پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ اس کی معاشی خوشحالی کا زیادہ تر انحصار زرعی ترقی پر ہے جس کیلئے حکومت ممکنہ حد تک ضروری اصلاحات کررہی ہے۔ لیکن ہمارےزمینداروں اور کسانوں کی توقعات حکومتی اقدامات سے کہیں زیادہ ہیں۔ موجودہ حکومت کو ان کے مطالبات کا پوری طرح ادراک ہے۔ زرعی شعبے کی ترقی کے حوالے سے بدھ کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں زرعی پیدا وار میں اضافے،زرعی انفراسٹرکچر اور کسانوں کو آسان قرضوں تک رسائی کے حوالے سے متعدد تجاویز پیش کی گئیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ زراعت کی ترقی کے لئے آئندہ بجٹ میں کھاد اور زرعی ادویات پر ٹیکس نہیں لگایا جارہا زرعی شعبے میں پائیدار اصلاحات کے ذریعے ملکی معیشت کو فروغ دینے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اس سے فی ایکٹر پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ اور پیداواری لاگت میں بھی کمی ہوگی۔ انہوں نے زرعی اجناس کی اسٹوریج کو بڑھانے کے اقدامات تیز کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ فارم میکنائزیشن کی ترویج کے نئے زرعی مشینری اور آلات پر ٹیکس بتدریج کم کئے جائیں تاکہ کھیتی باڑی کرنے والوں پر مالی بوجھ کم کیا جاسکے۔ بجلی کی مسلسل فراہمی زرعی شعبے کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس شعبے میں نقصان سے دوچار کمپنیوں کی نیلامی کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کو بھی جلد مکمل کیا جائے۔وزیر اعظم نے بتایا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن کا عمل مکمل کرچکی ہے جس سے ملک کے اس سب سے بڑے صوبے کی زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ اجلاس میں زراعت کی ترقی کے لئے پائیداری اصلاحات کے حوالے سے جن تجاویز پر غور کیا گیا وہ یقیناً نہایت سودمند ہیں لیکن اس ضمن میں اس شعبے کی تنظیموں کے مطالبات پر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر فیصلے کئے جانے چاہئیں۔