مصنّف: امجد علی
صفحات: 240، قیمت: 2000 روپے
ناشر: احمد پبلی کیشنز،2 اے، سیّد پلازہ، چیٹرجی روڈ، اُردو بازار، لاہور۔
فون نمبر: 4110460 - 0322
ممتاز جرمن مستشرق، پروفیسر ڈاکٹر این میری شمّل کے نام سے کون واقف نہیں کہ اُنھوں نے دیارِ غیر میں بیٹھ کر اُردو زبان، اسلامی تہذیب و ثقافت اور اقبال پر اِس قدر کام کیا،جس کی کوئی دوسری مثال ملنا محال ہے۔ 1922ء میں جرمنی میں پیدا ہوئیں اور محض 15 برس کی عُمر میں عربی زبان سیکھنے کا جنون طاری ہوگیا، جس نے اُن کی زندگی کو ایک خاص سمت عطا کردی۔ وہ انگریزی، فرانسیسی، لاطینی، اطالوی، ہسپانوی، چیک اور سویڈش زبانوں کے ساتھ عربی، اردو، پشتو، سندھی اور تُرک زبانیں بھی جانتی تھیں۔
اپنے والدین کی اکلوتی تھیں اور ابھی کم عُمر ہی تھیں کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا، یوں معاشی طور پر سخت زندگی گزاری اور اُن تمام حالات کا سامنا کیا، جن کا دوسری عالمی جنگ کے دَوران اور بعد میں جرمنی کے دیگر باسی کر رہے تھے۔ شمّل 1954ء میں انقرہ یونی ورسٹی(تُرکیہ)سے وابستہ ہوئیں اور اگلے ہی برس ایک تُرک انجنیئر سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئیں، مگر یہ شادی محض دو برس ہی برقرار رہ سکی۔
اِس دوران اُن کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی اور اس کے بعد اُنھوں نے دوبارہ شادی بھی نہیں کی۔ 2003ء میں80برس کی عُمر میں بون(جرمنی) میں انتقال کرگئیں اور وہیں سپردِ خاک ہیں۔ این میری شمل پہلی بار 1958ء میں پاکستان آئیں، جس کے بعد یہاں کے لگ بھگ تین درجن دورے کیے۔ اُن کی پاکستان سے محبّت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرحلے پر پاکستان میں دفن ہونے کی خواہش تک کا اظہار کیا۔ اُنھوں نے اسلام، مسلمان، تصّوف، اردو ادب اور اقبال پر100 کے قریب کتب تحریر کیں۔
امریکا کی ہارورڈ یونی ورسٹی کے ساتھ دنیا کی کئی جامعات اور اداروں سے مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہیں۔ اُنھیں بہت سے اعزازات سے نوازا گیا، جن میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے عطاکردہ قومی اعزازات بھی شامل ہیں۔ جرمن نشریاتی ادارے، ڈی ڈبلیو(ڈوئچے ویلے) سے وابستہ، امجد علی نے 1989ء سے 2001ء کے دَوران شمّل کے چار انٹرویوز کیے، جب کہ ریڈیو کے لیے’’شمّل کا بچپن اور زمانۂ تعلیم‘‘، ’’ شمّل اور اسلام‘‘،’’ شمّل اور اقبال‘‘ اور’’شمّل اور پاکستان‘‘کے عنوانات سے خصوصی فیچرز پروگرامز بھی کیے۔
زیرِ نظر کتاب میں یہ تمام انٹرویوز اور فیچرز یک جا کردئیے گئے ہیں۔ نیز، ڈاکٹر جاوید اقبال، پروفیسر ریاض الاسلام، محمّد سہیل عُمر، محمّد اکرام چغتائی، گل جی، اسلم کمال، یاسمین لاری، سہیل ظہیر لاری، کارین مِٹ مان، اقبال جتوئی، غلام حیدر بُھرگڑی، غلام رسول اور محمّد اسلم طاہرالقادری ایڈووکیٹ کی گفتگو بھی شامل کی گئی ہے، جس میں مذکورہ شخصیات نے شمّل کے ساتھ بیتے وقت کو یاد کیا ہے۔
شمّل سے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے اور وفات سے کچھ دن قبل اُن کی خود نوشت بھی شایع ہوئی تھی، تاہم، اس کے باوجود ،شمّل سے متعلق جاننے کے خواہش مند اور اُن کی حیات و خدمات پر تحقیق کے متمنّی افراد کے لیے زیرِ نظر کتاب کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
یہاں اِس بات کا ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ شمّل کے قبولِ اسلام کی اطلاعات بھی گردش کرتی رہی ہیں اور اُنھیں جمیلہ کے نام سے پکارا بھی جاتا رہا ہے، امجد علی نے اِس موضوع پر بھی اُن سے کافی باتیں کی ہیں۔ ڈاکٹر تحسین فراقی اور احمد جاوید نے اِسے ایک گراں قدر کتاب قرار دیا ہے۔