• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: طلعت عمران

’’عالمی یومِ والد‘‘ کے سلسلے میں آپ کوصفحہ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘کے لیے پیغامات بھیجنے کا سندیسہ دیا گیا، تو باپ جیسی عظیم، عالی مرتبت ہستی سے محبّت و عقیدت، پدرانہ شفقت سے معمور ناقابلِ فراموش لمحات پرمبنی یادوں کا گویا ایک انبار سا لگ گیا۔ سو، ذیل میں آپ کے قابلِ قدر جذبات و احساسات سے مزیّن اِن ہی سندیسوں کی اشاعتِ اول پیشِ خدمت ہیں۔

(والد کے نام)

اولاد کے لیے والد کا وجود ایک سائبان کی حیثیت رکھتا ہے۔ بلاشبہ، ایک باپ ہی اپنے بچّوں کی تمام ضروریات و خواہشات پوری کرتا، اُنہیں مکمل تحفّظ فراہم کرتا ہے۔ باپ کی ایک تھپکی اولاد میں ہمّت و حوصلہ اور نیا جوش و لولہ پیدا کرتی ہے، تو وہی اپنی اولاد کو کڑے حالات سے مقابلے کا ہُنر سکھاتا ہے۔ فادرزڈے پر میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کے سَروں پر والد کا سایہ تادیر قائم رکھے۔ (ضیاءالحق قائم خانی، جھڈّو کی طرف سے)

(والد مرحوم کے لیے)

میرے والد کو دُنیا سے رخصت ہوئے 18برس گزر گئے ہیں، لیکن اُن کی تمام باتیں اور نصیحتیں آج بھی میرے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ مَیں اپنے والد مرحوم کی اپنی اولاد اور پھر اولاد کی اولاد سے محبّت کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ (محمّد سلام معرفت عبدالرزاق، مؤذن مدینہ مسجد، بنگالی کالونی، حیدرآباد کی جانب سے)

(اپنے پیارے بابا جانی، مشعل کے لیے)

پیارے بابا جانی! ماہِ جُون میں آپ کی سولہویں برسی ہے۔ آپ کی سُنہری یادیں ہماری آنکھوں میں خواب بن کر جھلملاتی ہیں۔ آئی مِس یُو سو مچ بابا جانی۔ (حمیدہ گُل، کلی ترخہ، کوئٹہ کا پیغام)

(’’شجرِ سایہ دار‘‘ کی خدمت میں)

ہمارے ابّوجان المعروف صبور مشتاق حسن ہمارے لیے ایک شجرِسایہ دار کی مانند ہیں، جن کے زیرِ کفالت ہم اللہ کے فضل و کرم سے کالج اور یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم رہے، حفّاظِ قرآن کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ اللہ پاک سے دُعا ہے کہ وہ ہمارے ابّو کو صحّت و سلامتی کے ساتھ دِین ودنیا کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ (حافظ عبدالصّمد حسن، حافظہ خوش بخت فاطمہ، حافظہ فضہ فاطمہ، حافظہ سدرۃ المنتہیٰ فاطمہ اور حافظہ مقدّس فاطمہ کی طرف سے)

(بابا جانی کے نام)

گرچہ ہمارے بابا جانی اب ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن اُن کی مہک، خوش بُو ہمیں آج بھی اپنے آس پاس محسوس ہوتی ہے۔ (بنت ِسومرخانگل، بدوری روڈ، کوئٹہ کی جانب سے)

(بُوجی کی خدمت میں)

ہمارے بُوجی 28جون 2024ء بہ روز جمعہ ہم سے ہمیشہ کے لیے جُدا ہوگئے۔ اللہ میاں میرے بُوجی کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے۔ (معصومہ، حیدر آباد کا سندیسہ)

(پیارے ابّو جی کے نام)

میرے پیارے ابّوجی! اللہ تعالیٰ آپ کو صحت وتن دُرستی والی طویل زندگی نصیب فرمائے اور آپ ہمیشہ یونہی ہنستے مسکراتے رہیں۔ (ثناء واحد، لاہور کی جانب سے)

(والد مرحوم کے نام)

میرے والدِ محترم کا انتقال 1983ء میں ہوا۔ وہ اپنے سارے کام خُود اپنے ہاتھوں سے کیا کرتے تھے اور ہمیں بھی یہی سکھاتے تھے۔ ان کی بہترین تعلیم و تربیت ہی کی بدولت آج ہم سب بہن، بھائی ایک کام یاب اور پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے والد مرحوم کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (سعید احمد خانزادہ، سکرنڈ، ضلع شہید بےنظیرآباد)

(گریٹ ابّوجی، ڈاکٹر اطہر رانا کی خدمت میں)

ہمارے ابّو نے ہمیشہ بِن کہے ہماری تمام تر خواہشات، ضروریات پوری کیں۔ ہمیں اُن پربہت نازہے۔ اللہ اُنہیں سدا محفوظ و مامون رکھے۔ ابّو جی! تُسی گریٹ او!! (ظفریاب اطہر و نبیہہ اطہر، فیصل آباد کا پیار)

(والدِ محترم، مسعود احمد بخاری کے نام )

میرے والدِ محترم ایک نہایت شفیق انسان تھے۔ انہوں نے ہمیں ہمیشہ لقمۂ حلال کھلایا۔ گرچہ ہماری غلطیوں، کوتاہیوں پر وہ بعض اوقات غصّے میں بھی آجاتے تھے اور ہماری پٹائی بھی کردیتے تھے، لیکن اُن کا غصّہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (منصور سیّد، کراچی کی جانب سے)

(ابّوجان کے نام)

ابّوجان! آپ کی جُدائی کے سبب میرا دل اب تک اُداس ہے۔ آپ نے ہمیں اتنا پیار و محبّت دیا کہ ہر خوشی و غم کے موقعے پر بےاختیار آپ کی یاد آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (حمیرا گُل، کوئٹہ سے)

(والد مرحوم کے لیے)

ہمارے والد حق نواز صاحب، جو ایک اسکول ٹیچر تھے، گزشتہ برس اگست میں ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ ؎ کڑے سفر کا تھکا مسافر ، تھکا وہ ایسا کہ سوگیا ہے … خُود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں، ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے۔ 

ہم چار بہن بھائی ہیں اور والد کے انتقال کے بعد ہمارے دادا نے ہمارے ساتھ خاصا تعاون کیا۔ میری امّی، منیزہ فاطمہ، محمد سمیط، ایم اقصام اور حماد مہدی والد صاحب کے بلندیٔ درجات کے لیے ہمیشہ دُعاگو رہتے ہیں۔ (سائرہ نوید، دائرہ دین پناہ کی عقیدت)

(مرحوم والدین کے نام)

اللہ تعالیٰ ہمارے مرحوم والدین کی مغفرت اور اُن کے درجات بلند فرمائے۔ (ایم اسحٰق اور ندیم عبّاسی، کراچی کا پیغام)

(والد کی خدمت میں)

والدِ محترم، حاجی خلیل الرحمٰن قریشی کے اس دُنیائے فانی سے رخصت ہونے کے بعد ہماری زندگی ادھوری سی ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے والد صاحب کی بخشش و مغفرت فرمائے۔ (حسیب، منیب اینڈ سسٹرز، کراچی کی طرف سے)

(والدِ مرحوم کے لیے)

ہمارے والدِ محترم ، بخش الٰہی 5 اپریل 1993ء کو ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ اللہ پاک اُن کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ (ملک رئیس، سعید احمد اور نفیس احمد، اورنگی ٹائون، کراچی کا سندیسہ)

(پیارے پاپا کے نام)

پیارے پاپا! ہم سب بہن بھائی آپ سے بے پناہ محبّت کرتے ہیں۔ اتوار کے دن جب آپ گھر پہ ہوتے ہیں، توہمیں حلوہ پوری کا مزے دار ناشتا ضرور کرواتے ہیں۔ اُس دن ہم سب مل بیٹھتے ہیں، تو اِن قیمتی لمحات کا کوئی ثانی، مول نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحتِ کاملہ عطا فرمائے۔ (ایشال، عفّان اور مصطفیٰ، فاطمہ جناح کالونی، کراچی کا پیار)

(والد کے نام)

؎ ہر ایک درد وہ چُپ چاپ خُود پہ سہتا ہے… تمام عُمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے… وہ لوٹتا ہے کہیں رات کودن بَھر… وجود اُس کا پسینے میں ڈھل کے بہتا ہے… گِلے ہیں پھر بھی مُجھے ایسے چاک داماں سے… یہ بات سچ ہے، مِرا باپ کم نہیں، ماں سے۔ (ناہید سلطانہ، گوجرانوالہ کا اظہارِعقیدت)

(پیارے ابّو جان کے لیے)

پیارے ابّوجان! آپ نے کبھی بھی ہم بہن بھائیوں پر ہاتھ نہیں اُٹھایا۔ ہمیں بڑے لاڈ پیار سے پالا۔ ہم عیدِ قرباں کا دن کیسے بُھول سکتے ہیں کہ اُس روز ہم نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اُتارا تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنّت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگرکی جانب سے)

( ابّو،صفدر احمد قریشی کے نام)

پیارےابّوجان! اللہ تعالیٰ آپ کو صحتِ کاملہ عطا فرمائے اور آپ کا سایہ ہمارے سَروں پر تا زیست قائم و دائم رکھے۔ (اشرف، امجد، ارشد اینڈ سسٹرز، گھارو کا پیغام)

(والد مرحوم کے لیے)

؎ اپنی جنگ ہی لڑتی ہے… لاکھ کہو وہ باغی ہے… باپ کے زندہ رہنے تک… ہر بیٹی شہزادی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے ابّو کو غریقِ رحمت کرے۔ (زینت، صدف اور سحر، اورنگی ٹاؤن، کراچی کی طرف سے)

(والد کے نام)

؎ اُن کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں… باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے والد کا سایہ ہمارے سَروں پر ہمیشہ قائم رکھے۔ (زنیر، شاہ ویز، علیزہ اور ادیبہ، نارتھ کراچی، کراچی کی جانب سے)

(والد کے نام)

پیارےابوّجان! کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ جس دن ہم آپ کو یاد نہ کرتے ہوں۔ ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔  (عبدالجبّار خان بن عبدالعزیز خان، نارتھ ناظم آباد، کراچی)

(والد، محمّد حسین مرحوم کی خدمت میں)

فادرز ڈے کے موقعے پر ہم سب بہن بھائی، ناہید اختر، کوثر پروین، ارم شہزادی، عشرت ناز، شازیہ غزل، صفیہ صنم، قیصرہ نورین، جاوید اختر، عرفان آصف صدیقی اور مَیں آپ کو بہت مِس کررہے ہیں۔ ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، آمین۔ (محمّد صفدرخان ساغر، راہوالی، گوجرانوالہ کا پیغام)

(اُمّتِ مسلمہ کے نام)

عالمی یومِ والد پر میری دلی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے رسول حضرت محمّدﷺ کے والد، حضرت عبداللہؓ کے صدقے، جو پوری کائنات میں سب سے زیادہ خوش نصیب باپ ہیں، تمام مسلمانوں کو اپنے والد کی تکریم کی توفیق نصیب فرمائے۔ (ڈاکٹر محّمد حمزہ خان ڈاھا، سبزہ زار، لاہور کی جانب سے)

(والد مرحوم کے لیے)

ہمارے والد صاحب کو اس دُنیا سے گئے کئی برس بِیت چُکے ہیں، لیکن اُن کی باتیں، یادیں آج بھی دِلوں میں تروتازہ ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’بیٹا! اُٹھو نماز تمہیں بُلا رہی ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ ہمارےوالدمرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ (سیّد شاہ عالم، محمد شیراز عالم اور محمد حسّام عالم، راول پنڈی کی جانب سے)

(والدِ محترم سیّد نور العباس عرف حسن صاحب کے لیے)

والد باب جنت ہے اور اس کی خدمت باعث رحمت ہوتی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے والد کی بھرپور خدمت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ (مہ جبیں جاوید نقوی، ذوالفقار حسین نقوی اور شانِ زہرا نقوی، کراچی کی عقیدت)

(پیارے پاپا، عمران خالد کے نام)

میرے پیارے پاپا! آپ میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہیں۔ فادرز ڈے پر میری دُعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو صحت و تن دُرستی کے ساتھ طویل زندگی عطا فرمائے۔ (ماہم عمران، گلستان جوہر، کراچی کا پیغام)

(پیارے پاپا، اصغر علی کے لیے)

پاپا جانی! آپ نے بڑی شفقت و محبّت سے ہماری پرورش کی اور ہماری تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ ہم چھے بہنیں اور ایک بھائی کسی طور آپ کے اس احسانِ عظیم کا بدلہ نہیں چُکاسکتے۔ آپ کو ہم سے بچھڑے 11 سال ہوگئے ہیں، مگر آپ آج بھی ہمارے دل میں بستے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کو جنّت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ (شاہینہ عون علی، کراچی کی طرف سے)

(والدِ بزرگوار سیّد سردار حسین نقوی(مرحوم و مغفور) کے لیے)

؎ کیسے ماں باپ کا حق کوئی ادا کرپائے … بعد مرنے کے بھی جو ہم کو دُعا دیتے ہیں … کربلا والوں کے پیچھے ہی سدا چلتے رہو … جاتے جاتے بھی تو یہ درسِ وفا دیتے ہیں۔ (سیّد زُہیر حسن اور سیّد یاسر حسن، ملیر کالونی، کراچی کی دُعا و التجا)

(والد مرحوم کو خراجِ عقیدت)

گرچہ میرے والد آج سے 20برس قبل اللہ کو پیارے ہوئے، لیکن ہمیں یوں لگتا ہے کہ جیسے کل ہی کی بات ہو۔ وہ زیادہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھے، لیکن دینی فہم و فراست سے آراستہ تھے۔ اپنے دل کو ہمیشہ خشیّتِ الٰہی سےمعمور رکھا۔ اُن کی سچی اورعلم وحکمت سے بھرپور گفتگو کا ایک زمانہ معترف تھا۔ قلیل آمدنی کے باوجود انہوں نے اپنے بچّوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔

اپنے تمام بچّوں سے بے حد الُفت و محبّت فرماتے اور اُن کی ہر خوشی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے۔ آج بھی اُن کی نصیحت آموز باتیں اور پیار بَھری یادوں کی سوندھی سوندھی خوش بُو گھر کو معطّر کیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں غریقِ رحمت اور جنّت الفردوس میں اعلیٰ درجے پر فائز کرے، آمین۔ (محمد مُنیر، ملتان کی جانب سے)

(ابّو جی کے نام)

مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن کہ جب اسکول سے واپسی پر میرے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا تھا۔ مَیں بے بسی کے عالم میں سڑک پر کھڑی تھی کہ اچانک پسینے میں شرابور اور تھکن سے چُور میرے ابوجی آن پہنچے۔ اُن کی آنکھوں سے فکرمندی جھلک رہی تھی۔ وہ میرے جوتے کے تسمے باندھتے ہوئے بولے کہ ’’میری بچّی! جب تک مَیں ہوں، تمہیں کبھی تنہا نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ 

تب سمجھ آئی کہ باپ صرف کماتے نہیں، بلکہ اولاد کی حفاظت بھی کرتے ہیں، حوصلہ دیتے ہیں اور پس منظر میں رہ کر ہماری پوری زندگی سنوارتے ہیں۔ باپ وہ سپاہی ہے کہ جو اپنی اولاد کی جیت تک زندگی کے ہر محاذ پر لڑتا رہتا ہے۔ (حرا خان، جہلم کا سندیسہ)