• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گرم گرم تلی ہوئی مچھلی کھانے کیلئےمیں شہر کے پر رونق علاقے میں واقع ایک چھوٹی سی دکان میں داخل ہوا تو بجائے سڑک کی طرف منہ کرنےکے میں دکان کے عقب میں کھلنے والے دروازے کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا جسے اندر سے کنڈی لگا کر بند کیا گیا تھا میں نے مچھلی کا آرڈ ردیا اور اپنے سامنے بچھی ہوئی میز کے باوجود مخمصے میں مبتلا رہا کہ اپنی کہنیاں کہاں جماؤںکیونکہ میز پر گلاسوں سے گرے ہوئے پانی، مچھلی کے کانٹوں اور چکناہٹ کے دھبوں کے بعد کہنیاں جمانےکیلئے کوئی خاص جگہ باقی نہیں بچی تھی تھوڑی دیر میں بیرا ایک پلیٹ میں مچھلی اور ایک میں نان لیے آ گیا اور یوں میر ی مشکل آسان ہو گئی کیونکہ اب میرے دونوں ہاتھ مصروف ہو گئے تھے یہ ایک چھوٹی سی دکان تھی جس میں صرف تین چار میزوں کی گنجائش تھی چنانچہ دکان کے عقب میں کھلنے والا دروازہ مجھ سے صرف چند فٹ دور تھا میں نے ابھی دو چار نوالے ہی لیے تھے کہ بیرا دونوں ہاتھوں میں گندے برتنوں کا ڈھیر اٹھائے دروازے کی طرف گیا اور اس نے کمال مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے ہاتھوں میں برتنوں کے ڈھیر کی وجہ سے اپنی انگلیوں سے دروازہ کھولا اور پھر میرے سامنے ایک عجیب منظر تھا۔ دروازے کے بالکل ساتھ ایک وسیع و عریض قبرستان تھا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ دکان دراصل قبرستان کے اندر واقع ہے اور یوں میں عین قبرستان کے اندر بیٹھا مچھلی کھا رہا ہوں۔ بیرا ایک قبر کے پاس بیٹھا برتن دھو رہا تھا۔ یہ قبر مجھ سے زیادہ سے زیادہ پانچ سات فٹ کے فاصلے پر تھی مجھے یوں لگا جیسے میں مچھلی نہیں مچھلی کے کانٹے چبا رہا ہوں اور ایک بڑا سا کانٹا میرے حلق میں پھنس گیا ہے ۔

میرے عقب میں واقع سڑک پر انسانوںکا ایک ہجوم تھا جو سائیکلوں موٹر سائیکلوں، کاروں ،اسکوٹروں، بسوں اور ویگنوں پر افراتفری کے عالم میں کسی بے سمت منزل کی طرف بھاگا چلا جا رہا تھا اور میرے سامنے قبریں تھیں جن میں انہی انسانوں کے بھائی بند مردہ جسموں پر کفن اوڑھے پڑے تھے!یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ میں نے سوچاکچھ بھی نہیں زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ تم ڈیڑھ پاؤ مچھلی میرے لیے بھی منگواؤ بیرے سے کہو مسالہ ذرا کم چھڑ کے مجھ سے چند گز کے فاصلے پر موجود قبر میں سے ایک مردہ باہر نکل کر میرے برابر والی کرسی پرآ کر بیٹھ گیا اور اب وہ میرے بی ہاف پر بیرے کو آرڈ ردے رہا تھا ! میرا تصور اتناا سٹرانگ تھا کہ مجھے یہ سب کچھ بالکل حقیقت کی طرح محسوس ہوا تاہم یہ سب کچھ تصوراتی ہونے کے باوجود ایک لمحےکیلئے مجھے اپنے جسم میں خوف کی ایک لہر سی دوڑتی محسوس ہوئی مگر اگلے ہی لمحے میں مکمل طور پر نارمل ہو گیا ۔یار یہ تم خواہ مخواہ میرے پیسے ضائع کراؤ گے تم مچھلی کیسے کھا سکتے ہو تم تو مردے ہو میں نے اسے مخاطب کر کے کہا۔اس کے جواب میں وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا اور بولا’’بہت خوب ‘‘میں اگر مردہ ہوں تو کیا تم زندہ ہو؟ تم تو ان سب لوگوں کو بھی زندہ سمجھ رہے ہوگےجو سامنے سڑک پر افرا تفری کے عالم میں منہ اٹھائے بھاگے جارہے ہیںتم تو مجھے طنزو مزاح نگار لگتے ہو میں نے کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہوتے کہا۔’’تمہارا نام کیا ہے۔شیکسپیئر نے کہا ہے نام میں کیا رکھا ہے اس نے میری پلیٹ میں سے مچھلی کا ایک ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔‘‘ ویسے میرا نام غمگین اندوہ پوری ہے۔’’غمگین اندوہ پوری میرے لہجے میں حیرت تھی۔ نام تمہارا غمگین ہے مگر باتیںتو بہت زندہ دلی کی کرتے ہو؟انسان جتنا غمگین ہو اس کی باتوں میں اتنی ہی زندہ دلی ہوتی ہے‘‘! بہت خوب تو غمگین صاحب زندگی میں آپ کیا کرتے تھے ۔یہی جو اس وقت کر رہا ہوںکیا مطلب؟’’مطلب یہ کہ مفت بری کرتا تھا‘‘جہاں چار لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے ہوتے میںان میں شامل ہو جاتا!’’تب تو آپ خاصی ناپسندیدہ شخصیت ہوں گے!‘‘واہ صاحب یہ آپ نے کیا بونگی ماری ہے ہمارے معاشرے میں تو وہ لوگ بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جو دوسروں کی محنت پر پلتے ہیں۔

یہ سب بڑے بڑے جاگیر دار کیا کرتے ہیں ’’محنت کوئی کرتا ہے‘‘کھاتے یہ ہیں بلکہ اسمبلیوں میں محنت کرنے والوں کی نمائندگی بھی یہی کرتے ہیں۔ مشیر وزیر بھی یہی لوگ ہوتے ہیں۔ افسوس کہ آپ نے مجھے بہت انڈر اسٹیمیٹ کیا ہےمعافی چاہتا ہوں غمگین صاحب اصل میں ....آپ اس بات کو چھوڑیں میرے لیے بیرے کو اس کوڈ میں مچھلی کا آرڈر دیں جس سے وہ سمجھ جائے کہ آپ نے ٹر خانے کیلئے آرڈر نہیں دیا بلکہ آپ سچ مچ چاہتے ہیں کہ آرڈر کی تعمیل کی جائے کیونکہ وہ ابھی تک مچھلی نہیں لے کر آیا اور ہاں دو نان بھی منگوا لیں، اسے کہیں ذرا سینک کر لائے!‘‘غمگین صاحب آپ تو یونہی میرے بارے میں بدگمانی سے کام لے رہے ہیں۔’’بدگمانی سے کام لینا ضروری ہے اس قوم کو خوش گمانیوں ہی نے تو مارا ہے گزشتہ 43 برسوں میں ہر آنے والی حکومت پبلک کے سامنے یہی اعلان کرتی ہے کہ ان کیلئے روٹی کپڑے کا آرڈر دے دیا گیا ہے مگر چونکہ آرڈر دیتے ہوئے ایک مخصوص اشارے سے سمجھا دیا جاتا ہے کہ اس کی تعمیل نہیں ہونی چاہیے۔ چنانچہ عوام حکمرانوں کو نیک دل سمجھتے رہتے ہیں اور انکے اہلکاروں کو برا کہتے ہیں۔ معاف کیجیے گا حضرت میرے ساتھ یہ تکنیک نہیں چلے گی !‘‘خدا کا شکر ہے کہ بیرا تھوڑی ہی دیر بعد ایک پلیٹ میں ڈیڑھ پاؤ مچھلی اور دونان لے کر آ گیا جس پر میں نے اطمینان کا سانس لیا ورنہ غمگین اندوہ پوری نے اپنے جملوں سے مجھے بھی ادھ موا کر دینا تھا!’’یہ بتائیں آپ کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ میں نے دانستہ موضوع بدلتے ہوئے کہا،کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ آپ کے مردہ بھائی بند آج کل کیا کر رہے ہیں !‘‘ہڑتال پر ہیں۔پڑتال پر ہیں ؟ وہ کیوں ؟’’اکثر مردے ان دنوں بغیر کفن کے دفنائے جارہے ہیں !‘‘میں آپ کی بات سمجھا نہیں۔یہ کوئی ایسی ناقابل فہم بات نہیں گزشتہ دنوں جو الیکشن ہوئے اس میں سڑکوں پر امیدواروں نے اتنے بڑے بڑے بینر لگوائے جس سے کپڑے کی شارٹیج ہو گئی اور یوں اس کی قیمتیں آسمان کو پہنچ گئیں چنانچہ ان دنوں بیشتر مردے انہی کپڑوں میں دفن ہیں جو انہوں نے مرتے وقت پہنے ہوئے تھے آپ میرے ساتھ آئیں میں آپ کو دکھاؤں کوئی دھوتی باندھ کر لیٹا ہوا ہے کسی نے کھیسں اوڑھا ہوا ہے کوئی چوڑے گھیرے والی شلوار پہنے ہوئے ہےاور یہ سب لوگ احتجاج کر رہے ہیں کہ انہیں کفن مہیاکیا جائے۔ (باقی کل)

تازہ ترین