• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اگست، 2010ء کی بات ہے پاکستان کو ’ایٹمی طاقت‘ بنانے کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر سے طویل انٹرویو ختم ہوا، کچھ ’آف دی ریکارڈ‘ گفتگو کے بعد انہوں نے مجھے یہ کہہ کر مشکل میں ڈال دیا کہ ریکارڈنگ یہیں چھوڑ جاؤ اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ انٹرویو دیا کیوں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے چہرے کے تاثرات دیکھے تو مسکرا دیے اور کہنے لگے، ’’یہ جو گھر کے باہر بھائی لوگ کھڑے ہیں سوالات بھی کریں گے اور کیا پتہ ٹیپس بھی لے لیں‘‘۔ میرا تجسس بڑھا میں نے کہا، ’ڈاکٹر صاحب پھر کیا کریں‘۔ جواب آیا، ’’پریشان نہ ہو میرا ڈرائیور تھوڑی دیر میں تمہارے دفتر پہنچا دے گا‘‘۔ کچھ اطمینان ہوا کیونکہ یہ میرے چند یادگار انٹرویوز میں سے ایک تھا جس میں پاکستان کی مکمل ’ایٹمی کہانی‘ موجود تھی ذوالفقار علی بھٹو سے نواز شریف تک۔

جب میں اسلام آباد میں انکے گھر انٹرویو کیلئے جا رہا تھا تب بھی یہ سوال میرے ذہن میں موجود تھا کہ اتنی سیکورٹی میں جانے کی اجازت بھی ہوگی یا مایوس لوٹنا پڑے گا بہرکیف چانس تو لینا ہی تھا سو لیا۔ دو جگہ گاڑی روکی گئی، سوالات بھی ہوئے مگر چونکہ ٹی وی پر آنے کے بعد تعارف کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی لہٰذا سیکورٹی والوں نے بھی اچھے انداز ہی میں پوچھا مگر سب سے دلچسپ بات انٹرویو کے بعد واپس جاتے ہوئے اسی افسر نے کہا ۔ ’’سر، انٹرویو ہو گیا‘‘ میں نے احتیاط برتتے ہوئے کہا۔ ’جی ملاقات ہو گئی خاصی معلوماتی تھی، پھر اس نے مجھے لاجواب کر دیا اور میں ڈاکٹر صاحب کی معصومیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ افسر نے کہا، ’’اور انٹرویو کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا ہوگا کہ کاپی یہیں چھوڑ جاؤ وہ پہنچا دیں گے‘‘۔ میری تقریباً ہنسی نکلتے رہ گئی اور میں نے اس سے رخصت چاہی۔ البتہ میں یہ سوچ رہا تھا اب تو پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور گوکہ سیکورٹی تو ایسے شخص کی ضروری ہوتی ہے ویسے بھی جنرل پرویز مشرف کے دور میں جو ان کے ساتھ ہوا تاریخ کا حصہ ہے مگر جب یہ پروگرام خفیہ تھا تب غالباً 1984میں اس وقت ’دی مسلم‘ اخبار کے مدیر جناب مشاہد حسین سید کیسے بھارتی صحافی کلدیپ نائر کو ڈاکٹر قدیر خان کے گھر لے گئے اور پھر یہ خبر ’پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے‘ سب سے پہلے بھارت میں چھپی۔ عین ممکن ہے یہ خبر لیک کرائی گئی ہوگی کہ مشاہد صاحب کا خود کہنا ہے کہ اس انٹرویو کے بعد انہیں دی مسلم اخبار سے استعفیٰ دینا پڑا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو میں نے انتہائی وجیہہ انداز میں گفتگو کرنے والا شخص پایا۔ اپنے خیالات میں وہ ایک لبرل اور روشن خیال شخص تھے جو شعر و شاعری سے بھی شغف رکھتے تھے۔ انکے ساتھ ایک دو نشستیں کراچی میں بھی رہیں۔ وہ یادگار انٹرویو، دو حصوں میں آج بھی غالباً یوٹیوب پر موجود ہوگا۔ تاہم اس یادگار انٹرویو کے چند اہم نکات یہاں پیش کر کے کچھ حقائق سامنے رکھتے ہیں کہ آخر 77سال میں پاک بھارت کشیدگی کو بڑھتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ صرف تباہی لاتی ہے تاہم اس وقت ایک ایٹمی توازن تو موجود ہے مگر جب تک ہم دوست نہ سہی پڑوسی بن کر نہیں سوچیں گے بات آگے نہیں بڑھے گی۔ بات کشمیر کی ہو یا دہشت گردی کی ’بات تو کریں‘۔

ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اس حوالے سے خاصی دیر آف دی ریکارڈ بھی گفتگو رہی تاہم آن دی ریکارڈ میں ان سے پوچھا، پاکستان کےایٹمی پروگرام کی کہانی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ’’یہ 18مئی 1974,سے شروع ہوئی جب بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا، میں ان دنوں بلجیم میں نوکری کررہا تھا بعد میںPHD کر کے ہالینڈ منتقل ہو گیا تھا۔ میں نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا کہ پاکستان کیلئے ایٹمی توازن قائم کرنا اب ضروری ہے۔ 1971 کے زخم بھی تازہ تھے۔ وزیر اعظم کا جواب آیا کہ میں پاکستان آجائوں وہ ملنا چاہتے ہیں‘‘۔ میں نے بھٹو کے حوالے سے پوچھا، انہیں آپ نے کیسا پایا۔ ’’بس اس سے سمجھ لو کہ دو ملاقاتوں میں اس نے مجھ سے کہا اب آپ واپس نہ جائیں پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے۔ اس نے جس تیزی سے کام شروع کروایا وہ کوئی دوسرا نہیں کروا سکتا۔ کام میں کوئی رکاوٹ یا روایتی بیورو کریسی کی مشکلات شروع میں آئیں جو میں نے بھٹو صاحب کو بتائیں توانہوں نے ایک دن تمام متعلقہ افسران کو بلایا اور اس حوالے سے ایک فوکل پرسن کو مقرر کرتے ہوئے عجیب جملہ کہا۔ آج کے بعد ڈاکٹر صاحب کو دوبارہ مجھ سے شکایت کا موقع نہ ملے ان کے آرڈر وزیراعظم کے آرڈر سمجھے جائیں‘‘۔

بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے میں نے پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے انکشاف کیا کہ انہوں نے اس کی جاں بخشی کی بہت کوشش کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس کا بچنا بہت ضروری تھا۔ ’’میں نے کچھ ممالک کا خفیہ دورہ کیا خاص طور پر ترکیہ کے وزیر اعظم بلند ایجوت سے ملا اور درخواست کی کہ وہ جنرل ضیاء سے بات کریں۔ وہ بھٹو کے اچھے دوستوں میں سے تھے انہوں نے میرے سامنے جنرل ضیاء کو فون بھی کیا۔ بعد میں کہنے لگے اس نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ غور کریں گے مگر مجھے یقین ہے وہ پھانسی دے گا‘‘۔

پاکستان بقول ڈاکٹر قدیر1984ءمیں ایٹمی دھماکہ کرنے کے قابل ہوگیا تھا مگر افغانستان میں جاری جنگ، امریکہ سے اربوں ڈالرز سے جاری جہاد افغانستان کی وجہ سے اس کے اعلان میں تاخیر ہوئی مگر 1998ء میں جب بھارت نے ایک بار پھر 18؍مئی کو پانچ ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان میں عوامی دباؤ میں اضافہ ہوا کہ ہمیں بھی جواب دینا ہوگا۔ ابتدا میں میاں صاحب محتاط تھے مگر پھر 10 دن بعد انہوں نے پاکستان کے چھ دھماکوں کا اعلان کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔ اب پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقت ہیں۔ جب تک یہ توازن کی حد تک ہے تو جنگ ٹلتی رہے گی دونوں میں سے کسی نے بھی توازن یا صبر کا دامن ہاتھ سےچھوڑا تو ہم میں سے شاید کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کیسی تباہی آئے گی۔ ایسی جنگ آنے والی نسلوں کو تباہ کر سکتی ہے۔

اس سے ذرا ہٹ کرکبھی آپ نے سوچا کہ جس دن یہ دھماکے ہوئے اس دن کس طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شخصیت اور کاوشوں کو کم دکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنے محسنوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔ بھٹو، ڈاکٹر قدیر، نواز شریف مگر خود ڈاکٹر قدیراس کا سب سے زیادہ کریڈٹ بھٹو کے بعد سابق صدر غلام اسحاق خان کو دیتے ہیں۔حالیہ تنازع اور پھر جنگ میں بقول امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ملک ایٹمی جنگ کے قریب تھے۔ اب اگر دوسری طرف انتہا پسند نریندر مودی ہو اور اس کی سوچ ہو تو توازن نہ ہوتا تو کیا ہو سکتا تھا۔ مگر کیا یہ جنگی جنون ختم ہوگا اس حوالے سے انتہائی سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔ انتہا پسندی دونوں طرف موجود ہے وہ بھی معاشرے کی حدتک مگر یہ بھی سچ ہے کہ آج بارڈر کھلے تو لاکھوں لوگ ایک دوسرے کے یہاں جانا پسند کریں گے۔ دونوں ملکوں میں انتہا کی غربت بے روزگاری، پانی، بجلی، گیس کے مسائل ہیں تعلیم کا حال دیکھیں تو برا ہے ایسے میں ’ہزاروں سال لڑنے، کے دعوے جذباتی تو ہو سکتے ہیں مگر آج کی دنیانعروں پر نہیں چلتی۔ غلطیاں دونوں جانب سے ہوئی ہیں تاریخی تناظر میں امن کی راہ میں رکاوٹیں بھی کھڑی کی گئیں اور امن پسندی کو کمزوری بھی سمجھا گیا مگر مودی اور بی جے پی کو اپنا انداز سیاست اور پاکستان مخالف بیانیہ بدلنا ہو گا ہمیں بھی انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔ لوگوں کو ان کے جائز حقوق دینے ہونگے۔ ایٹمی طاقت بن گئے اب معاشی طاقت بھی بنیں۔

تازہ ترین