تاریخِ انسانی میں کچھ رشتے اِتنے پاکیزہ، عظیم اور بلند تر ہیں کہ رہتی دنیا تک آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن گئے۔ ایسا ہی ایک رشتہ، نبی کریم ﷺ اور حضرت فاطمہ الزہراؓ کا ہے۔ یہ محض ایک باپ، بیٹی کا تعلق نہیں تھا، بلکہ محبّت، احترام، قربانی اور روحانی بلندی کا ایک بے مثال نمونہ تھا۔ نبی کریم ﷺ کی آمد سے پہلے کے عرب معاشرے میں بیٹی کی پیدائش باعثِ عار سمجھی جاتی تھی۔
قرآنِ مجید اِس دردناک حقیقت کا ذکر یوں کرتا ہے’’ اور جب زندہ دفن کی گئی بیٹی سے پوچھا جائے گا کہ اُسے کس گناہ پر قتل کیا گیا‘‘؟(سورۃ التکویر، آیت 8-9) اِس ظلم و جہالت کے خاتمے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمّد ﷺ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔حضرت فاطمہؓ ، نبی کریم ﷺ کے دل کا سکون تھیں۔
آپﷺ اُنہیں’’زہرا‘‘ کہتے تھے، یعنی وہ جو نور سے چمکتی ہیں۔ اُن کی ہر بات اور عمل رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا عملی نمونہ تھا۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ’’مَیں نے نبی کریم ﷺ کو کبھی کسی کے لیے اِس طرح کھڑے ہوتے نہیں دیکھا، جیسے وہ فاطمہؓ کے لیے کھڑے ہوتے تھے۔ جب بھی وہ تشریف لاتیں، تو آپ ﷺ کھڑے ہو جاتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے اور اپنی جگہ پر بِٹھاتے۔‘‘(مشکوٰۃ) اور یہ اُس زمانے کی بات ہے، جب بیٹی کو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ اُن کی اچھی تربیت کرے، اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے اور اُن کے حقوق ادا کرے، وہ جنّت کا مستحق ہے۔‘‘(ترمذی)اسلام نے بیٹی کو نہ صرف زندہ رکھا، بلکہ اُسے باعثِ رحمت قرار دیا اور یہ سب کچھ نبی کریمﷺ کی تعلیمات کی بدولت ممکن ہوا۔
اِسی طرح اگر ہم حضرت علی ابن ابی طالبؓ کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کریں، تو وہ نہ صرف بہترین شوہر تھے، بلکہ ایک عظیم باپ بھی تھے۔ ایک باپ کی حیثیت سے اپنی اولاد کو کردار، صبر، شجاعت اور عدل کا پیکر بنا دیا۔ حضرت امام حسنؓ کا حلم، حضرت امام حسینؓ کی قربانی، حضرت عباسؓ کی وفاداری اور حضرت زینبؓ کی بصیرت، یہ سب حضرت علیؓ کی تربیت ہی کا نتیجہ تھے۔
اُن کا اپنے بچّوں سے تعلق صرف محبّت و مؤدت تک محدود نہیں تھا، بلکہ وہ اُن کے لیے ایک معلّم، رہنما اور نگران بھی تھے۔ اُن کے کئی ایسے خطبات موجود ہیں، جو اُنہوں نے اپنے بیٹے حضرت امام حسنؓ کو دیئے، وہ آج بھی والدین کے لیے مکمل تربیتی نصاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کی تربیت کا انداز ایسا تھا کہ اولاد خود اُن سے محبت کرتی اور ان کی پیروی کو فخر سمجھتی۔ وہ عمل سے تربیت کرتے، الفاظ سے نہیں۔بچّوں کی بات توجّہ سے سُنتے اور ان کے جذبات کو اہمیت دیتے۔حضرت علیؓ نے ہمیں سِکھایا کہ باپ کا کردار صرف کفالت نہیں، رہنمائی ہے۔
دنیا کی تاریخ میں کچھ ایسے رہنما بھی گزرے ہیں، جنہوں نے قوم کے باپ کا مقام حاصل کیا کہ اُن کی رہنمائی، قربانی اور ویژن نے آنے والی نسلوں کی تقدیر بدل دی۔ قائدِ اعظم، محمّد علی جناحؒ بھی ایک ایسے ہی عظیم باپ تھے، جنہیں تاریخ نے بجا طور پر’’بابائے قوم‘‘ کا لقب دیا۔ اُن کی زندگی کا ہر لمحہ قربانی، اصول پسندی، دیانت داری اور دُوراندیشی کا آئینہ دار ہے۔ اُن کے والد، ایک محنتی اور ایمان دار شخص تھے۔
محمّد علی جناح نے بچپن ہی سے اپنے والد سے نظم و ضبط، اصولوں سے وابستگی اور خود انحصاری سیکھی۔ قیامِ پاکستان صرف ایک سیاسی عمل نہیں تھا، بلکہ ایک تہذیبی، فکری اور نظریاتی جنگ تھی۔ قائدِ اعظمؒ نے یہ جنگ ایسے حوصلے سے لڑی، جیسے کوئی باپ اپنی اولاد کے مستقبل کے لیے لڑتا ہے۔ اُنہوں نے قوم کو شناخت دی، ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور سب سے بڑھ کر، مسلمانوں کو ایک متحد قوم میں تبدیل کر دیا۔ قائدِ اعظمؒ کو’’بابائے قوم‘‘ کہنا محض ایک رسمی خطاب نہیں، بلکہ اس میں محبّت، اعتماد اور تحفّظ کی وہ شدّت موجود ہے، جو ایک باپ کے کردار میں ہوتی ہے۔
اُنہوں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کو اپنی ذاتی زندگی پر ترجیح دی۔بیماری کے عالم میں بھی تحریکِ پاکستان کی قیادت کی۔ ہمیشہ نوجوانوں کو قوم کا سرمایہ کہتے تھے۔ اُن کا یہ فرمان آج بھی والدین کے لیے ایک سبق ہے کہ’’قوم کی ترقّی نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ سچّے، دیانت دار اور محنتی ہوں، تو کوئی طاقت اُنہیں نہیں روک سکتی۔‘‘یہ وہ باپ ہے، جو اپنی اولاد کو صرف وراثت نہیں، نظریہ دیتا ہے۔
جب ہم’’ Father’s Day‘‘ مناتے ہیں، تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ باپ وہ نہیں، جو صرف اولاد پیدا کرے، بلکہ وہ ہے، جو نسلوں کو شعور، وقار اور خود داری عطا کرے۔ اور قائدِ اعظمؒ کی جدوجہد اِسی فکری باپ کی علامت ہے۔آج جب ہم پاکستان میں رہ کر آزاد فضا میں سانس لیتے ہیں، تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ آزادی ایک باپ جیسی شخصیت کی سخت محنت، تدبّر اور قربانی کا نتیجہ ہے۔
جب ہم باپ کے کردار پر غور کرتے ہیں، تو اِس ضمن میں دو بنیادی صفات سامنے آتی ہیں۔ ایک تحفّظ، دوم مستقبل کی فکر۔ قوموں کے باپ بھی یہی دونوں کام کرتے ہیں۔ دشمن کے مقابل ڈھال بن کر کھڑے ہوتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایسا مستقبل تیار کرتے ہیں، جس میں عزّت، آزادی اور خود مختاری ہو۔ پاکستان کی ایٹمی طاقت اِسی خواب کی تکمیل ہے، جس کا آغاز ذوالفقار علی بھٹّو نے کیا تھا اور آج بھی وہ طاقت دشمن کے دل میں خوف اور قوم کے دل میں تحفّظ پیدا کرتی ہے۔’’ہم گھاس کھا لیں گے، مگر ایٹم بم بنائیں گے‘‘بھٹو کا یہ جملہ آج بھی تاریخ میں گونجتا ہے۔ یہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں تھا، بلکہ ایک باپ کی پکار تھی، جو اپنی قوم کو آنے والے خطرات سے بچانا چاہتا تھا۔ یہ الفاظ صرف ایٹمی ہتھیاروں کی بات نہیں کر رہے، بلکہ یہ قومی وقار، خود مختاری اور سلامتی کی علامت تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1974 ء میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کی بنیاد رکھی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مکمل سپورٹ دی۔ یہ اُس باپ جیسا عمل تھا، جو اپنے بچّوں کے لیے محفوظ گھر تعمیر کرتا ہے، اپنے اہل و عیال کے لیے مضبوط دیوار کھڑی کرتا ہے، اپنی نسلوں کو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کا حوصلہ دیتا ہے۔ آج جب ہم اپنی جوہری صلاحیت دیکھتے ہیں، تو ہمیں وہ باپ یاد آتا ہے، جس نے قوم کو آنے والی صدیوں تک دشمنوں کے مقابلے میں سرخ رُو کر دیا۔
پاک فوج نے بھارتی جارحیت کے مقابلے میں’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ کا آغاز کیا، جو جدید ترین ٹیکنالوجی، انٹیلی جینس، سائبر سکیوریٹی اور نیشنل سیکیوریٹی پالیسی کا امتزاج تھا۔ اِس آپریشن کی پُشت پر بھی وہی والد جیسی سوچ جھلکتی ہے کہ اپنے بچّوں کی مانند، اپنی قوم کا تحفّظ کرنا ہے۔آج پاکستان کا ہر سپاہی، سائنس دان، پالیسی ساز ایک باپ کی مانند ہے،جو نسلوں کی حفاظت کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔
اِس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ’’ فادرز ڈے‘‘ پر جہاں اپنے والد کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے، وہیں’’ قوم کے باپ‘‘ بھی اِس موقعے پر پیشِ نظر رہیں۔ اُن قومی باپوں کے لیے بھی سلامِ عقیدت لازم ہے، جنہوں نے مُلک بنایا، جنہوں نے مُلک بچایا، جنہوں نے مُلک کو ناقابلِ تسخیر بنایا اور جو آج بھی ہمیں محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وہ کردار ہیں، جن کے سبب ہماری مادرِ گیتی’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو سو بار سوچنا پڑتا ہے اور آئندہ ہزار بار سوچنا پڑے گا۔ (مضمون نگار سندھ حکومت کی ترجمان ہیں)