• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک ماروائے حقیقت( Surrialistic) خام تحریر ہے ۔اس لاشعوری کالم کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ،اسے محض افسانہ سمجھ کر پڑھیے گا ۔

یہ خواب تھا یا حقیقت؟ یاد نہیں، یہ دن تھا یا رات؟ خبر نہیں، یہ سچ تھا یا جھوٹ؟ علم نہیں۔ یہ نہ رات تھی نہ دن تھا ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔میں نے دیکھا کہ ہر طرف سر کٹے تھے سارا شہر ہی سر کٹوں کا تھا ہاتھ پائوں کام کرتے تھے مگر دیکھنے، سننے اور سوچنے کا خانہ خالی تھا۔ سر کٹے شہر کی سب سے اونچی جگہ پر بیٹھے شخص کا سر سب سے پہلے کاٹا گیا اس نے شہر کا نظام بنانے اور شہر کے نئے حاکموں کو لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا مگر جب فیصلہ ہو گیا کہ اب کوئی سر اٹھا کرنہ چلے تو پھر اس کا سر کیسے سلامت رہ سکتا تھا ۔وہ اب بھی اونچی جگہ پرہی مقیم ہے مگر اب وہ سر بریدہ ہے، اسکے جسم کا کیا ہے وہ ایک ہی ضرب سے ہوا ہو جائیگا۔

نیم وا آنکھوں سے کیا دیکھتا ہوں کہ شہر کی ٹریفک رواں دواں ہے عجیب فسوں ہے کہ گاڑیاں چلانے والوں کے سر بھی کٹے ہوئے ہیں اور پیدل چلنے والوں کے سر بھی نہیں بس جسم ہیں جو چلے جا رہے ہیں ،سوچتا ہوں کہ دماغ کے بغیر یہ سب کچھ کیسے چل رہا ہے؟ شہر کی اسمبلی میں دیکھتا ہوں تو وہاں بھی سب سر کٹے ہیں ،ایوان میں تقریریں ہو رہی ہیں، بحث مباحثہ ہو رہا ہے، لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں، سب کچھ ہو رہا ہے مگر فیصلے نہیں ہو رہے ،سر کٹے اراکین ا سمبلی خوش پوش ہیں، سینے سےآوازیں بھی زور دار نکالتے ہیں مگر فیصلے نہیں کر سکتے ،فیصلے کہیں اور سے آتے ہیں، بس ان پر عمل ہو جاتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ شہری کابینہ اور شہر کی حکومت یہ فیصلے کرتی ہوگی وہاں تو سر سلامت ہونگے۔ میرا یہی خیال مجھے کابینہ کے اجلاس میں لے گیا وہاں بھی سب سر کٹے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے بیٹھے صلاح مشورے کر رہے تھے ،شہر کا حاکم بیچوں بیچ بیٹھا مختلف امور پر سر کٹے وزراء کی رائے لے رہا تھا مجھے لگا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں شہر کے سارے فیصلے ہوتے ہیںچنانچہ انہماک سے کابینہ کی کارروائی دیکھنے لگا مگر جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ شہر کی کابینہ غوروخوض تو کرتی ہےمگر فیصلے نہیں کرتی۔ میری سمجھ میں بات آگئی کہ کابینہ دوسروں پر فیصلے تھوپتی نہیں انتظامیہ خود ہی کابینہ کی سوچ کے مطابق فیصلے کر لیتی ہوگی ۔میں نے خواب ہی خواب میں حکومتی ایوانوں کے چکر لگائے، دفتروں میں جھانکا ہر طرف سر کٹے بیٹھے ہوئے تھے اور سب کہیں اور سے فیصلوں کے انتظار میں تھے ،سر کٹوں کو علم تھا کہ انہوں نے فیصلے نہیں کرنے صرف ان پر عمل کرنا ہے۔ گویا سر کٹے صرف عمل کے بندے ہیں اور یہ شہر صرف اور صرف عمل کاشہر ہے یہاں علم، شعور اور آگہی کا دور دور تک کوئی شائبہ نہیں ۔شہر کی پہاڑی پر واقع اونچی جگہ پر بیٹھا شخص شاداں و فرحاں تھا کہ اس شہر کو بسانے اور نیا نظام لانے میں اس کا اہم کردار تھا مگروہ سر کٹے شہر کے اصولوں سے نا آشنا نکلا ۔سرکٹے شہر میں ایک اصول سب سے زیادہ اہم ہے اسکی خلاف ورزی ریڈلائن ہے اوروہ اصول یہ ہے کہ یہاں پر رہنے والے سر کٹوں کو اپنا پیٹ بڑھانے کی مکمل آزادی ہے مگر جو کوئی ناخن بڑھائے اس کیلئے کوئی معافی نہیں! اونچی جگہ والا سمجھ نہ پایا اور اس نے ناخن بڑھالیے تو فوراً ہی اسکے بولنے، پہننے اور آزادیوں پر پابندی لگا دی گئی اس کا اپنا عملہ بے بس ہو گیا سب کے سر کاٹ لئے گئے اور وہاں ایک سر والا بھیج دیا گیا ، اونچی جگہ کا نظام اب سر والے کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔ ماضی میں جب ناخن بڑھنے کا اندازہ نہیں تھا تواونچی جگہ والے نے ایک دن دیوار والے ملک کو واضح طور پر لکھ دیا کہ ہمیں سفید ہا تھی نہیں آپ کے ساتھ چلنا ہے۔ اس وقت اونچی جگہ والے کا سر سلامت تھا مگرپیغام کی ہڈی گلے میں پھنس گئی، پیغام رک گیا اور ناخن چیک کرنے کا حکم آگیا تب یہ بھی کہا جانے لگا کہ اونچی جگہ والےکا نظام الاوقات درست نہیں اسکی راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں، اسکے ناخن تو خیر اگلے ہی دن کاٹ دیئے گئے اور پھر اسے بھی سر کٹا بنا دیا گیا اِن دنوں سر کاٹنے کے باوجودوہ برداشت نہیں ہو پا رہا کہ خدشہ ہے کل کو اس کے ناخن دوبارہ نہ نکل آئیں۔دوسری شہری حکومت کا سربراہ تجربہ کار سر کٹا ہے۔ سر نہ ہونے کے باوجود وہ سر کی بجائے پورا جسم جھکا دیتا ہے، وہ اتنا تجربہ کار ہے کہ اس نے ناخن جڑوں سے ہی اُکھڑوا دئیے ہیں تاکہ نہ ناخن بڑھیں اور نہ گلے شکوے ہوں مگر اس سر کٹی شہری حکومت پر بھی چارج شیٹ تیار ہے، الزام ہے کہ یہ سر کٹی حکومت سرکٹے عوام کو اس نظام کی برکات اور خوبیوں کے بارے میں آگاہ کرنے سے قاصر رہی ہے اس حکومت سے ’’سلامت سر‘‘ والوں کو توقع ہے کہ وہ نہ اپنے سرکٹےہونے کا کسی کو پتہ چلنے دے اور نہ ناخنوں والا معاملہ کسی کے علم میں لائے۔اس شہری حکومت سے امید کی جارہی ہےکہ وہ سب سر کٹوں کو اپنی صفوں میں لائے، ان سے صاحب سلامت کرئے اور یوں شہر میںچین کی بانسری بجے۔ مگر ان سر کٹوں میں عجیب بھونڈی روایت ہےکہ سر کٹا ہونے کے باوجود یہ ایڑیاں اٹھا کر اعلان کرتے ہیں کہ ہم باغی ہیں۔ سر تو کٹ چکے اب ایڑی کے پیچھے پڑے ہیں ،یہ بھونڈے فسادی ایڑی کے زور پر انقلاب لانا چاہتے ہیں ایڑی سے آپ نمایاں ہوجاتے ہیںمگر سر کٹے یہ سوچتے ہیں کہ ایڑیاں سلامت ہیں توپھر بھی بغاوت ہو سکتی ہے ناخن بڑھیں گے تو یہ کہیں نہ کہیں لگیں گے بھی!

میں نے خوابیدہ آنکھوں سے دیکھا تو یہ شہر مجھے ابن زیاد کا کوفہ لگا ابن زیاد نے کوفے کے لوگوں کے سروں کے پکنے کی بات کی اوریوں کوفہ سر ہو گیا،کوفہ میں سر کٹے نہیں سر جھکے تھے، مگر نیند میں، میں نے دیکھا کہ میرے شہر کے لوگ سب سر کٹے تھے بس فیصلہ سازوں کے سر سلامت تھے وہی فیصلے کرتے اور وہی شہر کا انتظام چلاتے۔ سر کٹے اتنے بے وقوف ہیں کہ نہ انہیں سر کٹانے سے پہلے عقل تھی اور نہ اب ہے۔ سرکٹے بے عقلوں اور نادانوں کا وہ ٹولہ ہیں جنکا خیال ہے کہ ناخن پھراُگ آئیں گے تو سب کچھ بدل جائے گا۔مگر انہیں خیال ہونا چاہئے کہ صرف ناخن اُگنے سے سر نہیں بحال ہوتے پہلے اکٹھے رہنے کا اجتماعی فیصلہ کرنے کا ہنرپیدا کرنا ہوگا۔ مصالحت سے نہ رہنے والوں کے سر کٹتے ہیں اور دنیا بھر میںعقل سے چلنے اور چلانے والوں کے سر سلامت رہتے ہیں۔

خواب میں اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ میرا سر بھی کٹا ہوا ہے میں بھی سر کٹا ہوں اور دوسرے سرکٹوں کی طرح خون کی ایک بوند تک نہیں بہہ رہی ،خون ہو گا تو نکلے گا ۔ سرکٹوں کی طرح میری عقل بھی کہیں جا چکی ہے میں نہ سن سکتا ہوں ،نہ دیکھ سکتا ہوں ،نہ سونگھ سکتا ہوں۔ میرے بازو سلامت توہیں مگر شل ہیں اور یہ بازو کئی بار آزمائے گئے ہیں ان سے کوئی خطرہ بھی نہیں۔ ناخن ابھر آئےہیں مگر ناخن کھرچے بھی جاسکتے ہیں ۔شہر کی سب سے اونچی پہاڑی والا بھی زیر گردش ہے اور شہر کے نشیب میں یہ سر کٹا بھی دباو میں ہے،یہ سرکٹا ہی کیا سبھی سرکٹے دباو میں ہیں، کسی کے ناخن میں طاقت نہیں کہ وہ کسی کو چرکا بھی لگاسکے۔

خواب کا آخری منظر جو مجھے ہلکا ہلکا یاد ہے کہ پہلے پہاڑی والا گرایا گیا پھر شہر کا تجربہ کار حاکم بھی جاتا رہا۔ سر سلامت والے جگہ لیتے گئے خواب میں اچانک دُھند آئی، بارش برسنے لگی، بجلی چمکی تو سر کٹوں کے ناخن اُگے ہوئے تھے گردنوں پر سر کی جگہ خون تھا ایڑیاں اٹھی ہوئی تھیں ایسا لگا کہ دائرہ ٹوٹ رہا ہے۔سر کاٹنے کے باوجود’ سلامت سر‘ شہر کو چلا نہیں پاتے پھر سر کٹوں کی ضرورت پڑتی ہے۔شہر سر کاٹنے سے نہیں سروں کو آزادی دینے سے آباد اور خو شحال ہوتے ہیں شہر میں پہلے بھی کئی تجربے ہوئےچکے ہیں، اب صرف جسم کٹنا باقی ہے،کوئی اسے ہی بچا لے۔ اچانک آنکھ کھلی تو سب واہمہ نکلا، شہر بھی سلامت تھا اور سر بھی۔

تازہ ترین