میں آج آپ کو ایک بہت درد بھری داستان سنانا چاہتا ہوں۔ اگر آپ رونے دھونے کے شوقین ہیں تو یہ تحریر ضرور پڑھیں۔ دراصل سائیکل کیساتھ میرا رشتہ بہت پرانا ہے لیکن اسکے ساتھ میری کوئی خوشگوار یاد وابستہ نہیں۔ چنانچہ مجھے افسوس ہے کہ میں صبح صبح یہ ناخوشگوار یادیں اپنے قارئین کے ساتھ Share کررہا ہوں۔ میرے لئے وہ دن بہت یادگار تھا جس دن میں نے سائیکل خریدی میں اس روزبہت خوش تھا میں نے یہ سائیکل ایک کباڑیے سے خریدی تھی وہ اسکے بہت قصیدے پڑھتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس پر بڑے بڑے جرنیل سالہا سال سواری کر چکے ہیں بلکہ یہ سائیکل گزشتہ کئی برس سے خود اسکے استعمال میں بھی رہی ہے۔ و ہ اس دیرینہ تعلق کی بنا پر اسے بیچنا تو نہیں چاہتا تھا مگر یہ اسکی مجبوری تھی کہ اس کا کام ہی خرید و فروخت تھا۔ میں سائیکل گھر لیکر آیا تو اس پر جمی ہوئی مٹی کو صاف کرنے اور اسے چمکانے کی پوری کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ سائیکل پر تہہ در تہہ جمی میل برقرار رہنے کے باوجود میرے دل میں اس کیلئےکوئی میل نہ آیا کہ یہ میری زندگی کی پہلی سواری تھی۔ چنانچہ میں اسے ایسی حالت میں تھامے شاداں و فرحاں گھر سے باہر نکل آیا۔میں نے سوچا مجھے سب سے پہلے اپنی اس خوشی میں اپنے بچپن کے دوست شیدے خرادیئے کو شریک کرنا چاہئے چنانچہ میں نے سائیکل کا رخ اسکے گھر کی طرف موڑ دیا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ یہ سائیکل میرے لئے صرف سواری کا کام نہیں دے گی بلکہ ایکسر سائز کے کام بھی آئیگی کیونکہ معمولی سی ناہموار سڑک پر بھی اسکے جھٹکے اتنے زور دار تھے کہ چشم زدن میں پائوں سے سفر کر کے دماغ تک جا پہنچتے تھے۔ میں ایک سست الوجود شخص ہوں اور ڈاکٹروں کی ہدایت کے باوجود کسی ورزش پر آمادہ نہ ہوسکا۔ چنانچہ میں نے اس سائیکل کو اسکی اس خوبی کی بنا پر نعمت خداوندی تصور کیا اور اس ٹو ان ون(TWO IN ONE) کے مزے لینے کیلئے مزید زور زور سے پیڈل مارنا شروع کر دیئے۔
شیدے خرادیئے کا گھر صرف چند قدم کے فاصلے پر رہ گیا تھا کہ اچانک میں نے ایک عجیب و غریب تبدیلی محسوس کی مجھے لگا جیسے کوئی میری دھوتی نیچے سے کھینچ رہا ہے۔ میں نے اردگرد بلکہ اوپر نیچے ہر جگہ نظر ڈالی مگر مجھے کوئی فردیہ نامعقول حرکت کرتا دکھائی نہ دیا۔ میں کہ جنوں بھوتوں پر قوی ایمان رکھتا تھا اور ٹونے ٹوٹکوں کا قائل ہوں۔ مجھے یقین ہوگیا کہ میرے کسی حاسد سے میری خوشی دیکھی نہیں گئی اور یہ ننگ قوم شخص اپنے کسی زیر اثر بھوت یا کسی دوسرے عامل کے ذریعے مجھے بھی ننگ قوم ثابت کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ میں نے دفع بلا کیلئے آیات کا ورد شروع کردیا مگر میں نے محسوس کیا کہ دشمن کی کارروائی اخلاق اور خطرے کے مقام تک پہنچ گئی ہے وہ تو خدا کا شکر ہے کہ میری نظر شیدے پر جا پڑی جو اپنےگھر کے باہر ٹہل رہا تھا۔ میں نے وہیں پائوں زمین پر گاڑ کر سائیکل کو بریک لگائی۔ کباڑیے نے مجھے بتایا تھا کہ اس سائیکل کی بریک کیلئے کمپنی نے یہی ٹیکنالوجی استعمال کی ہے۔ اس دوران شیدا میرے قریب پہنچ چکا تھا اور مجھ سے معانقہ کرنا چاہتا تھا مگر میں نے اسے خوفزدہ آواز میں بتایا کہ کوئی بھوت میری دھوتی کو نیچے کی طرف کھینچ رہا ہےپہلے کسی عامل کو بلاو۔ شیدا ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا چنانچہ اس نے میری بات پر توجہ دینے کے بجائے سائیکل کا جائزہ لیا پھر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ میں یہ بھوت ابھی نکالتا ہوں یہ کہتے ہوئے اس نے سائیکل کا پیڈل الٹا گھمانا شروع کیا اس عمل کے ساتھ میں نے محسوس کیا کہ دشمن اپنی چال میں ناکام ہورہا ہے اور میری دھوتی کشش ثقل سے نکل آئی ہے۔ میں آج تک شیدے کو صرف خرادیا سمجھتا تھا مجھے علم نہیں تھا کہ وہ اتنا بڑا سائنسدان بھی ہے۔ مگر اس نے مجھے یہ بتا کر اپنی عزت خود ہی خاک میں ملا دی کہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا صرف دھوتی کا کنارہ سائیکل کے چین میں پھنس گیا تھا۔ ویسے وہ صحیح کہتا تھا کہ دھوتی کا جو حصہ چین میں پھنسا تھا اسکا کچومر یوں نکلا ہوا تھا جیسے کسی مضبوط دانتوں والے نے اسے بہت بری طرح چبایا ہو۔اگلے روز مجھے ایک ضروری کام کیلئے باہر جانا تھا مگر میں نے محسوس کیا کہ گزشتہ روز کی تھکن سے سائیکل کا جسم چُور چُور ہے۔ چنانچہ میں نے پہلے کپڑے سے اسکے سارے جسم کی مالش کی اور پھر اسے ایک دن آرام کیلئے گھر چھوڑ دیا۔ میں نے گھر والوں کو سختی سے تاکید کی کہ وہ اس پری وش کے آرام میں خلل نہ ڈالیں اوراسکو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ محلے کے بچے اسے تنگ کرینگے اس خدشہ کی وجہ سے یہ تھی کہ جس روز میں سائیکل کو لے کر گھر آیا تھا بچے اس انمول سواری کو بہت حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اس سواری کی نوعیت کے حوالے سے آپس میں شرطیں لگا رہے تھے ان میں سے ایک بچہ بضد تھا کہ یہ چاند گاڑی ہے اور مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ بچہ شرط جیت گیا تھا۔ بہرحال میں شام کو گھر لوٹا تو میں نے دیکھا کہ سائیکل کا سانس پھولا ہوا تھا۔ معلوم کیا تو پتا چلا کہ بچے سارا دن اسکے ساتھ چھیڑ خانی کرتے رہے ہیں۔ میں بچوں پر ناراض تھا اور گھر والے سائیکل سے نالاں تھے انکا کہنا تھا کہ بچوں کی چھیڑ چھاڑ کے دوران اس عفیفہ نے اتنا واویلا کیا کہ اس کی مسلسل چوں چاں سے گھر والے قیلولہ نہ کر سکے۔ یہ ایک ناخوشگوار واقعہ تھا مگر میں صبر کے علاوہ کیا کرسکتا تھا۔تب میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس جان جگر کو ہر دم اپنے ساتھ رکھوں گا تاکہ اسے کسی بھی طرف سے کوئی ایذا نہ پہنچے۔ سوا اسکے بعد میں نے اسے اسکے آخری سانس تک اپنے ساتھ رکھا مگر ہر روز کوئی نہ کوئی انوکھا واقعہ ضرور ہوا مثلاً ایک دن گھر سے باہر قدم رکھتے ہی میں نے محسوس کیا کہ اسکے دونوں ٹائروں میں ہوا نہیں ہے۔ میں ان میں ہوا بھرانےکیلئے سائیکلوں کی دکان پر لے گیا مگر اس بدبخت دکان دار نے معائنے کے بعد بتایا کہ اسکے دونوں ٹائروں کے تمام پنکچر اکھڑے ہوئے ہیں اور تقریباً انیس پنکچر دوبارہ لگوانا پڑینگے۔ انکا خرچہ لگ بھگ سائیکل کی قیمت کے برابر تھا۔ اسی طرح ایک روز بھولا ڈنگر میرے ساتھ اسکے کیریئر پر بیٹھ گیا وہ ابھی تک اسپتال میں ہے کیونکہ اسکے بیٹھتے ہی کیریئر بھی بیٹھ گیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک دن چلتے چلتے اسکا ہینڈل خود بخود اس گلی کی طرف مڑ گیا جدھر کا رخ کرنے پر ایک مہ پارہ کے بھائیوں نے مجھے سختی سے منع کیا تھا۔ سو اسکے بعد وہی ہوا جو ہونا تھا۔ میں ابھی تک اینٹ گرم کر کے اس سے اپنے دکھتے بدن کو سینکنے میں مشغول ہوں۔ میں یہ سب کچھ برداشت کررہا تھا مگر ایک روز میں اس فیصلے پر پہنچا کہ اسکے وصال سے ہجر بہتر ہے۔ ہوا یوں کہ گھر سے نکلتے ہی ایک جگہ معمولی سی چڑھائی آئی مجھے ظاہر ہے اس کیلئے اپنی اضافی طاقت استعمال کرنا تھی چنانچہ میں نے ابھی دو تین بھرپور پیڈل مارے تھے کہ محسوس ہوا پیڈل کام نہیں کررہے وہ بس گھومتے جارہے ہیں مگر سفر طے نہیں ہورہا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ صورتحال اس وقت پیش آتی ہے جب کسی سائیکل کے کتے فیل ہو جاتے ہیں۔ سو سائیکل کے کتے فیل ہو گئے تھے اور اب وہ چڑھائی چڑھنے کے بجائے سرپٹ پیچھے کو بھاگتی جا رہی تھی۔ اس پر مجھے قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں یاد آ گئیں معذرت چاہتا ہوں عروج نہیں یہ تو ہمارے جان سے پیارے پاکستان کی داستان سنا رہا تھا۔