دُنیا میں ایمان کے بعد دوسری عظیم نعمت والدین ہیں اور ایمان کی تکمیل بھی اُسی صُورت ممکن ہے کہ جب والدین کی فرماں برداری اور خدمت اس طرح کی جائےکہ جس طرح ہمیں رب تعالیٰ نے حُکم دیا ہے۔ ایک سلیم الفطرت انسان کے لیے والدین اُس کی پوری کائنات کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کا ذکر آتے ہی ہمارے دل میں نرمی، پیار اور اُلفت جیسے جذبات اُبھرتے ہیں، جب کہ باپ کے نام سے اعتماد و اعتبار، تحفّظ کا احساس ہوتا ہے۔
آج کے اس نفسانفسی کے دَور میں باپ ہی وہ ہستی ہے کہ جو اپنے اولاد کی کام یابی و سربلندی کے لیے مسلسل کوشاں، اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز رہتی ہے۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ کہ جن کے سَروں پر اُن کے والد کا سایہ قائم ہے اور کتنے پُررونق اور بابرکت ہیں وہ گھر کہ جہاں باپ کا وجود موجود ہے۔ یقین جانیے، باپ جیسی عالی مرتبت ہستی دنیائے فانی سے کُوچ کرجائے، تو بَھرا پُرا گھر سنسان ہوجاتا ہے، اولاد کے لیے خور وخواب محال ہوجاتا ہے، زندگی بےرونق، چہروں سے مسکراہٹیں غائب ہوجاتی ہیں۔
ایک سنجیدہ، ذمّےدار اور فرض شناس باپ اپنی اولاد کی ضروریات و خواہشات پوری کرنے کے لیے دن رات ایک کردیتا ہے، یہاں تک کہ خُود سے غافل ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ اگر اُس کے اختیار میں ہو، تو اپنے کسی بچّے کی آنکھ میں ہلکی سی نمی بھی نہ آنے دے۔ اپنے بچّوں کی زندگی میں کوئی تشنگی باقی نہ رہنے دے۔ اپنی اولاد کی زندگی میں آنے والے تمام غم، مشکلات اور محرومیاں سمیٹ کر سمندر میں بہا دے۔
ہرسال جون کے تیسرے اتوار کو عالمی یومِ والد منایا جاتا ہے اور اس موقعے پر ہر خطے کی ثقافت کے مطابق مختلف انداز سے والد کو خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ ہر چند کہ باپ کی خدمات، قربانیوں اور احسانات کا بدلہ سال بھر میں ایک عالمی یوم منا کر نہیں اتارا جا سکتا، لیکن یہ کا منانے کا مقصد پوری دُنیا میں ایک ساتھ باپ جیسےعظیم رشتے کی اہمیت و فضیلت اجاگر کرکے اُس سے پھرپور محبت وعقیدت کا اظہار کرنا ہے۔
جن لوگوں کے والد بقیدِ حیات ہیں، اُنہیں عالمی یومِ والد پر یہ سوچنا چاہیے کہ اُنہوں نے کتنے عرصے سے اپنےوالد کو کوئی وقت نہیں دیا یا اُن کی کوئی خدمت نہیں کی۔ اُنہیں یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ یہ وہی باپ ہے کہ جو عید تہوار کے موقعے پر خُود پرانے کپڑے پہنتا تھا، لیکن اُن کے لیےہمیشہ نئے ملبوسات لے کرآتا تھا، خُود ٹوٹے پھوٹے جوتے پہنے رکھتا، لیکن اپنی اولاد کے لیے ہر کچھ عرصے بعد نئے جوتے لے کر آتا۔
اپنا پیٹ کاٹ کرصرف اس لیے بچّوں کی ہر خواہش پوری کرتا کہ کہیں وہ کسی احساسِ کم تری کا شکار نہ ہوجائیں۔ جن لوگوں کے والدین بوڑھے ہو چُکے ہیں، اُنہیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اب اُنہیں ہمارے ساتھ کی زیادہ ضرورت ہے اور اگر کوئی اولاد ان باتوں سے صرفِ نظر کرتی ہے، تو اُس پرافسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
اےکاش! نوجوان نسل یہ بات سمجھ لے کہ باپ جنّت کا دروازہ ہے اور ایک مسلمان کی زندگی کا بنیادی مقصد اللہ کی رضا اورجنت کا حصول ہی ہے۔ یوں سمجھیں، دنیا وآخرت کی تمام تر کام یابیوں کا زینہ باپ ہی ہے، تو اگر اس عالی مرتبت ہستی کی دل و جاں سے قدر اور خدمت کی جائے، توپورا معاشرہ جنّت کا باغ بن سکتا ہے۔
اگر آپ کو باپ کی حقیقی قدر معلوم کرنی ہے، تو ذرا اُن سے پوچھ دیکھیں کہ جن کے سَروں سے اس عظیم ہستی کا سایہ اُٹھ چُکا ہے۔ تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر آپ تعلیم یا روزگار کی غرض سے شہر یا مُلک سے باہر بھی ہیں، تو روزانہ اپنے والدین سے کم ازکم فون پر رابطہ لازماً کریں۔ اُن کا حال احوال پوچھیں، اُن سے خُوب دُعائیں لیں۔ اگر روزانہ رابطہ ممکن نہیں، تو ہفتے میں دو دن تو ضرور اس کام کے لیے مختص کریں اور اگر آپ کا روزگار اپنے ہی شہر میں ہے، تو روزانہ گھر آکر اپنے والدین کی خدمت میں حاضری دیں۔
یاد رہے کہ سوشل میڈیا کی اسکرولنگ ضروری نہیں، والدین کو وقت دینا انتہائی ضروری ہے۔ سو، جب بھی وقت ملے، والدین سے بیٹھ کر باتیں کریں، انکے دُکھ سُکھ سُنیں، اُنہیں یہ احساس دلائیں کہ آپ اُن سے بہت پیار کرتے ہیں۔ اپنی ہر ترقی، کام یابی اپنے والدین سے ضرور شیئر کریں، کیوں کہ آپ کی کام یابی کی جتنی خوشی انھیں ہوتی ہے، دنیا میں کسی اور کو نہیں ہوسکتی۔
بلاشبہ اس دُنیا میں صرف والدین ہی اِس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ اُن کی اولاد اُن سے بھی زیادہ ترقی کرے۔ اسی طرح اگر آپ کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک اس دُنیائے فانی سے رخصت ہوچُکا ہے، تو اُن کے لیے خاص دعاؤں کا اہتمام ضرور کریں۔ نیز، صدقۂ جاریہ کے لیے خدمتِ خلق کا کوئی ایسا کام کریں کہ جو اُن کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جائے۔
آئیے، آج فادرز ڈے کے موقعے پر ہم سب یہ عہد کریں کہ ماں اور باپ جیسی دو عظیم ہستیاں جب تک ہم پر سایۂ شفقت کیے ہوئے ہیں، ہم اُن کی دل و جان سے خدمت کریں گے اور اُن کے احسانات اور قربانیوں کا بدلہ، چاہے وہ چند فی صد ہی کیوں نہ ہو، اُتارنےکی پوری کوشش کریں گے۔
اگر یہ عظیم رشتے آپ کے گھر کو اپنے مقدّس و پُرخلوص وجود سے روشن کیے ہوئے ہیں، تو آپ یقیناً خوش بخت ہیں۔ سو، دیر نہ کیجیے، ان کی خدمت کرکے دُنیا و آخرت کی کام یابیاں اپنے نام کروا لیں۔