کراچی میں پرانی ہی نہیں بلکہ نئی حتیٰ کہ زیر تعمیر عمارتوں تک کے منہدم ہونے کے واقعات قوقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں۔ زیادہ جانی نقصان نہ ہو تو انہیں کوئی خاص اہمیت نہیں ملتی ، بصورت دیگر عوامی سطح پر بھی زیادہ ردعمل ہوتا ہے اور متعلقہ حکام میں بھی کچھ ہلچل نظر آتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ پہلے جیسا ہوجاتا ہے ۔ ایسا نہ ہوتا تو عشروں سے منظر عام پر آنے والی ان رپورٹوں پر کوئی نتیجہ خیز کارروائی کی جاچکی ہوتی کہ شہر میں سینکڑوں عمارتیں بوسیدگی یا ناقص تعمیر کی وجہ سے مخدوش ہیں۔ غفلت پر مبنی اسی روش کے نتیجے میں لیاری کے علاقے میں چار روز پہلے ایک پانچ منزلہ عمارت زمیں بوس ہوگئی اور اس حادثے میں27افراد اپنی جان سے گئے ۔ اس عمارت کی تیسری منزل گرانے کا حکم دیا گیا تھا لیکن اس پر دو منزلیں اور تعمیر کرلی گئیں جس میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے رشوت خور اہلکاروں کا ملوث ہونایقینی ہے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ عوامی امور سے متعلق سرکاری ادارے عرصہ دراز سے کرپشن کا گڑھ بنے ہوئے ہیں اور اس حرام کمائی کا حصہ حکام بالا کی آخری صف تک پہنچتا ہے۔ حکومت سندھ کے ذمے داروں نے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں پائی جانے والی اس صورتحال کا خود اعتراف کیا ہے لیکن اس بنیاد پر وہ خود کو جواب دہی سے بری نہیں ٹھہرا سکتے۔ عمارتوں کی تعمیر میں لازمی شرائط کو نظر انداز کرنے کی یہ کیفیت صرف کراچی یا سندھ تک محدود نہیں بلکہ درجوں کے فرق کیساتھ ملک بھر میں پائی جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ کرپشن ہے۔ انسانی جانوں کے اتلاف کا سبب بننے والی اس صورتحال کا مستقل ازالہ ضروری ہے‘ کراچی سمیت ملک بھرمیں آئے دن آنیوالے زلزلوں نے جدید طریقوں کے مطابق عمارات کی معیاری اور مستحکم تعمیر کا اہتمام مزید ناگزیر بنادیا ہے لہٰذا وفاق اور صوبوں میں تمام متعلقہ حکام اور اداروں کو اس سمت میں تمام مطلوبہ اقدامات عمل میں لانے کی فوری منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔