• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی بینک کی طرف سے غربت جانچنے کے پیمانے کی تبدیلی کے بعد پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے جانیوالی آبادی 44.7فیصد ہوگئی ہے۔ قبل ازیں پاکستان کی 39.8فیصد آبادی غربت کی شکار تھی۔ نئے پیمانے کے مطابق 10کروڑ 79لاکھ 50ہزار پاکستانی غربت کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تین ڈالر فی کس یومیہ آمدن کی حامل غریب ترین آبادی کی شرح تناسب 16.5فیصد، جبکہ 8ڈالر یومیہ آمدن کی حامل اپر مڈل کلاس پاکستان کی کل آبادی کے 88.4فیصد افراد پر مشتمل ہے۔ غربت کے یہ اعدادو شمار 2017ء کی مردم شماری سے حاصل کئے گئے جسکے بموجب پاکستان کی مجموعی آبادی 20کروڑ 60لاکھ افراد پر مشتمل تھی ۔ 2023ء میں نئی مردم شماری سے غربت کی شکار آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ سے بڑھ کر سوا نو کروڑ تک پہنچی نظر آئی۔ مذکورہ نوع کے اعدادو شمار ملکوں کو نئی منصوبہ بندی کے اہداف متعین کرنے میں مدد دیتے ہیں۔جبکہ افراد کے غربت کی سطح پر ہونے، اس سے نیچے ہونے یا اوپر ہونے کا تعین قوت خرید کے تخمینے سے کیا جاتا ہے۔ خطِ غربت کے تعیّن کا پیمانہ قبل ازیں 3.65ڈالر یومیہ آمدنی تھا مگر قوت خرید میں کمی کی موجودہ صورت حال میں 4.20ڈالر فی کس کمانے والے کو غربت کی لکیر سے نیچے تصور کیا جاتا ہے۔تاہم بجلی ، گیس، پیٹرولیم نرخوں اورٹرانسپورٹ کے کرائے سے بے حال افراد اس پیمانے سے افراد خاندان کی تعداد کا حساب لگائے بغیر جانتے ہیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ زبوں حال ملکی معیشت کو منجدھار سے نکالنے کی کاوشوں میں حقیقی کامیابی کیلئے اکنامک منیجرز پر یہ ذمہ داری بطور خاص عائد ہوتی ہے کہ وہ بیروزگاری اور مہنگائی کے جن کو قابو میں رکھنے کے لئے چھوٹی بڑی صنعتوں کے قیام ، زراعت کی ترقی، تعلیم و ہنر کے فروغ کے مقاصد کو فروغ دیں۔ معاشرے کی ترقی کا حقیقی پیمانہ بھی یہی ہے کہ اس میں دولت کے بہائو کا رُخ اوپر سے نیچے کی طرف نظر آئے۔

تازہ ترین