کرپٹو کرنسی ایک ڈیجیٹل یا ورچوئل کرنسی ہے ، اسے مرکزی بینک یا حکومت کی مداخلت کے بغیر، ڈی سنٹرلائزڈ طریقے سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ مشہور کرپٹو کرنسیوں میں بٹ کوائن، ایتھریئم ، بائنانس کوائن وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا بھر میں یہ نظام ابھی بالعموم تجرباتی مراحل میں ہے۔ اب پاکستان میں بھی اس کا آغاز ہورہا ہے ۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ روز ہی ’’ورچوئل اثاثہ جات ایکٹ 2025‘‘ کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔اسکے تحت ’پاکستان ورچوئل اثاثہ جات ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے جو ایک خودمختار وفاقی ادارہ ہوگا۔یہ اتھارٹی ملک میں ورچوئل اثاثوں سے متعلق اداروں کو لائسنس جاری کرنے، ان کی نگرانی اور ریگولیشن کا مکمل اختیار رکھے گی۔ اتھارٹی کو شفافیت، مالی دیانتداری، تعمیلِ قوانین، اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے بین الاقوامی معیارات بشمول فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطابق مکمل اختیارات حاصل ہوں گے۔ قانون میں اسلامی مالیاتی اصولوں سے مطابقت کو یقینی بنانے کیلئے ’’شریعہ ایڈوائزری کمیٹی‘‘ کے قیام کا بھی حکم دیا گیا ہے۔اس نئے ابھرتے شعبے میں خطرات بھی ہیں اور مواقع بھی۔ اس نظام کے مثبت پہلوؤں میں اس کا ڈی سنٹرلائز یعنی کسی حکومت یا بینک کے کنٹرول سے آزاد ہونا بڑی اہمیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر کسی فیس کے بغیر لین دین اور رقوم کی فوری منتقلی ممکن ہوتی ہے۔بلاک چین کیوجہ سے شفافیت یقینی ہوجاتی ہے۔ تاہم کرپٹو کرنسیوں کی قدر میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ ہوتا رہنے کی وجہ سے بھاری نقصان کا خدشہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ سائبر جرائم کے امکانات بھی اس میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں نیز منی لانڈرنگ کیلئے بھی اسے آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔لہٰذا پاکستان میں ان تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے رائج کیا جانا چاہیے تاکہ اس کے خطرات سے بچتے ہوئے اس کے فوائد سے استفادہ کیا جاسکے۔