آٹوموبائل انڈسٹری کا عالمی حجم 4.36ٹریلین امریکی ڈالر سے زائد ہے۔ یہ شعبہ نہ صرف شہریوں کی نقل و حرکت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے بلکہ اسٹیل، شیشہ، انجینئرنگ، ربڑ اور پینٹ جیسی متعدد ذیلی صنعتوں کی ترقی کا عمل بھی اس سے جڑا ہوا ہے۔ تاہم پاکستان کی آٹوموبائل انڈسٹری کو طویل عرصے سے فرسودہ ٹیکنالوجی اور معیار کے باعث صارفین کے عدم اطمینان کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں اس صنعت کو حاصل تحفظ کی پالیسی نے ترقی اور جدت کا راستہ روک رکھا ہے۔ اسکی وجہ سے یہ صنعت عالمی مسابقت اور بین الاقوامی معیارات سے دور ہے اور پاکستان کے شہری عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں زیادہ قیمتیں ادا کرنے کے باوجود کم معیار اور ٹیکنالوجی کی حامل گاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں اس حوالے سے پالیسی سازی کا عمل طویل عرصے سے لوکلائزیشن اور انڈیجنائزیشن کے نام پر یرغمال بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ تر پالیسیاں چند منتخب افراد کے مفاد میں بنائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے صارفین کے حقوق کا تحفظ پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ اس گمراہ کن پالیسی کی ایک واضح مثال نئی کاروں کی درآمد پر طویل پابندی ہے۔ ملک میں کئی دہائیوں سے مقامی کاروں کی برآمد کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ دوسری طرف پہلے تین سال سے پانچ سال تک پرانی کاروں کی درآمد کی اجازت دی گئی اور پھر اس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ ان بے ترتیب پالیسیوں نے مقامی سطح پر آٹو انڈسٹری میں مسابقت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اوراس سے صارفین کی پسند کو بھی محدود کرنے کا کام لیا گیا ہے۔ پاکستان میں آٹوموبائل انڈسٹری کی طرف سے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہیں مقامی طور پر تیار کی گئی گاڑیاں برآمد کرنے کے لئے کئی دہائیاں درکار ہیں۔ حالانکہ بہت سے ممالک اس صنعت میں پاکستان کے بعد قدم رکھنے کے باوجود یہ ہدف حاصل کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی حال ہی میں آٹو انڈسٹری پر ٹیرف کو معقول بنانے پر زور دیا ہے۔ اس حوالے سے آل پاکستان کار ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کی طرف سے بھی حکومت سے یہ مطالبہ کیا جا چکا ہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں بینکنگ چینلز کے ذریعے مخصوص شرائط کے ساتھ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی جائے۔ اس طرح نہ صرف دستاویزی معیشت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی بلکہ ٹیکس دینے کے کلچر میں بھی اضافہ ہو گا اور درآمد کنندگان کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو سیلز ڈیٹا جمع کروانے کا پابند بنایا جا سکے گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ڈیوٹی اور ٹیکس درآمد شدہ گاڑیوں کی فرسودہ انوائس ویلیو پر مبنی ہو۔ اس سلسلے میں درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکس کے نظام کو آسان اور سادہ بنانے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں ہر قسم کی گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جانی چاہیے جبکہ 50 کے وی تک کی الیکٹرک گاڑیوں پر بھی ڈیوٹی کم ہونی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام کو الیکٹرک وہیکلز استعمال کرنے پر راغب کرکے فوسل فیول کی درآمد کو بچایا جا سکے۔ ایک اندازے کے مطابق استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دینے کیلئے مذکورہ بالا ٹیرف اور درآمدی پالیسی میں اصلاحات سے حکومت کو 120 ارب روپے سے زائد کا ریونیو حاصل ہو گا جبکہ اس سے ملک کو درپیش ماحولیاتی مسائل پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔ اس طرح گاڑیوں کی تجارتی بنیادوں پر درآمد سے مقامی طور پر تیار کی جانے والی کاروں کی صنعت میں بھی صحت مند مقابلے کی فضا پیدا ہو گی۔ مقابلے کی یہ فضا عام لوگوں کو یہ موقع فراہم کرے گی کہ وہ کم پیسوں میں اپنی ضرورت کے مطابق اچھی گاڑی حاصل کر سکیں گے۔ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کی اجازت دینے کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے حکومت کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے استعمال، ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہونے والی آمدن کا مکمل ڈیٹا اور کنٹرول موجود ہو گا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چار دہائیوں سے مقامی کار اسمبلرز کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے متعدد مراعات اور ضرورت سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ انہیں کار اسمبلنگ لائنوں کے اہم اجزا کو مقامی طور پر تیار کرنا تھا لیکن وہ اب بھی زیادہ تر بھاری پرزے درآمد کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں کسی بھی کمپنی نے حکومت کیساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے وقت جس ڈیلیٹیشن پلان پر اتفاق کیا تھا اس پر عمل نہیں کیا۔ یہ کمپنیاں ٹیکنالوجی کی منتقلی کی ضرورت کو پورا کرنے میں بھی ناکام رہی ہیں۔ چار دہائیوں کے بعد بھی یہ کمپنیاں زیادہ تر پارٹس درآمد کر رہی ہیں جس کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو رہتا ہے۔
اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ بزنس مین پینل کے چیئرمین میاں عثمان ذوالفقار نے استعمال شدہ گاڑیوں کے تجارتی درآمد کنندگان اور برآمد کنندگان کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کا عندیہ دیا ہے۔ یہ وفد درآمدی نظام کو ہموار کرنے اور معاشی نقصانات سے بچنے کیلئے پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے سفارشات پیش کرے گا۔ حکومت کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ استعمال شدہ کاروں کے درآمدی نظام میں بڑھتی ہوئی پیچیدگیاں مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہی ہیں اوراس کاروبار سے وابستہ لوگوں کو بھی شدید متاثر کر رہی ہیں۔ اس سیکٹر کو درپیش موجودہ مسائل درآمدات سے متعلق ضوابط بالخصوص کسٹم قوانین کے سیکشن 138(3A) اور 140(6A) کی تشریح اور نفاذ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ریفنڈز اور گاڑیوں کی کلیئرنس میں تاخیر ہوتی ہے جس سے درآمدکنندگان کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔