• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی تاریخ ایسے ادوارسے عبارت ہے جو کچھ طاقتوں کے عروج کے گواہ بنے ، اور پھر انہی طاقتوں کو تحلیل ہوتے بھی دیکھا ۔ تغیر کے سوا کسی چیز کو ثبات نہیں ۔ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک ، ایک واقعے سے دوسرے واقعے تک ، ایک قلمروسے اس کے انجام تک زندگی تبدیلی کی متعدد شکلیں اور رنگ اختیار کرتی ہے ۔ انسان کو درپیش چیلنج اس تبدیلی کی ابدیت کو تسلیم کرنا ، اور پھر اس کے متنوع رنگوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہے ۔ یہ صلاحیت انسانوں میں عام نہیں ، اس لیے وہ اکثر ابہام کی تاریکی میں کھو جاتے ہیں ۔ لیکن اس لزوم کو تسلیم کرنا اس چیلنج کا صرف ایک پہلوہے۔ زیادہ اہم پہلو ایسامنطقہ تخلیق کرنا ہے جہاں آپ کی تزویراتی کاوشوں کی سمائی ہو اور تاریکی کے پردے چاک کرکے روشنی کی گزرگاہ نکل سکے۔

تاریخ میں آزادی کے تحفظ کے لیے حوصلہ دکھانے اور انسانی وقار بحال کرنے کی بھی متعدد مثالیں ہیں ۔ اس کوشش میں  انسان جبر مسلسل کے طویل ادوار سے گزرےجہاں قابض قوتوں نے آزادی کی خواہش دبانے کے لیے اپنے اسلحہ خانے میں موجود ہر حربہ آزما ڈالا۔ یہ جدوجہد ،عزم و استقلال کا روح پرورمظاہرہ ہےجس میں لاتعداد انسان اذیت کی بھٹی سے ہو گزرتے ہیں ، لیکن امڈتے طوفان بھی تبدیلی کی شمع گل نہیں کرسکتے ۔

فوجی اقتدار سے لے کر جمہوریت تک پاکستان اتار چڑھائو کے ہنگامہ خیزتجربات سے گزرا ہے۔ بدقسمتی سے ان سب سے غیر یقینی پن کی دھند ہی گہری ہوئی ہے ، اور آنے والی مسافت مزید تاریکی میں گھرچکی ہے ۔ ہم ایسے مرحلے پر ہیں جہاں ارباب اقتدار ایک ہائبرڈ نظام کی بات کررہے ہیں جو ان کے مطابق ہمارے ہاں مستعمل ہے،اور جسے مستقبل کے ماڈل کے طور پر قبول کرلینا چاہیے ۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کہنے سے پہلے کیا اسٹیک ہولڈروںکے ساتھ کچھ مشاورتی اجلاس ہوئے ہیں یا نہیں کہ یہ وضع کردہ نظام پاکستان کی ضروریات کیلئے زیادہ سازگار ہے، یا یہ محض اندھیرے میں چلایا گیا ایک تیر ہے جس کا مقصد اپنے اقتدار کی مدت میں توسیع کا مزید جواز پیدا کرنا ہے ؟یہ ہائبرڈ نظام کیا ہے جسے حکومت کے زعماہمارے مستقبل کے لیے ایک مثالی نمونہ قرار دے رہےہیں ؟کیا اس کی کوئی منطق یا دلیل ہے جو ہماری سوچ کے عمل پر اثر انداز ہورہی ہے یا یہ محض عمران خان کا خوف ہے جس کے نتیجے میں حکمران اشرافیہ زیادہ گہرے گڑھے کھودنے پر تل گئی ہے؟ کیا وزیر دفاع آگے آ کر اس کی خوبیاں عوام کے گوش گزار کریں گے ؟

کسی قوم کی زندگی کا ہر مرحلہ سیکھنے کا ایک سبق فراہم کرتا ہے۔ چیلنج یہ ہے کہ ہم اس سے کیسے عہدہ برآ ہوتے ہیں: چاہے ہم اس سے فائدہ اٹھائیں، یا ہم اسے اپنے اگلے تجربے کے لیے بطور مواد استعمال کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے ایسے تمام مراحل سے بہت کم سیکھا ہے جن سے ہم گزرے ہیں۔ اس طرح کے ہر دور کے گزرنے کے ساتھ ہم پہلے سے کہیں زیادہ گہری کھائی میں گر چکے ہوتے ہیں۔ ہائبرڈ نظام کا یہ تازہ ترین ورژن بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہوگا جسے حکومت فروغ دینے کی خواہشمند ہے۔

میرے خیال میں اس تجربے کو روکنے کا وقت آگیا ہے جو ہمیں صرف پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ اس طرح کے ہر اقدام کے ساتھ ہم کئی ایک شعبو ں،جیسا کہ سلامتی، معیشت، تعلیم، صحت، ملازمت کے مواقع میں گراوٹ کا سامناکرتے ہیں ۔ ہم ایک معاشی طور پر اسیر ملک بن کر رہ گئے ہیں جو بین الاقوامی قرض دینے والی تنظیموں اور کچھ دوست ممالک کا دست نگر ہے ۔ ہم کشکول پکڑے ان کے پاس جاتے ہیں تووہ کچھ خیرات میں ڈال دیتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سے وقار اور عزت نفس کو بھی نقصان پہنچتا ہے جس کی بازیافت آسان نہیں۔ غلط تاثر کے باوجود اگر ہم اپنی تجرباتی مہم جوئی کو جاری رکھتے ہیں، تو صورت حال دن بدن بدتر ہوتی جائے گی۔ جہاں تک میں دیکھ سکتا ہوں ، مجھے تو کوئی بہتری کی رمق دکھائی نہیں دیتی۔ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے ہیں، کھائی میں گرنے کی رفتار تیز تر ہوتی جاتی ہے ۔

ہر ملک ایک دستور کی کتاب کے مطابق چلایا جاتا ہے جسے آئین اور اس سے نکلنے والے قوانین کہتے ہیں۔ یہ ریاستی اداروں اور لوگوں کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ وضع کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس بات کا امکان ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے لوگوں تک وہ چیز نہیں پہنچا سکیں گے جواس عمرانی معاہدے میں شامل ہے۔ اس کے نتیجے میںبے اطمینانی پیدا ہوگی جو خطرناک رفتار سے چاروں طرف پھیل جائے گی۔ یہ ایک نازک موڑ ہے ۔

کئی دہائیوں سے نہ صرف ریاست اپنے عوام کی طرف ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس کے اداروں کو بھی حکمرانوں نے تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد عدلیہ کو ختم کرنے سے انصاف کی فراہمی پر لوگوں کا جو بھی یقین رہ گیا تھا، اسے ختم کر دیا گیا ہے۔کچھ ججوں کا غلامانہ کردار توہین آمیز ہے۔ عدلیہ کےماضی نے انصاف کی فراہمی اور ریاست کو مستقبل میں آگے بڑھنے کی سمت کا تعین کرنے میں جو قابل اعتراض کردار ادا کیا ہے ، اس کی بابت سنگین سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ اس میں نظریہ ضرورت کے داغ بھی شامل ہیں، لیکن صورت حال اتنی خراب کبھی نہ تھی جتنی اب ہے ۔

اس سے بھی بدتر یہ کہ ریاستی اداروں خصوصاً عدلیہ کو حکومت نے پی ٹی آئی کے خلاف استعمال کیا ہے۔ عمران خان جعلی اور من گھڑت مقدمات کی وجہ سے تقریباً دو سال سے جیل میں ہیں۔ ان کی اہلیہ اور دیگر ہزاروں رہنما اور کارکنان بھی ایسے مقدمات کی وجہ سے جیل میں بند ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں اور وہ ایک بھی سماعت سے زیادہ آزاد عدالت میں باقی نہیں رہ سکتے ۔

میرے پاس مستقبل میں جھانکنے والاکوئی جادوئی پیالہ تو نہیں، لیکن جو کچھ میں دیکھتا ہوں وہ ایک تاریک تصویر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے محدودتصور اور اس سے بھی زیادہ محدود مقاصد کے اسیر ہیں۔ اقتدار کو طول دینے اور حکمرانوں کے ذاتی فائدہ کی حکمت عملی ہر چیز پر مقدم ہے۔ ملک کی کوئی فکر نہیں، اس کے عوام کی کوئی فکر نہیں۔ نہ ہی اس کے مستقبل کا کوئی ذکر ہےجو داخلی استحصالیوں اور بیرونی ساہوکاروں کے نرغے میں ہے ۔

یہ ایک ایسا موسم ہے جو دوسرے موسموں کے درمیان ایک ایسی ریاست کی تقدیر کا تعین کرنے میں اپنی مکمل مرکزیت کے ساتھ موجود ہے جو دو انتہائوں کے درمیان بل کھارہی ہے ، لیکن ایک جمہوری ملک بننے اور عوام کے حقوق کو ہر چیز پرمقدم گرداننے کے بنیادی نقطے پراستقرار پذیر نہیں ہوئی ۔ ضروری ہے کہ اس گڑھے میں گرنے کا یہ عمل روکیں جو ہم نے خود بہت محنت سے کھود رکھا ہے ۔

( صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین