• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: رؤف ظفر

عکّاسی و اہتمام : عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

82 سالہ معروف ادیب، دانش وَر، شاعر، کالم نگار، ڈراما نویس، سفارت کار، سفرنامہ نگار اور 22 کتابوں کے مصنف عطاء الحق قاسمی کی نصف صدی سے زائد عرصے کی ادبی، صحافتی، ثقافتی اور مجلسی زندگی کا قیمتی اثاثہ ایک تو پوری دنیا میں پھیلے اُن کے لاکھوں پرستار ہیں۔ دوم، اُن کےاہلِ خانہ (اہلیہ، تین بیٹوں، بہوؤں، پوتیوں اور پڑپوتیوں پر مشتمل ایک مثالی گھرانہ)۔

ای ایم ای سوسائٹی میں ’’کالم کاٹج‘‘ کے نام سے آباد، اِس خُوب صُورت آشیانے میں جو چہل پہل، باتوں، قہقہوں کی گونج سُنائی دیتی ہے، وہ اِس کے زندہ دل مکینوں ہی کے سبب ہے، جب کہ اِس ہرے بَھرے گلشن میں تن آور، سایہ دار برگد کا مقام قاسمی صاحب کو حاصل ہے کہ گلشن کی آب یاری میں اُن کی کئی دہائیوں پر مشتمل سخت محنت و جدوجہد شامل ہے۔

بقول معراج فیص آبادی ؎ مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ… میرے بچّے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے۔ بہرکیف، جدوجہدِ حیات کےاَن گنت نشیب و فراز، اُتار چڑھاؤ کے بعد اب درخت کے ثمر، چھاؤں دینے ہی نہیں، اپنے پھل پھولوں، گُل بوٹوں کے رنگ ومہک سے خُوب لُطف اندوز ہونے کا بھی وقت ہے۔

گزشتہ دِنوں ہم نے ’’فادرز ڈے‘‘ کے حوالے سے اُن کے اور اہلِ خانہ کے ساتھ ایک نشست کی۔ ’’کالم کاٹج‘‘ پہنچے، تو ڈرائینگ روم کی دیوار پرHAPPY BIRTHDAY'' '' کا خُوب صُورت سا بینر آویزاں دیکھا کہ چند روز قبل اُنہوں نے اپنی ایک پوتی کی سال گرہ کا اہتمام کررکھا تھا۔

گفتگو کا آغاز ہوا تو قاسمی صاحب نے سب سے پہلے شریکِ حیات کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا کہ ’’ایک پودے سے یہ خُوب صُورت گل دستہ بنانے میں اِن کا تعاون قدم قدم پرشاملِ حال رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے عطاءالحق قاسمی بنانے والی یہی خاتون ہیں۔ زندگی کے کٹھن محاذ پر میرے ساتھ جس پامردگی سے یہ ڈٹی رہیں، ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔‘‘

قاسمی صاحب سے ہمارا پہلا سوال، اُن کی شادی ہی سے متعلق تھا۔ جواباً انھوں نے بتایا کہ ’’میری شادی 1972ء میں لاہور میں ہوئی۔ یہ مکمل طور پر اریجنڈ تھی۔ اہلیہ کا تعلق ایک کشمیری گھرانے سے ہے۔ میرا ولیمہ نسبت روڈ کی ایک تنگ سی گلی میں قناتیں لگا کے کیا گیا، جس میں میاں شہباز شریف بھی شریک ہوئے۔ اُس زمانے میں، مَیں بحیثیت اردو لیکچرار، ایم۔ اے۔ او کالج میں پڑھا رہا تھا۔

اُس سے قبل 1970ء میں امریکا بھی گیا تھا، لیکن وہاں اِسی شرط پرجانےدیا گیا کہ شادی پاکستان آکر ہی کروں گا۔ اور مَیں وہاں شادی کرنا بھی نہیں چاہتا تھا کہ مجھے امریکا کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔ میری اہلیہ بھی لاہورکالج آف ہوم اکنامکس میں فزکس کی لیکچرار رہیں، اب ریٹائرڈ ہیں۔ ہم نے وزیرآباد سے ماڈل ٹاؤن، پھر اچھرہ اور پھر علامہ اقبال ٹائون میں رین بسیرے کیے۔ ایک دس مرلے کا پلاٹ مجھے ادیبوں کے کھاتےمیں الاٹ ہوا تھا، جہاں ہم نے زندگی کے یادگار25, 20 برس گزارے۔

ہمارے تینوں بچّوں کی ابتدائی زندگی کی خُوب صُورت یادیں اُسی کالونی سے وابستہ ہیں۔ بچّے چھوٹے تھے، تو ہمارے پاس گاڑی بھی نہیں ہوتی تھی، تو اہلیہ اُنھیں بس پر، شادمان میں واقع کریسنٹ ماڈل اسکول چھوڑتی اورلاتی تھیں۔ کالج میں پڑھانا، گھر واپس آکر کھانا بنانا، بچّوں کا ہوم ورک، قاری صاحب سے پڑھنا، گھرکے بقیہ سب امور اور میرا ہرطرح سے خیال رکھنا، سب اُن کے ذمّےتھا۔ میرا وہ تگ ودَوکا دور تھا، مَیں حد درجہ مصروف رہتا، پھر علمی وادبی حلقہ بھی وسیع تھا۔

گرچہ بچّوں سے کبھی غافل نہیں رہا، لیکن بہرحال، اہلیہ نے اُس عرصے میں سخت مشقّت کی۔ اللہ کا شُکر ہے، گھر کا ماحول علمی وادبی اور دینی تھا، پھر بچّوں کو اُن کے دادا مولانا بہاءالحق قاسمی مرحوم کی شفقت وسرپرستی بھی حاصل تھی۔ وہ اُنہیں سائیکل پر بٹھا کر پوری کالونی کا چکر لگاتے، بسکٹ، ٹافیاں خریدنے دکان تک لے جاتے۔ میرے پاس ایک لمبریٹا اسکوٹر تھا، تو مَیں بھی کبھی کبھی بچّوں کو پارک لے جاتا یا لاہور کی سیر کرواتا۔‘‘

بچّوں کےحوالے سے مزید بتایا کہ’’میرے تینوں ہی بیٹے ماشاء اللہ بہت ذہین، لائق فائق تھے اور ہیں۔ ہم نے کبھی ان پراپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی اور انہوں نے بھی ہمیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ بڑا بیٹا یاسر پیرزادہ سی ایس ایس کرنے کے بعد اِس وقت ڈی جی اسپورٹس ہے، عمدہ کالم نگاربھی ہے۔ دوسرے بیٹے محمّد عُمر قاسمی نے بھی سی ایس ایس کیا۔

وہ ایڈیشنل کلکٹرکسٹمز ہے، جب کہ اُس کی اہلیہ بھی سی ایس ایس اور ایڈیشنل کلکٹر کسٹمز ہے۔ تیسرا بیٹامحمّدعلی عثمان قاسمی LUMS یونی ورسٹی میں ہسٹری کا پروفیسر ہے۔ اُس نے امریکی یونی ورسٹی سے اسکالر شپ پر پی ایچ ڈی کی۔ الحمد للہ، تینوں بیٹے شادی شدہ ہیں۔ یاسر کی تو بیٹی کی بھی شادی ہوچُکی ہے اور اُس کی جُڑواں بیٹیاں ہیں۔ یعنی مَیں خیر سے پردادا بن چُکا ہوں۔ عُمر قاسمی کی تین بیٹیاں انمول، آمنہ اور شہہ پارہ ہیں، جب کہ علی قاسمی کے لیے ہم دُعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُسے بھی اولاد کی نعمت سے مالامال کرے۔

ہمارے پورے گھرانے کو علم وادب سےشغف ہے۔ بیٹوں ہی کونہیں، پوتیوں کو بھی مطالعےکاشوق ہے۔ والدین اُن کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ چھوٹا بیٹا عُمر پی ایچ ڈی کے بعد بیرونِ مُلک ہی رہنا چاہتا تھا، لیکن مَیں نے اُسے پاکستان واپس آنے پر قائل کیا کہ مُلک کو تمھاری زیادہ ضرورت ہے۔ یوں بھی میرے خیال میں، بچّوں کو والدین کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔ مَیں نےامریکا سے واپس آکر325 روپے ماہانہ ملازمت کو ترجیح دی تھی اور وقت نے ثابت کیا کہ میرا فیصلہ درست تھا۔ مَیں ناروے، تھائی لینڈ میں پاکستان کا سفیر، چیئرمین پی ٹی وی رہا۔

تین اعلیٰ ترین اعزازات پرائیڈ آف پرفارمینس، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیازسے نوازا گیا۔ کئی دیگر ایوارڈز اور اعزازات بھی ملے، لیکن میراسب سے بڑا اعزاز، لوگوں کی بےلوث محبّت ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اَن گنت مسائل، پریشانیوں کے اِس دَور میں اگر آپ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کا سبب بنتے ہیں، تو اس سے بڑی نیکی اور کوئی نہیں اور مَیں نے دانستہ کوشش کی کہ میرے بیٹے بھی ایسی ہی صفات اپنائیں۔

میرے والد، مولانا بہاؤالحق قاسمی ماڈل ٹاؤن مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے، ہم اُس وقت مسجد سے ملحق ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے، والد صاحب کے اعلیٰ افسران سے تعلقات تھے، لیکن اس کے باوجود اُنھیں کسی قسم کی کوئی حرص و طمع نہیں تھی۔

ہمارے ایک بزرگ رشتےدار بتاتے ہیں کہ ہمارا خاندان 1947ء کے فوراً بعد، وزیر آباد کے ایک مکان میں آکر مقیم ہوا۔ مَیں اُس وقت غالباً چار سال کا تھا، تو ایک روز ایک شخص نے، جو کہ میرے والد صاحب کو جانتا تھا، باہر گلی سے گزرتے ہوئے سونے کے زیورات سے بَھری تھیلی ہمارے صحن میں پھینک کر والد صاحب سے کہا۔’ ’میاں جی اُٹھالو۔‘‘ وہ رشتے دار(راوی) اُسے اُٹھانےکے لیے لپکے، لیکن والد صاحب نے فوراً وہ تھیلی اُٹھا کرگلی میں پھینک دی، جو پھر پولیس نے اُٹھائی۔

مطلب، والد صاحب سادگی، قناعت پسندی، عجزوانکساری کی دولت سے مالامال تھے۔ یہی خوبیاں اُنھوں نے اپنی اولاد، اورہم نےاپنے بچّوں میں منتقل کیں۔ یقین کیجیے، مجھےکبھی بیش قیمت چیزوں، پراپرٹی، بینک بیلنس کی خواہش نہیں رہی۔ قناعت پسند ہوں اور بچّوں کو بھی یہی سکھایا۔ مگراللہ کا کرم دیکھیں، اُس نےاُن چیزوں سے بھی نوازا، جن کی کبھی خواہش ہی نہیں کی تھی۔‘‘

ماضی کےاوراق کھنگالتے، حال پرشُکر گزار ہوتے ہوئے بتایا۔ ’’ہماری پوری فیملی کی آمد و رفت کا واحد سہارا لمبریٹا اسکوٹر تھا۔ بچّے بھی اُسی پر سیر کو جاتے، مگر ایک دن ایک گڑھے میں گرنے سے ایسا دھچکا لگا کہ میری کمر میں شدید درد شروع ہوگیا۔ اُس وقت مَیں نوائےوقت میں کالم لکھتا تھا۔ ڈاکٹرز نے اسکوٹر چلانے پر پابندی لگادی۔ میرا دفتر آنا جانا بند ہوگیا۔

اِس بات کا علم مجید نظامی صاحب کو ہوا، تو اُنہوں نے میرے لیے خصوصی لون منظور کیا۔ چناں چہ مَیں نے چھوٹی سوزوکی گاڑی لے لی اور پھر مَیں اس قابل ہوگیا کہ بچوں کو لےکر مَری وغیرہ جاسکوں۔ تو ہم نےکئی باراُس گاڑی پرمری، نتھیاگلی کی سیرکی۔ میرے تینوں بیٹے ماشاءاللہ اولڈ راوینز ہیں۔

اُنہوں نے جی سی یونی ورسٹی میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور بعدازاں دو نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا، جو ہر پاکستانی نوجوان کاخواب ہوتا ہے، لیکن بخدا بڑےعہدوں پر ہونےکے باوجود میرے بیٹوں نے عاجزی و انکساری کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ اب یاسر راول پنڈی میں ہوتا ہے، آج کل ایک کانفرنس کے سلسلے میں چِین گیا ہوا ہے۔ عُمر میرے ساتھ رہتا ہے، جب کہ علی لمز یونی ورسٹی کی کالونی میں رہائش پذیر ہے، مگر ویک اینڈ اور چُھٹیوں میں، سب کا یہاں اکٹھا ہونا لازمی ہے۔

ویسے تو فون پر ہر وقت رابطہ رہتا ہے کہ میری طبیعت کچھ ناساز رہتی ہے، تو بیٹے، بہوئیں مسلسل رابطہ رکھتے ہیں۔ عید الاضحیٰ پر قربانی بھی یہیں ہوتی ہے۔ مَیں ویسے بھی عیدالاضحیٰ کا خاص اہتمام کرتا ہوں۔ اب بھی خُود بکرمنڈی جا کر اپنی پسند کا بکرا خریدتا ہوں۔ بیٹے بھی اپنے اپنے جانور خریدتے ہیں، پھر سب کی قربانی یہیں ہوتی ہے۔ پہلے تو علی خُود اپنے ہاتھ سے بکرا ذبح کرتا تھا، اب قصائی بلوالیتے ہیں۔‘‘

قاسمی صاحب سے ’’فادرزڈے‘‘ کے موقعے پر کوئی پیغام دینے کو کہا، تو بولے۔ ’’میری تمام والدین سے یہی گزارش ہے کہ بچّے خواہ کسی عُمر میں بھی ہوں، وہ اُن کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھیں، خصوصاً آج کل کے ڈیجیٹل دَور میں تویہ اور بھی ضروری ہوگیا ہے۔ بچّوں کو اچھے، بُرے کی تمیز سکھانا والدین کا اولین فریضہ ہے، لیکن اُن پراپنی مرضی کبھی مسلّط نہ کریں۔ اُن کےسامنے ہمیشہ رول ماڈل بننے کی کوشش کریں۔

یہ ممکن نہیں کہ خُود آپ کا طرزِعمل توغلط ہو، لیکن آپ اولاد سے درست رویوں کی توقع رکھیں۔ یہی دیکھیے، جب والدین خُود ہروقت موبائل فون سے چمٹے رہیں گے، تو وہ بھلا اپنے بچّوں کو اِس عفریت سے کیسے دُور رکھ سکتے ہیں۔ بچّوں سے اعلیٰ اوصاف، اخلاقیات کی خواہش رکھتے ہیں، تو پہلے خُود مثال بنیں۔‘‘

’’بچپن خُوش کن یادوں سے لب ریز ہے، گھر میں ہمیشہ ہم آہنگی کی فضا، دوستانہ ماحول دیکھا‘‘ عُمر قاسمی، علی عثمان قاسمی

عُمر اور علی قاسمی سےوالد صاحب سے متعلق رائے دریافت کی۔ تواُن کا کہنا تھا کہ’’والد صاحب نے ہم پر کبھی سختی نہیں کی، ہمیشہ پیار و محبّت سے سمجھایا، دراصل وہ فطری طور پر ہی شگفتہ مزاج ہیں۔ ہاں، امّی سے کبھی کبھار سبق یاد نہ کرنے پر مار پڑ جاتی تھی۔ ویسے والدین نے ہم پر پروفیشن کے انتخاب کے معاملے میں کبھی دباؤ نہیں ڈالا۔ 

ہم نے اپنی اپنی پسند کے شعبے منتخب کیے۔ اُنہوں نے زیادہ تر ہم سے دوستانہ رویہ ہی رکھا اور ہم آہنگی کی اِسی فضا کے سبب ہماری شخصیات میں اعتدال و توازن بھی آیا۔ ہمارا بچپن انتہائی خُوش کن یادوں سے لب ریز ہے، ابّو اپنی موٹر سائیکل پر ہمیں ہرجگہ گھمانے لے جاتے۔ 

والدہ کا بےپناہ پیار تو حاصل ہی تھا، ابّو نے بھی پوری توجّہ دی۔ ہمیں شروع سے ہرحال میں خوش رہنا سکھایا گیا، لایعنی خواہشات کے پیچھے بھاگنے سے روکا گیا اور ہم نےبھی حقیقت پسندی کی دنیامیں رہتے ہوئے ہمیشہ اپنے زورِبازو پر آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ آج کل ابّوکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی، کئی باراسپتال داخلےکی نوبت آئی، مگر اِس ضمن میں خوش گوار لمحہ وہ ہوتا ہے، جب ابّو اسپتال کے بیڈ پرلیٹے لیٹے سگریٹ طلب کرتے ہیں۔ یہ اِس بات کا اشارہ ہوتا ہےکہ وہ ٹھیک ہو رہے ہیں۔ 

ہمارے ابّو چوں کہ بنیادی طور پر طنز و مزاح نگارہیں، تو گھر میں بھی اکثر لطیفے بازی، شگفتہ گفتگو ہی رہتی ہے، لیکن ایک بار تو گھر سے باہر بھی لطیفہ ہوگیا۔ ابّو بینک گئے ہوئے تھے۔ مَیں (عُمر قاسمی) باہرگاڑی کے پاس کھڑا تھا کہ اتنے میں ایک گارڈ دوسرے سے کہنے لگا۔ ’’اوئے! پتا ہے، ابھی بینک کے اندرکون گیا ہے؟‘‘ اُس نےنفی میں سرہلایا تو بولا۔ ’’تجھےاتنا بھی نہیں پتا۔ یہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی ہیں، قمیص تیری کالی والے۔‘‘

’’یک سرمختلف زاویۂ نظر والد صاحب سے سیکھا ‘‘ یاسر پیرزادہ

فادرز ڈے شوٹ کےموقعے پرعطاء الحق قاسمی کے بڑے صاحب زادے یاسر پیرزادہ ’’کالم کاٹج‘‘ میں موجود نہیں تھے۔ وہ ایک کانفرنس کےسلسلے میں چین گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک بیٹا جب خُود نانا بن چُکا ہو، تو اُس سے اُس کے والد سے متعلق پوچھنا، ذرا عجیب تو ہے، لیکن میرے لیے باعثِ خوش بختی بھی ہے۔ سچ کہوں، تو والد صاحب کے بارے میں کچھ کہنا الفاظ کم پڑجانے کے مترادف ہے۔ 

اُن کا سب سے بڑا کریڈٹ تو یہ ہے کہ انہوں نے محدود وسائل کے باوجود ہماری بہترین اسکولنگ، اعلیٰ تعلیم یقینی بنائی۔ والد اور والدہ نے ہماری تعلیم وتربیت کے ضمن میں کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا اور ہمارے اندر آج جو تھوڑی بہت قابلیت ہے یا ہم جوکچھ بھی ہیں، وہ اُن ہی کی بدولت ہیں۔ ہم نے بچپن سے والد صاحب کی نیک نامی کا فیض پایا، لطف اُٹھایا ہے۔ 

کبھی بھی، کہیں بھی اپنا تعارف کروانا ہوتا، توصرف ایک سطر کافی ہوتی۔ ’’جی، مَیں عطاءالحق قاسمی کا بیٹا ہوں۔‘‘ اور یہ اتنا معتبر حوالہ ہوتا کہ اُس کے بعد سارے دَر آپ ہی آپ کُھلتے چلے جاتے، لیکن پھر یہ بھی ہماری تربیت ہی کا خاصّہ ہے کہ ہمیں ان کُھلے دروازوں سے اندر داخلے کی اجازت، اپنی ذاتی قابلیت ہی کی بنیاد پر ملتی، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اکثر و بیش تر نقصان ہی اُٹھانا پڑاکہ حسد کے مارے لوگ ناحق راہ میں روڑے اٹکانے لگتے۔

بہرکیف، مَیں نے والد صاحب سے ایک بڑی بات جو سیکھی، وہ معاملاتِ زندگی کوایک نئے انداز، زاویے سے دیکھنا، پرکھنا ہے۔ مَیں اُن سے بچپن میں جب کوئی سوال پوچھتا، تو اُن کا یک سطری جواب ایسا ہوتا، گویا کسی نے ایک نئی دنیا وا کر دی ہو۔ یعنی آپ روٹین کے مطابق جن باتوں پر آنکھیں بند کرکے عمل کرتے چلے آئے ہوں، والد صاحب کا زاویۂ نظر اُس سے یک سرمختلف ہوتا اور ہم اکثرحیران رہ جاتے۔ 

آخری بات یہ کہ بچپن میں ہم والد صاحب سے اَن گنت سوالات کیا کرتے تھے، اور آج وہ واٹس ایپ پرمختلف چیزیں بھیج کراُن سے متعلق پوچھتے رہتے ہیں اور اِس میں قطعاً کوئی عار محسوس نہیں کرتے، تو یہ بھی اُن کی عظمت ہی کی دلیل ہے۔ بلاشبہ ہمارے والد بہت بڑے انسان ہیں۔ سو، مَیں آج کے دن فادرز ڈے کی مبارک باد کے ساتھ اُنھیں تہہ دل سے سیلوٹ بھی پیش کرنا چاہوں گا۔‘‘