پرندوں میں سے مجھے کوے اور طوطے بہت پسند ہیں، کووں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ ہر وقت الرٹ رہتے ہیں اپنی آزادی کے تحفظ کے ضمن میں یہ کسی کمپرومائز کے قائل نہیں۔اگر انہیںکوئی دانہ بھی ڈالے تو بھی یہ اس کو اپنا دوست سمجھ کر اس سے غافل نہیں ہو جاتے بلکہ دانہ چگتے ہوئے بھی انکی نظر اس کے ارادے پر رہتی ہے۔ اگر انہیں خدشہ ہو کہ دانے کے ساتھ کہیں دام بھی ہے جو انہیں غلام بنا سکتا ہے تو یہ دانے کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ جبکہ لالچی، احمق یا چند دانوں کی خاطر اپنی آزادی کو خطرے میں ڈالنے کا رسک گوارا کرنے والے دوسرے پرندے صیادکے پھیلائے ہوئے دام میں آجاتے ہیں۔ کوا اپنی آزادی کی خاطر روکھی سوکھی کھانا پسند کر لیتا ہے لیکن غلامی کی قیمت پر اسے بڑی سے بڑی نعمت بھی گوارا نہیں۔ اس کالےکلوٹے پرندے کی یہ حریت پسندی گورے چٹے لوگوں کو اچھی نہیں لگتی چنانچہ ممکن ہے کالے لوگوں کی ٹھکائی کے بعد آنے والے دنوں میں اس پرندے کو بھی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرکے اس کے خلاف آپریشن شروع کر دیا جائے۔ کوے کی طرح طوطا بھی مجھے پسند ہے۔ اسے لاکھ چوری کھلائیں بہت پیار سے میاں مٹھو کہہ کر پکاریں۔ اسکے باوجود یہ غلامی پسند نہیں کرتا چنانچہ پنجرے کا دروازہ کھلا پاتے ہی اڈاری مار دیتا ہے اور صیاد اپنے ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ اس کی آزادی پسندی کو سامراجی ذہن رکھنے والے گوروں نے طوطا چشمی کا نام دے رکھا ہے۔ اگر یہ چوری کی لذت میں اپنی آزادی کو صیادکے آگےرہن رکھ دیتا تو صیاد اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتا مگر یہ سمجھ دار پرندہ ہے یہ جانتا ہے کہ اس سے اتنا پیار کیوں کیا جا رہاہے ۔ اسے میاں مٹھو کے پیار بھرے نام سے کیوں پکارا جاتا ہے۔ اسے چوری کیوں کھلائی جا رہی ہے اسے اتنا پروٹوکول کیوں دیا جا رہا ہے۔ چنانچہ وہ اپنےبارے میں کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی بجائے اپنی لائن سیدھی رکھتا ہے اس کی جگہ کوئی اور پرندہ ہوتا تو وہ اس ناز برداری کی بنیاد کو اپنی قابلیت قرار دیکر خود کو پرندوں کی تھرڈ ورلڈ کاسب سے بڑا لیڈر سمجھنے لگتا مگر یہ پرندہ انسانوں سے زیادہ سمجھدار ہے چنانچہ صیادکے کسی چکر میں نہیں آتا البتہ مجھے را طوطے اچھے نہیں لگتےرا طوطے وہ ہوتے ہیں جن کے گلے میں سنہری طوق ہوتا ہے اور جو مالک کے رٹے رٹائے جملے بول کر اسے خوش کرنے کی کوشش میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کی اپنی کوئی زبان نہیں ہوتی ۔ ان کا اپنا کوئی ذہن نہیں ہوتا۔ جو پٹی انہیں پڑھا دی جائے وہ اسے دہراتے رہتے ہیں اس سے ملتی جلتی مخلوق انسانوں میں بھی موجود ہے بلکہ اپنی اس خوبی کی بنا پر دنیا کے کئی ملکوں میں اعلیٰ مسندوں پر فائز ہے چوپایوں میں سے مجھے جرمن شیفرڈ بے حد پسند ہے۔ یہ بہت ذہین تیز و طرار اور بہادر جانور ہے ۔ یہ آپ ہی کا دوست نہیں بلکہ آپ کے دوستوں کا بھی دوست ہے چنانچہ آپ کیلئے آپ کے گھر والوں کیلئے اور آپ کے دوستوںکیلئے یہ ریشم کی طرح نرم ہے اور آپ کے دشمنوں کیلئے اس سے زیادہ خونخوار اور کوئی نہیں۔ یہ گھر میں ہو تو کسی ڈاکو لٹیرے کی مجال نہیں کہ وہ اندر قدم رکھ سکے۔ یہ گھر کا محافظ ہے اور اپنے اس فرض کی ادائیگی میں اپنی جان بھی قربان کر دیتا ہے اسے آپ جتنا پیار دیں گے۔ یہ اس سے کئی گنا زیادہ آپ کو پیار دے گا۔ اس میں سونگھنے کی حس بہت زیادہ ہے۔ کھنکارنہ بھی ہو تو بھی یہ دشمنی کی بو پا کر چوکنا ہو جاتا ہے جس جرمن شیفرڈ میں یہ خوبیاں نہ ہوں سمجھ لیں وہ اصلی نہیں۔ ایک دوست کا کہنا ہے کہ اسے گوشت ابال کر کھلانا چاہیے اگر آپ اسے کچا گوشت کھلائیں گے تو اس میں آہستہ آہستہ درندگی عود کر آئے گی اور یہ گھر والوں کی حفاظت کی بجائے گھر والوں پر حملہ آور ہو جائے گا ۔ میر ےایک دوست نے یہ غلطی کی تھی جسکے نتیجے میں اس نے دو اہل خانہ کو بہت بری طرح کاٹ کھایا چنانچہ اس کو اس کا’’بندوبست‘‘کرنا پڑا کیونکہ اب یہ جرمن شیفرڈ نہیں رہا تھا۔ کچھ اور بن گیا تھا۔ چوپایوں میں جو جانور مجھے سخت ناپسند ہے وہ بیل ہے کتنا قوی الجثہ جانور ہے اس کے کتنے بڑے بڑے سینگ ہوتے ہیں لیکن اس کے اتنے طاقتور ہونے کا کیا فائدہ کہ اسے جنگلی کتے چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔ میرے سابقہ گھر کے سامنے سے ایک دبلا پتلا کالا بھجنگ بھنگی گندگی کے ڈھیر سے لدے گڈ کے آ گے ایک خوفناک سینگوں والا بیل جوتے گلی میں سے گزرا کرتا تھا۔اور مجھے غصہ آتا تھا کہ اتنا طاقت ور جانور سرجھکائے ایک دبلے پتلےبھنگی کے احکامات پر عمل کرنے میں مشغول ہے۔ وہ اگر چاہے تو اس بھنگی کو اپنے سینگوں میں پرو سکتا ہےلیکن ایک دن میں نے اس صورت حال پر غور کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ دراصل اس بیل کو اس کے مستقبل سے مایوس کر دیا گیا ہے۔ اس سے یہ احساس ہی چھین لیا گیا وہ اپنی طاقت میں جنگل کے سینکڑوں جانوروں سے کہیں آ گے ہے۔ اسے غالباً بار بار ایک ناکام بیل ہونے کا طعنہ دیا گیا ہے۔ جسکے نتیجے میں اب ایک بھنگی کے چھانٹے کا اشارہ ہی اس کیلئے حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ معاملہ قوموں کے ساتھ بھی ہو تا ہے ۔ جس قوم کو اس کے مستقبل سے مایوس کر دیا جائے اس کے کروڑوں عوام اپنی بے پناہ طاقت کے باوجود اپنی توانائیوں کو بروئے کارنہیں لا سکتے۔ کہیں پاکستان کے حوالے سے بھی ناکام ریاست کی تکرار اس لیے تو نہیں کی جاتی۔