• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں زلزلے کے جھٹکوں کے دوران ملیر جیل سےکم و بیش 300قیدیوں کے فرار کا ایک بڑا اور حیران کن واقعہ پیش آیا ہے جن میں سے 80قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جیلوں سے قیدیوں کے فرار ہونے کے واقعات تو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں جن کی ماضی قریب میں بنوں، چمن اور راو لاکوٹ جیلوں کی ایسی مثالیں موجود ہیں لیکن زلزلے کے خوف و ہراس میں سامنے آنے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ گزشتہ 24گھنٹوں میں کراچی کے مختلف علاقوں میں 12بار زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق زلزلہ سے بیرکس کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں اور قیدیوں نے دھکا دے کر جیل کی دیوار گرا دی۔ بعض دیگر ذرائع بتاتے ہیں کہ زلزلے کے باعث قیدی بیرکوں سے بھاگے اور جیل کا دروازہ توڑ دیا۔ بعض ذرائع نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ 50کے قریب حملہ آوروں نے فائرنگ کی۔ جیل کے گیٹ پر حملہ کیا اور قیدیوں کو فرار کرایا۔ جیل حکام کے مطابق نقصان سے بچنے کیلئے قیدیوں کو بیرکوں کے باہر بٹھایا گیا تھا۔ زلزلے کے باعث ہنگامہ آرائی اور پولیس اہلکاروں سے ہاتھا پائی ہوئی۔ اسلحہ چھینا۔ پولیس اور قیدیوں کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں ایک قیدی ہلاک اور 5اہلکار زخمی ہو گئے۔ ملیر جیل میں پیش آنیوالے واقعہ میں کوتاہی بھی ہو سکتی ہے۔ دیوار ٹوٹی یا کوئی اور وجوہات ہیں اس حوالے سے بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ مافیاز کے معاملات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت نے واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے اور حتمی رپورٹ آنے تک کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ملیر جیل میں قیدیوں کی گنجائش 2400ہے۔ ریکارڈ کےمطابق اس وقت 6ہزار کے قریب قیدی موجود ہیں۔ ملک میں جیلوں کی حالت زار ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں۔ پریزن ڈیٹا رپورٹ 2024کے مطابق جیلوں میں گنجائش سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ قیدی ہیں۔ جیلوں میں اصلاحات ناگزیر ہیں اور قیدیوں کو ملک و قوم کا مفید شہری بنانے پر توجہ دینا از حد ضروری ہے۔

تازہ ترین