• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برادرم سہیل وڑائچ نے حالیہ تحریر میں خود کو ’چراغ آخر شب‘ سے تشبیہ کیا دی، اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے۔ احتجاج کرنا چاہا مگر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ ابھی تو عزیزم یاسر پیرزادہ سے چونچ لڑائی ہے۔ ہر وقت دوستوں سے جھگڑنا، اپنے ہی سینہ چاک سے دست و گریباں ہونا کہاں کی شرافت ہے۔ سہیل صاحب اس نیاز مند سے کوئی دو تین برس بڑے ہیں اور حالیہ چار عشروں کے جاں گسل سیاسی اتار چڑھائو میں بامعنی صحافت کے ہراول میں رہے ہیں۔ اس بیان میں کوئی مبالغہ نہیں مگر اقبال نے کار جہاں کی دراز ی کا مضمون کس بلند نگاہی سے باندھا۔ گماں مبر کہ بپایاں رسید کار مغاں / ہزار بادہ ناخوردہ در رگ تاک است۔ (مے خانے کے سردار کا کام ابھی ختم نہیں ہوا کیونکہ ابھی انگور کی شاخوں میں ہزاروں پیالے باقی ہیں)۔ چراغ کا منصب محفل میں روشنی کرنا ہے۔ اگر چراغ ہی ایسی مایوسی کی بات کرے گا تو ہم ایسے دالان کے طاق پر رکھے دیے کیا کریں گے۔ چراغ اور دیے کی قدر پیمائی میں احمد فراز نے حتمی حکم لگا رکھا ہے۔ ’کون طاقوں پہ رہا، کون سر راہ گزر / شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے‘۔ تاریخ اپنا فیصلہ ضرور دیتی ہے۔ آئیے 82برس پیچھے چلتے ہیں۔

نومبر1943ء میں نیویارک ٹائمزنے آرتھر کوئسلر کا ایک مضمون شائع کیا۔ عنوان تھا The Fraternity of Pessimists۔ تب دوسری عالمی جنگ ابھی جاری تھی لیکن نتیجہ کم و بیش واضح ہو رہا تھا۔ اس مضمون کے ایک حسب حال ٹکڑے کا خلاصہ عرض کرتا ہوں۔ ’جنگ کے ابتدائی دن اضطراب سے معمور تھے۔ روس اور امریکا سانس روکے یورپ کی پٹائی دیکھ رہے تھے۔ رودبار انگلستان کے پار برطانیہ کا چھوٹا سا جزیرہ فسطائیت کی قاہرانہ افواج سے نبرد آزما تھا اور ہم میں سے ہر ایک دل میں سوچتا تھا کہ جنگ ختم ہو جائے تو کیسا خوشیوں بھرا زمانہ شروع ہو گا۔ اب وہ وقت قریب آن لگا ہے کہ مغرب میں دوسرا محاذ کھولا جائے گا جس کا نتیجہ طے ہے مگر جنگ ختم ہونے کے بعد تھکا ہارا سپاہی گھر لوٹے گا تو معلوم ہو گا کہ اس کا گھر ابھی خستہ ہے۔ اس کے دروازے پر قرض دہندگان کے تقاضے لٹک رہے ہیں۔ اس کی بیوی بدستور بدمزاج ہے اور اس کے بچے کی ناک مسلسل بہتی ہے‘۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ جو آزمائش دنیا نے چھ برس بھگتی، ہم چار روز میں کامران لوٹے ہیں۔ معجزہ تو رونما ہو گیا۔ ہمارے خطے کے تاریخ شناس جانتے ہیںکہ اسباب کچھ بھی ہوں، ہم نے پہلی بار فیصلہ کن کامیابی حاصل کی ہے۔ ہمارے سپاہی ہمیشہ سے بہادر رہے ہیں۔ ہم اس بار بھی ان کے شکرگزار ہیں مگر پلٹ کر گھر کی طرف دیکھتے ہیں تو دیرینہ مسائل ابھی موجود ہیں۔ جنگ لڑنا سپاہی کا کام ہے اور قوم کی معیشت، تمدن اور داخلی توانائی کو ترقی دینا سیاسی رہنمائوں کی ذمہ داری ہے۔

ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلسل دھکم پیل میں ہمارا شہری وطن سے بے نیاز ہو گیا ہے اور اپنے طور پر کسی طرح صبح کو شام کرنے کی فکر میں ہے۔ اس کیفیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شہری قوم کی سمت طے کرنے کے فیصلوں میں شریک نہیں ہے۔ اس کے لیے جمہوریت کا نسخہ موجود ہے۔ جمہوریت کا امتحان یہ ہے کہ شہری کو یہ اعتماد حاصل ہونا چاہیے کہ اس کا ووٹ قوم کے مستقبل پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی وہ صبح طلوع نہیں ہوئی۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے بہت کم رقبے پر بہت زیادہ آبادی کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ تیزی سے بدلتی دنیا میں ہمیں آبادی میں اضافے کی رفتار روک کر اپنے بچوں کو معیار ی تعلیم دینے پر پوری توجہ دینی چاہیے۔ دنیا ہمارے بچوں کو پڑھانے نہیں آئے گی۔ یہ بارِ امانت تو ہمیں خود اٹھانا ہے۔ ہمارا سپاہی تربیت کی جس گھاٹی سے گزرتا ہے، ہمارے استاد کو بھی ویسا ہی چاق و چوبند ہونا چاہیے۔ اس کے لیے استاد، خاص طور پر ابتدائی درجوں کے لیے استاد کے انتخاب کا معیار کڑا ہونا چاہیے۔ بچے تو ہمارے مہمان ہیں۔ انہیں کتاب اور قلم کی ثقافت ہمیں سکھانا ہے۔ یہ کام اگر ابتدائی طور پر نہیں ہوتا تو اعلیٰ تعلیم میں ہم کیسے ہی افلاطون استاد کیوں نہ لے آئیں، ہماری کوشش لاحاصل رہے گی۔ تیسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں معیشت کو قرض کی بجائے پیداوارکے راستے پر ڈالنا ہے۔ یہ پیداوار کھیت سے کارخانے تک توجہ مانگتی ہے۔ ہم ایسے عجیب ہیں کہ اپنے ذہین ترین بچوں کو بیرون ملک بھیجتے ہیں اور اندرون ملک اینٹ پتھر کے بنگلے کھڑے کر رہے ہیں۔ باصلاحیت بچے ہمارا اصل اثاثہ ہیں۔ بڑے بڑے بنگلے ہم کسی کو برآمد نہیں کر سکتے۔ اپنے خزانوں کی حفاظت تو ہمیں کرنا ہے۔ گھر اور دکان پر تالا لگاتے ہیں، پہرہ دیتے ہیں تو حقیقی دولت کے لٹنے پر نچنت کیوں ہیں۔ ہمارا چوتھا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شہریوں میں تحفظ کا احساس کیسے پیدا کیا جائے۔ اس کے لیے قانون کو منصفانہ ہونا چاہیے اور عدالت کو انصاف کرنے کا پورا اختیار ہونا چاہیے۔ ہمارے قانون بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور نظام عدل بہت بڑی تطہیر مانگتا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ شہریوں کو ان مسائل کی نشان دہی پر کسی تکلیف یا انتقام کا دھڑکا نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں صحافت کو لالچ یا خوف سے بے نیاز ہونا چاہیے۔ عوام ہمیشہ ذہین ہوتے ہیں۔ وہ اچھے سیاسی رہنما ،قابل استاد، فہمیدہ منصف، دیانت دار بیوپاری اور کھرے صحافی کی پہچان رکھتے ہیں۔ مسلسل احتیاج اور وسائل کی قلت کے باعث ہمارے اندر ضرورت سے زیادہ غصہ آ گیا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو شک سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں غصہ کم کرنا چاہیے اور ہمہ وقت شک اور حسد کی بجائے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا چاہیے۔ اپنے ہم وطنوں کی تکلیف میں ان کا ساتھ بھی دینا چاہیے۔ یہ پاکستان کا حقیقی خواب ہے اور ہماری نسلوں نے تسلسل سے دیکھا ہے۔ ندیم صاحب نے یہی دعا مانگی تھی۔ ’خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے / وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو‘۔

تازہ ترین