’’تمہیں کیا ہوگیا ہے عبیرہ…؟؟‘‘ ’’مما! مجھے کچھ نہیں ہوا۔ بس، مجھے یہ اچھا لگتا ہے۔ مَیں زیادہ اچھی لگتی ہوں اِس میں۔ زیادہ ڈیسنٹ۔‘‘ ’’مجھے یقین نہیں آرہا۔‘‘ ’’تو یقین کرلیں میری پیاری مما جانی!!‘‘ ’’یہ پاکستان میں تمہاری نانی کا گھر نہیں، یہ لندن ہے۔‘‘ ’’جی مما! آئی نو۔‘‘ ’’اور تمہارے ڈیڈ…؟ تمہیں اُن کا ری ایکشن پتا ہے۔
ہماری ساری سوشل لائف…‘‘ ’’ڈیڈ اور آپ کی اپنی لائف ہے۔ میری اپنی چوائس۔ آئی فِیل مور کمفراٹیبل وتھ اِٹ۔ اور آپ دیکھیں تو میری طرف… کیا مَیں زیادہ پیاری نہیں لگ رہی؟ یہ میری فلسطینی دوست امینہ نے مجھے گفٹ کیا ہے۔ اُس نے مجھے پہننا بھی سکھایا ہے۔‘‘ آئینے کے سامنے کھڑی عبیرہ ہلکے گلابی رنگ کا نرم کپڑا سر پر قرینے سے رکھ رہی تھی۔
وہ بار بار اُسے کھولتی اور دوبارہ سراور کاندھوں پر لپیٹتی۔ ’’امینہ کہتی ہے، اِس میں سارے بال چُھپنے چاہئیں۔ اُس نے مجھے یہ پِن بھی دی ہے، اِسے فِکس کرنے کے لیے۔‘‘ ’’تمہاری تو آج پارٹی تھی۔ تم یہ پہن کرجائوگی…؟؟‘‘ ’’یس مام! ہم ساری فرینڈز اِسی طرح پارٹی میں جائیں گی۔‘‘ ’’پتا نہیں تم کیا کررہی ہو۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں۔ ہمارے گھر کا یہ ماحول کبھی نہیں رہا۔ ہم کبھی بیک ورڈ نہیں رہے۔‘‘ ’’مما! اِسے پہن کر کوئی بیک ورڈ نہیں ہو جاتا۔‘‘ ’’سب تمہارا مذاق اُڑائیں گے۔‘‘ ’’کوئی نہیں اُڑائے گا۔ اور اگر کوئی کچھ کہے گا تو آئی ڈونٹ کیئر۔‘‘
’’تم تو واقعی بہت بدل گئی ہو عبیرہ۔ امینہ نے تمہیں کیا بنا دیا ہے۔‘‘ ’’مما! امینہ ایک بہادر لڑکی ہے۔ اُس نے مجھے بھی بہادر بنا دیا ہے۔ مما! آپ شادی کرکے لندن آئیں، آپ کے خوابوں کی تعبیر مل گئی۔ آپ نے ایک اچھی لائف گزاری۔ ہماری بھی اچھی تربیت کی۔ یو آر اے گُڈ مام… لیکن وقت بدل گیا ہے مما۔ آپ لوگ جن باتوں کو پالیٹکس کہہ کر اُن سے دُور رہنے کو کہتے تھے، وہ آج کی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔ آپ کو پتا ہے، امینہ کا گھر ٹُوٹ چُکا ہے۔
اُس کا محلہ مٹی کا ڈھیر بن گیا ہے۔ اس کے رشتےدار ختم ہوگئے ہیں۔ اُس کے ماں باپ ٹوٹے گھر میں بڑی مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ کئی کئی دن اُن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔ اور… آپ کو پتا ہے مام! وہ روتی نہیں، مُسکراتی ہے۔ وہ گریجویشن کے ساتھ جاب کرتی ہے اور اپنی زمین کے لیے ہرسنڈے جھنڈا لے کریونی ورسٹی کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ سب سے آگے کھڑی ہوتی ہے۔ پتا ہے مام! پچھلے ہفتے اُس کا چھوٹا بھائی مر گیا، بھوک سے۔
مستقل ناکافی غذا نے اُسے ڈھانچا بنا دیا تھا۔ وہ بستر سے لگ گیا تھا۔ مام! وہ اپنے بھائی سے بہت محبّت کرتی تھی۔ اُسے یہاں پڑھنے کے لیے بلانا چاہتی تھی۔ اُس شام وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ بھائی کی موت نے اُسے ہلا کے رکھ دیا ہے۔ ہم ساری فرینڈز اُسے کھانا کھلانے لے گئیں۔ ہم نے اُس سے بہت باتیں کیں۔
اُس کا غم شئیر کیا۔ مگر…اُس نے صرف یہ کہا کہ تم لوگ وعدہ کرو کہ میرے ساتھ کھڑے رہو گے۔ تو ہم نے اُس کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اِس ویک اینڈ پھر پروٹیسٹ ہے۔ پوری یونی کے لڑکے، لڑکیاں جمع ہوں گے۔ ہم سب پلان بنا رہے ہیں، وہاں کس طرح فوڈ بھیجا جائے۔ کس طرح گورنمنٹ کو پریشرائز کیا جائے۔‘‘
’’تم ایسی تو نہیں تھیں عبیرہ۔ تم تو ایک سیدھی سادی پڑھنے لکھنے والی لڑکی تھیں۔ دنیا کی سب سے اچھی یونی ورسٹی کی ٹاپ اسٹوڈنٹس میں سے ایک۔ تم یہ کیا کررہی ہو بیٹا…!!‘‘ ’’مما! مَیں اب بھی ٹاپ اسٹوڈنٹ ہوں۔ امینہ بھی ٹاپ اسٹوڈنٹس میں سے ہے، لیکن زندگی کچھ اور بھی ہے، کیریئر کے علاوہ۔‘‘’’ اوریہ …؟ یہ جو تم نے اب حجاب پہننا شروع کر دیا ہے؟‘‘ ’’مما! اِٹس ناٹ جسٹ اے پیس آف کلاتھ، یہ سمبل ہے، امینہ کی بہادری کا سمبل۔
یہ ہماری آئیڈینٹیٹی ہے۔ آپ کو پتا ہے مما! شروع میں وہ اکیلی تھی۔ ساری کلاس میں اکیلی۔ پھر رفتہ رفتہ بہت ساری لڑکیاں اس جیسی نظر آنے لگیں، سب امینہ بن گئیں۔ بہادر اور کانفیڈینٹ۔ ہم اِس سے محبّت کرتے ہیں۔ یہ ہم سب نے اپنی خوشی سے پہنا ہے۔ یہ ہماری ڈریسنگ کاحصّہ نہیں، یہ ہمارے وجود کا حصّہ ہے۔ اِس میں ہم سب ایک ہوجاتی ہیں، الگ الگ نہیں رہتیں۔ ہم سب امینہ بن جاتی ہیں۔‘‘
’’مجھے سمجھ نہیں آرہا، تم کیسی باتیں کررہی ہو۔ تم اتنی مختلف کیوں بننا چاہتی ہو…؟‘‘’’کچھ مختلف اور نیا نہیں مما۔ یاد ہےمما! جب ہم پاکستان گئے تھے، تو نانی بتاتی تھیں، پہلے آپ سب اِسی طرح حجاب لیتی تھیں اور نانی تو اب بھی لیتی ہیں۔ نانا تو آپ کے مطابق بہت کنزرویٹو تھے۔ آپ بہنوں کو اُنہوں نے بہت سی پابندیوں کے ساتھ یونی ورسٹی بھیجا تھا۔ اورمما آپ بھول گئیں، کبھی آپ اور خالہ بھی باہر جاتے وقت اوپر سے چادر اوڑھتی تھیں۔
نانی نے بتایا تھا، پہلے ہمارے گھر میں بہت سی ریزرویشنز تھیں، بہت الگ ماحول تھا، پھر رفتہ رفتہ سب چینج ہوتے چلے گئے۔ مما! تہذیبی کمپلیکس انسانوں کو کم زور کردیتا ہے۔ باہر کا گیٹ اپ اندرکی دنیا بھی بدل دیتا ہے۔ آپ کو پتا ہے مما! امینہ کہتی ہے، حجاب نے اُسے بہادر بنا دیا ہے۔ مضبوطی سے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا سکھا دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک فلسطینی بہادر عورت کا دوسرا نام ’’حجاب‘‘ ہے۔ یہ حجاب ہی اُس کی پہچان ہے۔
مما! آپ نے دیکھا ہے، اپنے ٹوٹے گھروں کے ملبے پر بھی فلسطینی عورتیں باحجاب بیٹھی نظر آتی ہیں۔ اور مما! یہاں جب ہمیں کوئی ’’حجابی‘‘ کہہ کر تنگ کرتا ہےناں، تو ہم مسکراتی ہیں۔ ہمیں بُرا نہیں، اچھا لگتا ہے۔ ہمارا دل چاہتا ہے، ہم اُس سے کہیں، اِدھرآئو، تم بھی اِسے اپنےسرپر لپیٹ کر دیکھو۔ تمہیں بھی بہت اچھا لگےگا۔ یو ری میمبر مام! بی فور برٹش کولونائزیشن، اِٹ واز پارٹ آف سب کانٹینینٹ کلچر۔ اینڈ یونو، نائو اِٹس سمبل آف ڈی کولونائزیشن۔
مما! وہ جو ہماری کلاس فیلو تھی ناں جین، جس نے پچھلے سال اسلام قبول کیا تھا، وہ بھی حجاب لیتی ہے، حالاں کہ اِٹ واز ناٹ ایزی فار ہَر۔ دنیا بہت بدل گئی ہے مام، دنیا بہت بدل رہی ہے۔ اب ہمیں اعتماد کے ساتھ جینا آگیا ہے۔ ہم سب کمپلیکسز سے نکل آئے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہمیں فلسطین نے سکھایا ہے۔ اِس حجاب نے سکھایا ہے۔ مما! آپ بھی تو کبھی اپنے پسندیدہ شاعر، علاّمہ اقبال کا ایک کلام گنگنایا کرتی تھیں، وہ جو حجاب ہی پر تھا۔ آپ کو یاد ہے…؟‘‘
’’؎ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر… کرتے ہیں خطاب آخر، اُٹھتے ہیں حجاب آخر… احوالِ محبّت میں کچھ فرق نہیں ایسا… سوز و تب و تاب اوّل، سوز و تب و تاب آخر… مَیں تجھ کو بتاتا ہُوں، تقدیرِ اُمَم کیا ہے… شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر…خلوَت کی گھڑی گزری، جلوَت کی گھڑی آئی… چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر… تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا…کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر۔‘‘ مما کی درد میں ڈوبی آواز جیسے ماضی کے کسی گہرے کنویں سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔ ’’یس مام! دیٹ ون… تواِس حجاب نے اب بہت سے حجاب اُٹھا دئیے ہیں۔ بہت سے اسرار کھول دئیے ہیں۔ مائی ڈئیریسٹ مام۔‘‘