچّہ بیمار ہوگیا، تو اُسے پھولوں کی طرح سنبھالنا، اُس کےخُوب ناز نخرے اُٹھانا، اُس کی دوا دارو کا پوراخیال رکھنا، اُس کےلیے پرہیزی کھانا پکانا وغیرہ صرف ماؤں ہی کا وصف ہے۔ اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ بچّہ روئے، تو ساتھ مائیں خُود بھی رو پڑتی ہیں۔ ہنسے، تو خُود بھی ہنسنے لگتی ہیں۔ بچّوں کے امتحان ہو رہے ہوں، تو گھر کے کام مختصر ہو جاتے ہیں۔ پکانا، کھانا کم ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے، ماؤں کے اپنے ایگزامز ہو رہے ہیں اور پھر بچّوں کے اچّھے نتیجے کے لیے جی جان سے دُعائیں، نوافل، تہجّد کی ادائی سمیت اور ہزار ہا جتن جتن۔
بچّہ اچھے نمبرز سے پاس ہو کر اگلی کلاس میں چلا جائے، توخوشی سے نہال ہوئے جاتی ہیں، پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے۔ہر ایک کو پکڑ پکڑ کر اپنے بچّے کا نتیجہ بتاتی ہیں۔ اس کےبعد بچّوں کی نئی کتابیں، کاپیاں اور کورز… کچھ نہ پوچھیں، بچّوں کے اسکول کے نئے سال کا آغاز بھی، خوب ہی ہنگامہ خیز ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ اپنے بچّوں کے کام ماؤں کو کبھی نہیں تھکاتے، الٹا اُنھیں قوّت، مسرت و فرحت فراہم کرتے ہیں۔
رمضان المبارک میں کوئی بچّہ روزہ رکھ لے، تو اِن بے چاری ماؤں کا حال دیکھنے والا ہوتا ہے۔ روزے دار بچّے کے ارد گرد پِھرنا، اُسے دھیان سے وضو کروانا، اُس کے آرام کا حد درجہ خیال رکھنا اور پھر اُس روز افطاری کا ایسا اہتمام کہ لوازمات دیکھ دیکھ ہی کے طبیعت سیر ہوجائے۔
یہ مائیں، اپنے بچّوں کی نیک ہدایت، اُن کی حفاظت اور کام یابی و کام رانی کی کاوشوں اور دُعاؤں میں اس قدر مگن و محو رہتی ہیں کہ اُنہیں پتا ہی نہیں چلتا اور اُن کے بچّے اُن کے قد سے اونچے ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ پھر وہ سَراُونچا کرکے اُنہیں دیکھتی ہیں۔ ماؤں کو اُن کا ماتھا چُومنا ہو تو بچّوں کو اپنا سر جُھکانا پڑتا ہے۔
اور یہ بھی سو فی صد حقیقت ہے کہ ماؤں کو اپنی اِس بے لوث محبّت و چاہت، اپنی ممتا کے بےکنارسمندر، بہتے دریا کے لیے کسی ایوارڈ، انعام، صلے، ستائش کی کوئی حاجت نہیں کہ اُن کے لیے اُن کے بچّوں کی کام یابی و کام رانی ، ترقی و خوش حالی ہی اُن کا سب سے بڑا اعزاز، ایوارڈ ٹھہرتی ہے۔