• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

ماں… زبان کے ذریعے دل کے نہاں خانے میں بسیرا کرنے والا پاکیزہ لفظ۔ دنیا میں بہت سے لوگوں نے اپنی ساری اہلیت، قابلیت، صلاحیتیں اور علم کے چراغ روشن کردیئے، مگر ماں کی چاہت، خلوص اور محبّت کی مکمل تعریف بیان کرنا تو درکنار، اس کا ایک باب بھی قلم بند نہ کرسکے۔ مالکِ دوجہاں نے بندوں سے اپنی بے پایاں محبّت کے اظہار کے لیےکوئی مثال دی تو پیمانہ، ماں کی محبّت کو قراد دیا۔

باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ ’’مَیں اپنے بندوں سے70مائوں سے زیادہ محبّت کرتا ہوں۔‘‘ اور پھرمعروف شاعر، عباس تابش نے ماں کی بے مثال محبّت کو اس شعر کے ذریعے گویا کوزے میں سمیٹ دیا؎ایک مدّت سے مِرِی ماں نہیں سوئی تابشؔ.....میں نے اِک بار کہا تھا، مجھےڈر لگتا ہے۔ ماں کی عظمت کے اعتراف میں، درج بالا خیالات کے اظہار کے لیے مجھے بہت تردّد نہیں کرنا پڑا۔ 

حالاں کہ میری زندگی کی عظیم ترین ہستی، میری چاہتوں کی محور ومرکز، مجھے اس دنیا میں لانے، نازو نعم سے میری پرورش کرنے، مجھ ناکارہ کے ناز نخرے اٹھانے، عام انسان سے خاص شخص بنانے، میری بہترین تربیت کرکےاتنا اونچا تعمیر کرنےاور مجھ ناچیز کو ’’آپ، جناب‘‘ سے مخاطب کرنے والی سراپا قدس اور محبّت کی دیوی کا درجہ رکھنے والی اپنی ماں کے بارے میں جب لکھنے کا ارادہ کیا، تو قلم نے لکھنے سے انکار کردیا، ذہن میں آنے والےسارے الفاظ و خیالات منتشر ہوگئے، مگر جب لکھنا شروع کیا، تو نہ جانے کیسے سارے ٹوٹے بکھرے الفاظ آپ ہی آپ یک جا ہوتے چلے گئے۔

میری ماں، مقبول بیگم، بنتِ گُل محمد نے طویل عُمر (92سال) پائی۔ اگرچہ اپنے تین بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے بڑی تھیں، مگر سب سے آخر میں اس دارِفانی سے کُوچ کیا۔ 21دسمبر 2022ء کو اذانِ فجر کے بعد انہوں نے رختِ سفر باندھا اور کلمۂ طیبہ پڑھتے ہوئے اپنے مالک کے حضور پیش ہوگئیں۔ پاکستان ہجرت سے قبل ہی وہ مولانا عبدالحمید خان سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئی تھیں۔ شادی کے دس سال بعد میری ولادت ہوئی، مزید دس سال بعد میرے چھوٹے بھائی، محمد اسحاق خان اور اُس کے پانچ سال بعد میری بہن، حمیدہ پروین، زوجہ سیف الدین سیف پیدا ہوئیں۔ 

حُسنِ اتفاق، اللہ تعالیٰ نے والدین کی طرح مجھے بھی دو فرزند، محمد کنور خان، محمد عفان خان اور ایک بیٹی یمنیٰ خان کی صُورت اولاد کی نعمت و رحمت سے نوازا۔ میری ماں سادگی، ایثار و قربانی کی پیکرتھیں۔ اُن کی ایک درویشانہ صفت یہ بھی تھی کہ تازہ غذا کے بجائے اکثر و بیش تر باسی روٹی اور دال سبزی وغیرہ پسند کرتیں۔ اپنے ربّ کی عبادت انتہائی یک سوئی اور عقیدت سےکرتیں، گویا ربِّ کریم سے بلاواسطہ کسی رابطے کا سلسلہ ہو۔ 

 ضعیف العمری کے باوجود پابندی سےساری نمازیں، بالخصوص نمازِ عشاء کی 17رکعتیں کھڑے ہوکر ادا کرتیں۔ مَیں انھیں بچپن سے جوانی تک ’’امّی‘‘ پکارا کرتا، پھرادھیڑ عُمری کے بعد ’’اماں‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے لگا۔ مَیں جب سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوا، توسوچا بھی نہیں تھا کہ دوبارہ کبھی اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ سکوں گا، اور تب حتیٰ الامکان کوشش کی کہ میری بیماری سے متعلق اُنھیں کچھ پتا نہ چلے، بالآخر اُنھیں خبر ہوگئی اور اُس کے بعد وہ بہت اُداس اور بجھی بجھی سی رہنے لگیں۔

میرے بچپن میں اُن کا میرے سَر میں سرسوں کا تیل ڈال کر کئی منٹ تک ہتھیلیوں سے رگڑ رگڑ کر اُسے سر میںرمانا (جذب کرنا) آنکھوں میں کاجل ڈالنا، کبھی نہیں بھولتا کہ جس کے سبب میری آنکھیں بڑی بڑی اور روشن ہوگئیں اور سر پر بال اب تک سلامت ہیں۔ اپنی دونوں بہوئوں کو اُنھوں نے اپنی بیٹیاں بنا کر رکھا اورساس بننا تو دُور کی بات، اپنے اخلاق اور ملن سار طبیعت کے باعث سہیلیوں سا برتائو کیا۔ گھر کے بڑوں، پوتا، پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کی فرمائش پر شادی بیاہ کے گیت بالخصوص’’سروتا کہاں بھول آئے، پیارے نندویا…‘‘ لہک لہک کر سناتیں، تو محفل کی رونق دوبالا ہوجاتی۔

ہم دونوں بھائی شادی کے بعد جب علیحدہ علیحدہ گھروں میں منتقل ہوئے تو دونوں کی اکثر اس بات پر پیار بھری تکرار رہتی کہ امّاں کس کے گھر زیادہ وقت رہیں گی، چوں کہ میرے چھوٹے بھائی کے بچّے اُس وقت چھوٹے تھے، تو مَیں امّاں کی نظروں کا اشارہ سمجھ کر ہتھیار ڈال دیتا اور اُن سے خود کہہ دیتا کہ آپ اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ زیادہ وقت رہیں۔ دراصل امّاں کے اپنے چھوٹے بیٹے کے گھر زیادہ عرصے رہنے کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اپنی اُس نواسی حمنیٰ سے بہت پیار اور اُنسیت تھی، جسے چھوٹے بھائی محمد اسحاق نے بہن سے گود لے کے حقیقی باپ کا پیار دیا تھا۔ 

بھانجی گود لینے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹی اور ایک بیٹے کی رحمت و نعمت سے بھی نوازا۔ امّاں جب میرے گھر آتیں، تو کبھی کبھی میری فرمائش پر خصوصی دیسی کھانے، بالخصوص بیسن کے بنے چلوے، دکڑے، بیلے، لہسوے اور کیری کا اچار، گاجر اُبال کر پانی میں رائی وغیرہ ڈال کر ’’کانجا‘‘ (کھٹّی گاجریں) بناتی تھیں۔ چولھے پر ہنڈیا چڑھائے بغیر اور بناِ کسی مسالے کے پانی کی بھنڈی کی سادہ، مگر مزے دارڈش تو صرف پانچ منٹ میں تیار کر دیتی تھیں اور اسی سبب اپنے احباب میں اپنے نام کی طرح مقبول تھیں۔ ہمیشہ اپنے شوہر کی اطاعت اور جی جان سے خدمت کی۔ 

میرے والد، مولانا عبدالحمید خان کا انتقال19جولائی 2007ءکو ہوا۔ وہ بھی میری والدہ کی طرح ایک غیر معمولی، دین دار شخصیت کے حامل انسان تھے۔ انہوں نے مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں گل بہار، پیتل والی گلی سے بی ڈی ممبر کا الیکشن بھی لڑا۔ اُن کا شمار فنِ باغ بانی (ہارٹی کلچرلسٹ) کے ماہرین میں ہوتا تھا اور انہوں نے ’’روزنامہ جنگ‘‘ کے بانی، میر خلیل الرحمان مرحوم کی رہائش گاہ پرگارڈن کی تزئین و آرائش کا کام بھی کیا۔ 

مجھے فخر ہے کہ 1978ء میں مجھے اپنے پروفیشنل کیریئر کے آغاز ہی میں ’’ہفت روزہ، اخبارِجہاں‘‘ میں میرخلیل الرحمٰن جیسی شخصیت کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ مَیں اخبارِ جہاں کے نام آنے والے خطوط کے لفافے چاک کرکے اُن کے سامنے رکھتا جاتا تھا اور وہ ہرخط پر ہدایات تحریر کرتے جاتے۔ میرصاحب انتہائی مشفق و مہربان اور اعلیٰ کردار کے حامل انسان تھے، ہمیشہ اپنے مقابل کو سلام کرنے میں پہل کرتے اور ہر ایک سے مسکرا کر ملتے۔

مَیں اللہ تعالیٰ کی کس،کس کرم نوازی اور نعمت کا شُکر ادا کروں کہ اس نے قدم قدم پر مجھے اپنی ہر نعمت اور رحمت سے نوازا، خاص طور پر اس قدر شفقت و محبّت کے پیکر والدین عطا کیے۔ بس ایک ہی خلش بےقرار رکھتی ہے کہ مَیں اُن کی خدمت، چاہت اور احسانوں کا ذرّہ بھر بھی حق ادا نہ کرسکا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا گو ہوں کہ اُنھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور اُن کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)۔ وہ میرا ایک شعر ہے؎ ترس رہا ہوں، کوئی ماں سا مہربان وجود.....دعائے نور پڑھے اور مجھ پر دَم کر دے ۔ (صنوبر خان ثانی،نائب مدیر ومعاون ،ہفت روزہ اخبارِ جہاں،کراچی)