عید قرباں دنیا بھر کے اربوں مسلمان ہر سال انسان کی جانب سے اپنے رب کی فرماں برداری کے ایسے حیرت انگیز واقعے کی یاد میں مناتے ہیں جس کی کوئی دوسری مثال انسانی تاریخ میں موجود نہیں۔ ایک باپ کا خواب میں ملنے والے اشارے پر اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کردینے اور بیٹے کا یہ جان کر کہ باپ رب العالمین کی خوشنودی کیلئے ایسا کرنا چاہتا ہے، کسی ادنیٰ تأمل کے بغیر باپ کے ہاتھوں ذبح ہوجانے پر تیار ہوجانا ، تاقیامت پوری نوع انسانی کو اپنے خالق و مالک کی مکمل بندگی و اطاعت کی تعلیم دیتا ہے۔دنیا بھر میں مسلمان ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو مویشیوں کی قربانی کر کے علامتی طور پر اسی سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔اس عبادت کی اصل روح یہ جذبہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر اپنی عزیز ترین متاع کو بھی قربان کرنے پر ہمہ وقت تیار رہے۔ اپنی پسند و ناپسند کو اپنے خالق و مالک کی ہدایات کے سانچے میں ڈھال لے ۔ اپنے تمام معاملات میں اللہ اور رسولؐ کے فیصلوں پر راضی رہنا ہی رب کی خوشنودی پانے کا واحد طریقہ اور قربانی سمیت تمام عبادات کا اصل مقصود ہے۔ اسی طرح زندگی بسر کرنے کا نام تقویٰ ہے اور قرآن پاک میں خدائے ذوالجلال نے یہ صراحت کر کے کہ’’ نہ تمہاری قربانیوں کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون اس تک تو تمہارا تقوی ہی پہنچتا ہے‘‘ قربانی کا اصل مقصد پوری طرح واضح کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں انہی لوگوں کی قربانی قابل قدر ٹھہرے گی جن کا مقصد اسے ایک رسم کے طور پر انجام دینا نہ ہو اورجو یہ عمل اپنی دولت کی نمائش کی خاطر یا محض گوشت کھانے کیلئے نہ کریں ۔فی الاصل قربانی ہی نہیں تمام عبادات کا مقصد یہی ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی فرمانبرداری یعنی تقویٰ کی روش اپنائی جائے۔ اسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ’’مسلمانوں کو تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ فرما کر آخرت ہی نہیں دنیا میں بھی عزت و سرفرازی کے ضمانت دی ہے۔ لیکن آج مسلم معاشرے بحیثیت اجتماعی کسی بھی درجے میں اس شرط کو پورا کرتے نظر نہیں آتے ۔ ہماری تمام عبادات’’ رسم اذاں رہ گئی روح بلالی نہ رہی‘‘ کی کیفیت کی آئینہ دار ہیں۔دنیا میں پچاس سے زائد بظاہر خود مختار مسلم ریاستوں کی موجودگی کے باوجود کسی ایک میں بھی اسلام کا اجتماعی نظام نافذ نہیں ۔دنیا بھر میں وسائل حیات اور دولت کی غیر منصفانہ اور ظالمانہ تقسیم کے اصل سبب سودی نظام معیشت کو قرآن میں اللہ اور رسولؐ سے جنگ کے مترادف قرار دیے جانے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ’’ ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں‘‘۔ سیاست، معاشرت، معیشت ،عدالت، قانون، تعلیم غرض زندگی کے ہر شعبے میں مسلمان غیروں کے نقال ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ہونے کے باوجود کرہ ارض پر وہ سب سے بے وقعت انسانی گروہ ہیں۔ اس کا سب سے بڑا مظاہرہ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام پر مسلم حکمرانوں کی بے عملی کی شکل میں ہو رہا ہے ۔ تاہم حالیہ پاک بھارت جنگ نے ثابت کردیا ہے کہ مسلمان اگر اللہ کی رضا کی خاطر قربانی دینے پر تیار ہوجائے تو عزت و کامرانی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔عیار دشمن کی جانب سے پاکستان کو بے پناہ تباہی کا ہدف بنانے کے ناپاک ارادوں کیساتھ مسلط کردہ جنگ کا مقابلہ ہماری قیادت اور قوم نے پہلے لمحے سے اللہ کی مدد و نصرت کی دعاؤں اور جذبہ جہاد و شوق شہادت سے سرشار ہوکر اور وسائل و ذرائع کی کثرت و قلت سے بے نیاز ہوکر کیا اور ’’ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق‘‘ کا عملی ثبوت فراہم کردیا تو اللہ نے کئی گنا بڑے دشمن کو بدترین ذلت و رسوائی سے دوچار کرکے اور پاکستان کو فتح مبین عطا فرماکر دنیا بھر میں سربلند و سرفرازکردیا۔ عید قرباں ہمیں یہی سکھاتی ہے اور یہی اس کا اصل سبق ہے۔