وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی کی ایک حالیہ سفارش سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پوسٹ آفس کو نجکاری کی اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے جو 31دسمبر 2025ء تک کی ہے۔ یوں سرکاری ڈاک سروس کےپونے دو سو سال پر محیط باب کا اختتام قریب آتا محسوس ہورہا ہے۔ برصغیر جنوبی ایشیا میں سرکاری طور پر ڈاک کی ترسیل کا باضابطہ نظام انگریزوں کی آمد کے بعد 1850ءکی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ اگرچہ میرٹھ چھائونی میں مقامی فوجیوں (مسلمانوں اور ہندوئوں) کی بغاوت سے شروع ہونیوالی جنگ آزادی نے 1857ء میں جنرل بخت خان کی قیادت میں زور پکڑا مگر اس سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں اپنے پنجے گاڑچکی تھی۔ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا برائے نام اقتدار محل تک محدود رہ گیا تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کو غیر ملکی حکمرانوں نے بعدازاں غدر (یعنی غدّاری) کا نام دیا جبکہ بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون (برما) میں قید کردیا۔ وہیں ان کا انتقال اور تدفین ہوئی۔ 1947ء میں دو مملکتوں بھارت اور پاکستان کے قیام کی صورت میں برصغیر میں آزادی کا دور شروع ہوا تو ضرورت کے مطابق سرکاری محکموں کی بندش و تشکیل کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو معیشت کے جس بڑے چیلنج کا سامنا ہے اس سے نمٹنے کے اقدامات میں رائٹ سائزنگ اور کفایت پر زور دیا جارہا ہے جس کی زد میں محکمہ ڈاک بھی آتا محسوس ہورہا ہے۔ عملی طور پر ملک میں ڈاک اور پارسل پہنچانے کا کام برسوں سے نجی کمپنیوں کے ذریعے جاری ہے جبکہ موبائل اور انٹرنیٹ پیغام رسانی کے تیز ترین ذرائع ہیں۔ اسکے باوجود معاملے کے تمام پہلوئوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جانا چاہئے۔ ڈاک کا محکمہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کے متعدد اہم پہلوئوں کو اپنے دامن میںسمیٹے ہوئے ہے۔ اسکے مستقبل کا فیصلہ کچھ بھی ہو، اسکے ماضی کے اہم کردار کا تحقیقی ریکارڈ مطبوعہ حالت میں اہم لائبریریوں کی زینت بننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔