• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کاشف اشفاق
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی مسلح افواج نے جس طرح بھارتی جارحیت کا فوری اور موثر جواب دیکر ہندوستان کی عسکری بالادستی کا خواب چکنا چور کیا ہے۔ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں اس کامیابی نے قوم کو ایک نئے جذبے سے سرشار کر دیا ہے اور ایک طویل عرصے بعد پاکستان نہ صرف دوست ممالک کا مرکز نگاہ بنا ہوا ہے بلکہ دنیا کے دیگر اہم ممالک بھی پاکستانی فوج کی حیران کن کامیابیوں سے استفادہ کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف جنگ میں ناکامی کے سبب جہاں بھارت کی حکومت کو عالمی سطح پر سبکی کا سامنا ہے وہیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ملک کے اندر اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ ان پر سیاسی مفادات کیلئےخطے میں کشیدگی پیدا کرنے اور ملک کے اندر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے پہلے بھی الزامات لگتے رہے ہیں۔ تاہم پہلگام واقعہ کے حوالے سے اختیار کی گئی حکمت عملی نے انکی اس پالیسی کو سب کے سامنے عیاں کر دیا۔ اس طرح اپنے سیاسی مفادات کی خاطر نریندر مودی نے جہاں دونوں ممالک کے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا وہیں اس خطے کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ علاوہ ازیں اس اقدام نے بھارتی فوج کی تیاری اور اہلیت میں موجود خامیوں کو بھی عیاں کر دیا ہے جسکی وجہ سے بھارت کی عسکری اور سیاسی قیادت دبائو کا شکار ہے۔ ایک تجربہ کار سیاستدان کے طور پر ان حالات سے سبق سیکھنے کی بجائے نریندر مودی نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینےکیلئے بھارتی فوج کو مقامی سطح پر تیار شدہ جدید جنگی جہازوں سے لیس کرنیکا پروگرام شروع کرنے کی منظوری دے کر خطے میں اسلحے کی نئی دوڑ شروع کر دی ہے۔ اسکے جواب میں لامحالہ پاکستان کو بھی اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافے کے کیلئےدفاعی بجٹ بڑھانا پڑیگا۔ اس طرح دونوں ممالک کے وسائل اپنے شہریوں کی زندگیاں بہتر بنانے کی بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر صرف ہوتے رہیں گے۔ اگرچہ اس وقت بھارت کی معیشت پاکستان سے کئی گنا بڑی ہے لیکن جب بات مکمل جنگی تیاری کی ہو تو اس کیلئے صرف سرمایہ نہیں بلکہ موثر حکمت عملی، تربیت اور ادارہ جاتی ہم آہنگی درکار ہوتی ہے جس میں پاکستان کی مسلح افواج نے بھارت پر اپنی بالادستی ثابت کر دی ہے۔ اسلئے اگر بھارت آئندہ پندرہ سال تک اپنی فضائی طاقت کو نیا روپ دینے کا خواب دیکھ رہا ہے تو اسے یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اس پورے عرصے میں وسائل کا ایک بڑا حصہ دفاعی تیاریوں پر صرف ہو گا جس کیلئے اسے عوامی فلاح و بہبود، صحت، تعلیم یا پینے کے صاف پانی جیسے بنیادی مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں پس پشت ڈالنا پڑیگا۔ اسی طرح پاکستان اگر جواب میں مجبوری کے تحت اس دوڑ میں شامل ہوتا ہے تو ہمارے محدود وسائل بھی انہی جنگی منصوبوں کی نذر ہو جائینگے۔ یہ صورتحال اس وجہ سے بھی افسوسناک ہے کہ ایٹمی قوت کے حامل دونوں ہمسایہ ممالک کے کروڑوں عوام آج بھی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح دونوں ممالک میں تعلیم اور صحت کی سہولیات بھی ترقی یافتہ ممالک کی نسبت انتہائی کم ہیں جبکہ آبادی کا بڑا حصہ رہائش، خوراک اور نقل و حمل کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ علاوہ ازیں نریندر مودی کے دور میں اختیار کی گئی پالیسیوں کے سبب بھارت میں جس طرح اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ہندوتوا کی پالیسی کے تحت سماجی اور معاشی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اسکی وجہ سے عالمی سطح پر بھارت کو ایک ایسی ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو اپنے شہریوں کے حقوق کو بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ نریندر مودی کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اس خطے کو دوبارہ تباہی کے راستے پر ڈالنے کی بجائے اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی پیروی کریں۔ اٹل بہاری واجپائی نے بھی 1998ء میں وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد نریندر مودی کی طرح ہی پاکستان کو زیر نگیں کرنے کے بلند بانگ دعوے شروع کر دیئے تھے۔ تاہم جب 28مئی 1998ء کو پاکستان نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے تھے تو انہوں نے حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھانے کی بجائے تعلقات بہتر بنانے کو ترجیح دی تھی۔ اس مرتبہ بھی پاکستان کی مسلح افواج نے بھارت کی جانب سے پاکستان کو تر نوالے بنانیکی کوشش ناکام بنا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کسی بھی طرح پاکستان کو عسکری محاذ پر شکست نہیں دے سکتا ۔ اسلئے اسلحے کی دوڑ شروع کرنیکی بجائے دونوں ممالک کی قیادت کو یورپ کی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے۔ یورپ نے دو عظیم جنگوں کے بعد تباہی و بربادی کو قریب سے دیکھا ہے۔ جرمنی سے لیکر فرانس تک یورپ کے مختلف ممالک میں لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوا، معیشتیں تباہ ہو گئیں لیکن بالآخر انہیں یہ ادراک ہوا کہ اگر انہیں ترقی کرنی ہے تو پھر ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے کے بجائے مل کر چلنا ہو گا۔ اسی سوچ کے تحت یورپی یونین وجود میں آئی جس نے آج یورپ کو دنیا کا ایک طاقتور، پُرامن، اور ترقی یافتہ خطہ بنا دیا ہے۔ ہمیں بھی اپنے شہریوں کی زندگیاں بہتر بنانے کیلئےباہمی تعلقات کو معمول پر لانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح ناصرف اس خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے بلکہ کشمیر سمیت دیگر حل طلب مسائل کو بھی عالمی قوانین اور مقامی آبادی کی امنگوں کے مطابق پر امن طور پر حل کرکے کشیدگی کا باعث بننے والے عوامل کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین