مصنّف: سجّاد عباسی
صفحات: 432، قیمت: 2000 روپے
ناشر: آواز پبلی کیشنز، قبال مارکیٹ، اقبال روڈ، کمیٹی چوک، راول پنڈی۔
فون نمبر: 5211201 - 0300
سجّاد عباسی کا شمار نہ صرف سینئر بلکہ استاد صحافیوں میں ہوتا ہے۔’’جنگ‘‘ گروپ کے تحت شایع ہونے والے روزنامہ’’عوام‘‘ کے نیوز ایڈیٹر رہنے کے ساتھ، کئی اخبارات و جرائد سے منسلک رہے اور اِن دِنوں بھی ایک اخبار کے گروپ ایڈیٹر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ اپنے صحافتی تجربات پر مشتمل کتاب’’ من آنم‘‘ کی تیاریوں میں مصروف ہیں، لیکن اُس کی اشاعت سے قبل شاید قارئین کے’’ہاضمے‘‘ کی درستی کے لیے زیرِ نظر کتاب پہلے مارکیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا۔
اُنھوں نے اِس کتاب میں شعبۂ صحافت سے وابستہ سات اہم شخصیات سے مکالمہ کیا ہے، جس کے ذریعے جہاں ایک طرف مُلک کی ستّر سالہ صحافتی تاریخ کے مختلف ابواب اِن اوراق میں محفوظ ہوئے ہیں، تو وہیں مُلکی سیاست اور سماج سے جڑے اہم معاملات سے بھی آشنائی ہوتی ہے۔
مصنّف نے اِن منتخب شخصیات کا تعارف کچھ یوں کروایا ہے کہ’’تقسیمِ ہند کے بعد پاک سرزمین تک پہنچنے والے تباہ حال قافلوں میں ننّھا، طارق محمود بھی شامل تھا۔پاؤں میں جُوتی، نہ سَر پرچھت، مگر آگے بڑھنے، کچھ بننے اور کچھ کر دِکھانے کا سودا سَر میں سمایا تھا۔
وہ طارق محمود، ادب و صحافت کے میدان میں’’محمود شام‘‘ کے نام سے پہچانا گیا۔ اِس میں نذیر لغاری کی سرگزشت ہے، جنہوں نے ڈیرہ غازی خان کے ایک خانہ بدوش گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اِس میں محمّد شریف کی حکایت ہے، کوٹلی آزاد کشمیر کے دُور افتادہ گاؤں میں جنم لینے والے اِس بچّے کا بچپن غربت ہی نہیں، قحط آشنا بھی تھا۔ اور وہ ساتویں جماعت ہی میں’’عارف الحق عارف‘‘ بن گیا۔
اِس میں انور سن رائے کی داستان بھی ہے، جسے آٹھویں جماعت کے بعد اِس لیے اسکول سے نکال دیا گیا کہ فیس ادا نہیں کرسکتا تھا۔ وہ کبھی گاڑیاں دھوتا، تو کبھی فیکٹری میں بوجھ ڈھوتا۔ اِس میں وسعت اللہ خان کی کہانی بھی ہے، جس نے تعلیم کی ڈور کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے فیکٹری میں نو روپے پر دیہاڑی لگائی۔ اِس میں مظہر عباس کا قصّہ ہے، جو اہلِ صحافت کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک کہانی نام وَر فوٹو جرنلسٹ زاہد حسین کی بھی ہے، جنہیں بھٹّو خاندان کے فیملی فوٹو گرافر کی حیثیت حاصل رہی۔‘‘
یہ انٹرویوز، سجّاد عباسی کے زیرِ ادارت شایع ہونے والے روزنامے میں قسط وار شایع ہوتے رہے ہیں۔چوں کہ وہ اِس شعبے کے شناور ہیں اور سیاسی و سماجی اُتار چڑھاؤ پر بھی اُن کی گہری نظر ہے، اِس لیے اُنھوں نے پوری صحافتی مہارت سے اِن شخصیات کو کھنگالا ہے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ مذکورہ افراد کی علم و تجربات سے بَھری جیبیں خالی کر دی ہیں۔اِس کتاب سے متعلق محمود شام کی رائے ہے کہ’’اِس کی خُوبی یہ ہے کہ اِس میں ہر مکتبِ فکر سے وابستگان کی گفتگو شامل ہے۔
دائیں بازو والے بھی، بائیں بازو والے بھی۔‘‘عارف الحق عارف، انور سن رائے، راشد عباسی، عبدالخالق بٹ، علی حمزہ افغان اور احمد آفتاب نے بھی اِسے سراہا ہے، بلکہ اِس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے۔
یہ کتاب صحافت سے وابستہ افراد کے ساتھ، جامعات کے شعبۂ ابلاغِ عامّہ کے طلبا و طالبات کے لیے بھی کسی سوغات سے کم نہیں کہ اِس کا مطالعہ اُنھیں اپنے شعبے کی باریکیوں، مسائل، تاریخ اور حالاتِ کار سے بھرپور آگاہی فراہم کرے گا، جب کہ وہ اِس کے ذریعے اپنے آس پاس رُونما ہونے والے حالات و واقعات کا بھی زیادہ بہتر طور پر تجزیہ کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔