ان دنوں جو دوست بھی ملتا ہے پہلے اسکے چہرے پر تشویش کے آثار ہوتے ہیں اور پھر وہ پوچھتا ہے ’’آپ کی صحت کیسی ہے ؟‘‘پہلے تو میں نے انکے اس سوال کوحال احوال پوچھنے کے زمرے میں ہی رکھا مگر انکے چہرے کی تشویش اور پھر صحت کے بارے میں سوال کرنے سے اندازہ ہوا کہ اتنا زیادہ بیمار ہوںکہ دوست احباب میری صحت کے حوالے سے پریشان رہنے لگے ہیں بس یہ کالم محض انکی تسلی کیلئے لکھ رہا ہوں کہ میں اللہ کے فضل وکرم سے خیریت سے ہوں الحمدللہ میری صحت قابل رشک ہے۔ میری بینائی بہترین حالت میں ہے مجھے ایک فٹ کے فاصلے تک بالکل صحیح نظر آتا ہے میں چونکہ شاعر ہوں، اس کے آگے چیزیں دھندلی دھندلی نظر آتی ہیں جو بہت رومانٹک لگتی ہیں اور میرے جیسا حافظہ تو شاید ہی کسی اور کا ہو۔مجھے اکثر لوگ ملتے ہوئے اپنے تعارف میں کہتے ہیں کہ انہوں نے تیس سال قبل ایک مشاعرے میں مجھے داد دی تھی چنانچہ آپ کو یاد آگیا ہو گا کہ میں کون ہوں اور مجھے فوراً یاد آ جاتا ہے کیونکہ میں ایسے مہربان کو کیسے بھول سکتا ہوں جس کی سخن فہمی کی بدولت مجھے زندگی میں پہلی اور آخری بار کسی مشاعر ے میں داد ملی ہو۔ میرے حافظے کا تو یہ عالم ہے کہ فون پر کئی لوگ اپنا نام بتائے بغیر مجھ سے پوچھتے ہیں ’’پہچانا؟‘‘اور میں کہتا ہوں ’’جناب، یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کو آواز سے نہ پہچانوںاسکے بعد وہ کہتے ہیں ’’اگر ایسا ہے تو یہ بتائیں میں کون ہوں ؟‘‘انکی اس بات سے مجھے لگتا ہے کہ وہ مجھ پر بداعتمادی کا اظہار کر رہے ہیں چنانچہ میں انکے اس سوال کا جواب دینا مناسب خیال نہیں کرتا ۔
میری سماعت بھی الحمدللّٰہ بہترین حالت میں ہے، اللّٰہ جانے کچھ لوگوں کو یہ شک کیوں گزرتا ہے کہ میں اونچا سنتا ہوں چنانچہ وہ میرا کاندھا ہلاتے ہوئے ’’بلند آواز ‘‘ سے مجھے پکارتے ہیں اور اس دوران میری آنکھوں میں بھی جھانکتے رہتے ہیں، صرف یہ چیک کرنے کیلئے کہ میں نے انکی بات سنی بھی ہے کہ نہیں ! مجھے انکی یہ حرکت اچھی نہیں لگتی، چنانچہ میں انہیں کہتا ہوں کہ برادرم میں ’’ڈورا‘‘ نہیں ہوں ’’ذرا آہستہ بولیں ‘‘ اسکے بعد مجھے انکے صرف ہونٹ ہلتے نظر آتے ہیں شاید وہ میری بات کا برا مان کر مجھے برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں! تاہم کبھی کبھی بہت محیر العقول واقعات بھی جنم لیتے ہیں مثلاً میں رات کو اپنے کمرے میں سویا ہوا ہوں اور گھر کا کوئی فرد سخت پریشانی کے عالم میں مجھےمیرے کمرے سے باہرلے جاتا ہے میں باہر آتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ سب اہلخانہ اپنے کمروں سے نکل کر گھر کے لان میں جمع ہیں مجھے بھی فوراً لان میں لے جایا جاتا ہے پتہ چلتا ہے کہ گیس کہیں سے لیک ہو رہی ہے اگرچہ مین سوئچ آف کر دیا گیا ہے مگر گیس کی بو پورے گھر میں پھیل چکی ہے مجھے یقین ہے کہ کسی بدروح نے مجھے اس صورتحال سے غافل رکھا ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ میری قوت شامہ جو حیرت انگیز طور پر تیز ہے اور مجھے اس بو کی ہوا تک نہ لگی خدا کا شکر ہے کہ وہ بدروح جو میرے اعصاب کو پوری طرح اپنے قابو میں لے چکی تھی وہ مجھے سگریٹ سلگانے پر بھی اکسا سکتی تھی ۔اب اگر میں باری باری اپنے تمام اعضاء کی بہترین کارکردگی بیان کرنے لگوں تو یہ خودستائی کچھ زیادہ ہی ہو جائے گی اور یہ جو تھوڑا بہت میں نے اپنی قابل رشک صحت کے حوالے سے لکھا ہے یہ بھی محض دوستوں کی پریشانی رفع کرنے کی غرض سے تھا مجھے اسکی بے حد خوشی ہے کہ صرف میری ہی نہیں، ہماری قوم کی معاشرتی صحت کا احوال بھی صرف ایک ’’ماشاءاللّٰہ ‘‘ کہنے سے بیان ہو جاتا ہے آپ ہماری صحافت ہی کو دیکھ لیں کالم پڑھ لیں ،ٹی وی میزبانوں اور تجزیہ کاروں کو دیکھ لیں ،سب کی صحت پوری دنیا کیلئے ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان میں سے کوئی کسی ایجنسی کا ملازم نہیں ہے کوئی کسی کے ہاتھ کی چھڑی نہیں ہے ہر ایک کو آزادی اظہار کی نعمت حاصل ہے۔چنانچہ وہ ہر شخص پر ہر طرح کا الزام عائد کر سکتے ہیں ان الزامات کیلئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں نہ کسی عدالتی فیصلے کے انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے کیونکہ ان کا فرمایا ہوا مستند ہوتا ہے اسی طرح ہمارے کاروباری حضرات کی اخلاقی صحت بھی قابل رشک ہے ملاوٹ نہیں کرتے ناجائز منافع خوری نہیں کرتے، حکومت کو ٹیکس کا ایک ایک پیسہ ادا کرتے ہیں، اسکے باوجود انکی جائیداد ہر سال چار گنا ہو جاتی ہے، انہیں نظر لگنے کا بہت خوف ہوتا ہے چنانچہ آپ جب بھی کسی کاروباری شخص سے اسکے کاروبار کے بارے میں پوچھیں کہ وہ کیسا جا رہا ہے تو وہ کہے گا’’مندا جا رہا ہے ‘‘ ایسا کہنا انکی مجبوری ہے ورنہ ان پر تو ’’فضلِ ربی ہی ،فضلِ ربی ہے ! ‘‘ہمارے علمائے کرام ،بیوروکریسی، ہمارے تعلیمی ادارے، غرضیکہ جس طرف نظر اٹھائیں پھول کر کپا ہو رہے ہیں مجھے ڈر ہے کسی دن پھٹ نہ جائیں، اتنی اچھی صحت بھی اچھی نہیں ہوتی ،میری خواہش ہے کہ وہ کم از کم کچھ عرصہ کیلئے ’’بدپرہیزی‘‘ شروع کر دیں تاکہ حاسدوں کی بری نظر سے بچ سکیں۔ میں خود بھی اپنی عمدہ صحت کے حوالے سے انہی لائنوں پر سوچ رہا ہوں اور یوں میں نے بدپرہیزی کا پختہ ارادہ کر لیا ہےتاکہ روزروز کے اس سوال سے تو بچ سکوں کہ آپ کی صحت کیسی ہے؟