سندھ حکومت کی ترجمان سعدیہ جاوید نے کہا ہے کہ کراچی کا میئر صرف 22 فیصد ایگزیکٹو پاور رکھتا ہے۔ کنٹونمنٹ، ریلویز اور کے پی ٹی وفاقی ادارے ہیں، یہ سارے ادارے میئر کراچی کے کنٹرول میں ہونے چاہئیں۔
’جیو پاکستان‘ میں گفتگو کے دوران سعدیہ جاوید نے کہا کہ کراچی کے ماسٹر پلان کو چھیڑنے والی دونوں جماعتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ سب پی پی نے کیا۔ کمرشلائزیشن کی اجازت ڈکٹیٹر کے زمانے کے بلدیاتی نظام میں دی گئی، اس وقت شہر کی ایسی کی تیسی پھیری گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کراچی کا ہر روڈ کمرشل ہے، سیف سٹی منصوبے کے حوالے سے ہماری طرف سے تاخیر ہے لیکن تیزی سے کام ہو رہا ہے، گیارہ سو کیمرے نصب کیے جا چکے ہیں، باقی نصب ہو رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کے پی ٹی کا بھی حق بنتا ہے کہ روڈ انفرا اسٹرکچر میں کردار ادا کرے، کے ایم سی اپنے وسائل پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سعدیہ جاوید نے یہ بھی کہا کہ میونسپل ٹیکس ہزاروں کے بجائے اب کروڑوں میں جمع ہوئے، پراپرٹی ٹیکس کا کلک کے ساتھ مل کر سروے ہو رہا ہے۔