• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دانشمندی سے دنیا تیسری ہولناک عالمی جنگ سے بچ گئی اور 12روز سے جاری ایران اسرائیل لڑائی بند ہوگئی۔پیر کی رات قطر اور عراق میں قائم امریکی فوجی اڈوں پر ایرانی میزائل حملوں سے ایسا لگتا تھا کہ امریکا اس کے جواب میں پوری طاقت سے پھر حملہ کرے گالیکن امریکی صدر نے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے بات کرکے انہیں جنگ بندی پر آمادہ کیا۔پھر امیر قطر سے بات کی کہ وہ اسرائیل کی آمادگی سے متعلق ایران کو بتائیںاور اسے جنگ بندی پر رضامند کریں۔امیرقطر کے ایما پر ایران نے بھی آمادگی ظاہر کردی،جس کے بعد ایران نے اسرائیل پر ابتدائی میزائل حملوں کے بعد جنگ روک دی اور اسرائیل نے بھی 12گھنٹے بعد حملے بند کردیےہیں۔صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر جنگ جاری رہتی تو پورے خطے میں تباہی آجاتی۔قطر میں امریکی اڈے پر ایرانی حملے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران نے ہمیں پیشگی خبردار کردیا تھا اور ہم نے وہاں سے اپنے طیارے اور دوسرے اثاثے کسی دوسری جگہ منتقل کردیے تھے۔جنگ بندی کو انہوں نے ایران اور اسرائیل دونوں کیلئے محبت اور خوشحالی کی نوید قرار دیا اور درخواست کی کہ اب اس کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکا نے جو طاقتور حملے کیے تھے،ایران نے اس کے جواب میں قطر اور عراق میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا۔پاکستان نے نہایت متوازن موقف اختیار کیا اور ان حملوں پر تشویش کا اظہار تو کیا مگر ایران کے ساتھ یک جہتی کا اعلان بھی کیا۔ایرانی تنصیبات پر امریکی حملوں پر بھی پاکستان نے نام لیے بغیر شدید تشویش ظاہر کی تھی۔پیر کو ایران اسرائیل جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت سیاسی اور عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میںپیدا شدہ صورتحال پر غورکرتے ہوئےفریقین کو باہمی تنازعات مذاکرات کے ذریعے طے کرنے پر زور دیا گیا۔اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا کہ پاکستان فریقین میں امن کے فروغ کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔پاکستان کا ردعمل قومی مفاد کے مطابق تھاکیونکہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال مزید بگڑتی تو تیل کی سپلائی سمیت پاکستان کیلئے شدید مشکلات پیدا ہوجاتیں۔یہ ایسی جنگ تھی جس کے برسوں جاری رہنے کا خدشہ تھا۔اسرائیل کو اگر امریکا اور مغربی طاقتوں کی آشیرباد حاصل تھی تو ایران بھی اسلامی ملکوں کے علاوہ روس اور چین کی مدد کی توقع کرسکتا تھا۔روس کے ایک سابق صدر نےتوواضح کردیا تھا کہ ایران کو کئی اطراف سےبنے بنائے ایٹمی ہتھیار مل سکتے ہیں۔امریکی فوجی اڈوں پر حملے سے پہلے ایرانی وزیرخارجہ روس گئےتھے،جہاں انہوں نے صدر پوٹن کو بھی جنگ کی صورتحال پر اعتماد میں لیا تھا۔ایران آبنائے ہرمز بند کرنے والا تھا جس سے پوری عالمی معیشت مفلوج ہوجاتی۔جنگ سے متاثر ہ ممالک میں پروازیں معطل ہوگئی تھیں جس سے شدید مالی نقصانات اٹھانے پڑرہے تھے۔اسٹاک مارکیٹیں سکڑ رہی تھیںاور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا تھا۔جنگ بند ہونے سے سب نے سکھ کا سانس لیا ہے۔پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں ،جو ایک روز قبل شدید مندی کا شکار ہوگئی تھی،منگل کی صبح 6 ہزار پوائنٹس سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔ایران اسرائیل جنگ تو رک گئی مگر کئی مسائل پائیدار امن کے متقاضی ہیں۔اس لیے مذاکرات ضروری ہیں،جن کے بارے میں کوئی لائحہ عمل تاحال سامنے نہیں آیا۔انسانی فکر کا سب سے اہم نکتہ مظلوم فلسطینیوں کی حالت زار ہے ،جن کا اسرائیل مسلسل قتل عام کررہا ہے اور امریکا اس کی پشت پر ہے۔عالم انسانیت کو فلسطینیوں کی بقا کے متعلق ترجیحی بنیادوں پر سوچنا چاہئے۔

تازہ ترین