بانیٔ پاکستان، قائدِاعظم محمّد علی جناحؒ کی زندگی پُھولوں کی سیج نہ تھی ۔ جو طویل قانونی و سیاسی جدوجہد اُنہوں نے اپنی جوانی میں شروع کی تھی، وہ آخری دَم تک جاری رہی۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے نوزائیدہ وطن کی ترقّی و ترویج کے لیے شبانہ روز محنت نے اُن کی بگڑتی صحت پر نہایت منفی اثرات مرتّب کیے تھے، لیکن معالجین کے مشورے کے باوجود انہوں نے آرام کرنے سے انکار کر دیا اور مُلک کے دونوں حصّوں کے دورے کرتے رہے۔
زندگی کے آخری ایّام میں قائدِاعظمؒ کے ارد گرد موجود رہنے والے افراد کا خیال تھا کہ وہ اب محض اپنی زبردست قوّتِ ارادی کے بل پر زندہ ہیں۔ بانیٔ پاکستان تپِ دق کے مرض میں مبتلا تھے اور ابتدا ہی سے بہت زیادہ تمباکو نوشی کے عادی بھی تھے۔ برِّ عظیم کی جدوجہدِ آزادی کے موضوع پر لکھی گئی مشہور کتاب، ’’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘‘ کے مصنّفین، لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر نے بالکل دُرست لکھا ہے کہ اگر اپریل 1947ء میں ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی ایک کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا، جو بمبئی کے ایک مشہور ڈاکٹر، جے اے ایل پٹیل کے دفاتر کی تجوری میں محفوظ تھا، تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا۔
یہ راز قائدِ اعظمؒ کے پھیپھڑوں کی ایک ایکس رے فلم تھی، جس میں اُن پر ٹیبل ٹینس کی گیند کے مساوی دو دھبّے صاف نظر آ رہے تھے اور ہر دھبّے کے گرد ایک ہالا سا تھا، جس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا تھا کہ تپِ دق کا مرض اُن کے پھیپھڑوں پر کس قدر جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوچُکا ہے۔ معالجین ہمیشہ قائدِ اعظم کو یہ مشورہ دیتے کہ اُن کے مرض کا علاج صرف آرام میں مضمر ہے، مگر وہ اکثر یہ کہہ کر انکار کر دیتے کہ ’’مُجھے ابھی بہت کام کرنا ہے، مَیں وقت ضائع نہیں کرسکتا۔‘‘
یکم جولائی 1948ء کو قائدِ اعظمؒ نے کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے ایک نہایت مؤثر تقریر کی اور جس نے بھی اُن کی یہ تقریر سنی، اُسے واضح طور پر محسوس ہوا کہ بانیٔ پاکستان شدید بیمار ہیں۔ نتیجتاً، معالجین نے انہیں صحت افزاء پہاڑی مقام، زیارت بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ چناں چہ وہ زیارت ریذیڈنسی منتقل ہوگئے۔ قائدِ اعظمؒ کے ملٹری اے ڈی سی، لیفٹیننٹ مظہر احمد کے مطابق، ’’ہمیں امید تھی کہ اب قائدِ اعظم ؒآرام کریں گے، لیکن شاید یہ اُن کی فطرت میں نہ تھا۔ روزانہ اُن کے لیے لان میں ایک میز اور کُرسی لگائی جاتی تھی اور وہ وہاں بیٹھ کر کام کرتے تھے۔
قائدِ اعظمؒ روز اُس سڑک پر چہل قدمی کرتے، جو ریذیڈنسی سے سوئمنگ پُول تک جاتی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے اور دیودار کے درختوں اور جنگلی پھولوں کو دیکھتے۔ سوئمنگ پُول پہنچ کر کچھ دیر آرام کرتے اور پھر واپس آ جاتے۔ مَیں صبح و شام اُن کے ساتھ جاتا۔ اُن کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ مُجھے یاد نہیں کہ مَیں نے کبھی اُنہیں مسکراہٹ کے بغیر دیکھا ہو، حتیٰ کہ بیماری کے بدترین دِنوں میں بھی نہیں… وہ بہت کم زور تھے، لیکن انہوں نے اُمید کا دامن نہ چھوڑا۔‘‘
علاج معالجے کے باوجود قائدِ اعظمؒ کی صحت دن بدن خراب ہوتی جا رہی تھی، لیکن جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے اُن کے ضرورت سے زائد کام کی عادت پر شکایت کی، تو انہوں نے اپنے معالج سے بڑے اعتماد سے کہا کہ ’’مَیں کسی خطرناک مرض میں مبتلا نہیں ہوں۔ مَیں کام زیادہ کرتا ہوں اور فکر مند بھی زیادہ رہتا ہوں، جس کی وجہ سے معدے کی خرابی کی شکایت اور تھکان رہتی ہے اور اگر میرا معدہ ٹھیک ہو جائے، تو مَیں بہت جلد صحت یاب ہو جاؤں گا‘‘۔
قائدِاعظم کی یہ ’’ذاتی تشخیص‘‘ بہ ظاہر خاصی اُمّید افزا تھی، لیکن ڈاکٹر الٰہی بخش اس سے بالکل متّفق نہ تھے۔ اس ضمن میں وہ اپنی کتاب، ’’قائدِ اعظم کے آخری ایّام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’تجربہ کار معالجین کی ٹیم نے مل کر ایک بار پھر قائدِ اعظمؒ کا تفصیلی طبّی معائنہ کیا، جس کا نتیجہ مایوس کُن نکلا۔
اُن کے خون اور لعاب کے نمونوں سے پتا چلا کہ وہ پھیپھڑوں کے انفیکشن میں مبتلا ہیں، جو تقریباً دو سال پُرانا ہے۔ قائد ِاعظمؒ کو یہ منحوس خبر سُنا کر مَیں نے اپنی نگاہیں اُن کے چہرے پر گاڑ دیں، لیکن یہ ڈراؤنی خبر سُن کر بھی اُن کا چہرہ پُرسکون رہا۔ انہوں نے کہا کہ’’ آپ بِلا جھجھک ساری حقیقت مُجھے بتادیجئے۔‘‘
ڈاکٹر الٰہی بخش نے قائد ِاعظمؒ کو تفصیل سے سب کچھ بتا دیا، لیکن اس کے باوجود انہوں نےاپنی تیمارداری کے لیے کوئی نرس رکھنے سے انکار کردیا ،کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ صرف اُن کی ہم شیرہ ہی اُن کی دیکھ بھال کریں۔ 29 جولائی 1948ء کو قائدِ اعظمؒ کی چھاتی کے ایکس رے لیے گئے، جن سے معلوم ہوا کہ اُن کے پھیپھڑوں کی حالت معالجین کے اندازے سے کہیں زیادہ ابتر ہے۔ اُسی دن ایک انگریز نرس، فلس ڈنہم، جو کوئٹہ کے سنڈیمن اسپتال میں نرسنگ سپرنٹنڈنٹ تھیں، سرکاری طور پر قائدِاعظمؒ کی تیمارداری کے لیے مقرّر کی گئیں۔
بعدازاں، قائدِ اعظمؒ کی مخدوش صحت کے پیشِ نظر طویل مشاورت کے بعد معالجین نے متفقہ فیصلہ کیا کہ زیارت کی بلندی ان کی صحت کے لیے موزوں نہیں، لہٰذا اُنہیں کوئٹہ منتقل کر دینا چاہیے۔ بانیٔ پاکستان نے 13اگست 1948ء کو زیارت سے کوئٹہ کے لیے روانگی اختیار کی۔
اس حوالے سے لیفٹیننٹ مظہر احمد بیان کرتے ہیں کہ ’’جب مَیں نے قائداعظم کو اسٹریچر سے اٹھا کر موٹر کار میں لٹایا، تو وہ مجھ سے اتنے قریب تھے کہ ان کا رخسار میرے رخسار کے برابر تھا اور مَیں ان کی سانس کی ہلکی ہلکی آواز سُن سکتا تھا۔ وہ مکمل سُوٹ ٹائی کوٹ پہن کر پورے دو گھنٹے کے سفر کے دوران گاڑی میں پُرسکون بیٹھے رہے اور موٹر کار دھیرے دھیرے چلائی گئی، تاکہ انہیں دھچکے نہ لگیں۔
کوئٹہ پہنچنے کے بعد اُن کی صحت چند روز کے لیے اس قدر سنبھل گئی تھی کہ وہ تھکان محسوس کیے بغیر روزانہ ایک گھنٹہ کام کرنے لگ گئے تھے۔ اُن کا معدہ بھی بہتر کام کر رہا تھا، یہاں تک کہ ایک دن انہوں نے حلوہ پوری تیار کروا کے شوق سے کھائی اور چند دن بعد انہوں نے ڈاکٹرز کی اجازت سے سگریٹ نوشی بھی شروع کر دی۔
ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اگر کوئی عادی سگریٹ نوش بیماری کے دوران سگریٹ طلب کرے، تو یہ اُس کی صحت کی جانب لوٹنے کی علامت ہوتا ہے۔‘‘16اگست کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے اپنے مریض کو یہ خوش خبری سُنائی کہ ان کے پھیپھڑوں کی حالت اب پہلے کی نسبت بہتر ہے۔ علاج معالجے کی بدولت قائدِاعظمؒ چند دن میں اس قابل ہو گئے کہ بستر سے اٹھ کر کمرے میں چند قدم چل سکیں۔ اس دوران انہوں نے انگور اور آڑو کھائے اور کراچی واپس جانے کی خواہش ظاہر کی، لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کی کہ ’’مُجھے وہاں بیساکھیوں کے سہارے نہ چلنا پڑے۔‘‘
5 ستمبر1948ء کی شام قائدِاعظمؒ پر اچانک نمونیے کا حملہ ہوگیا، جس کے بعد وہ شدید بخار میں مبتلا ہو گئے،جس پر اُن کے مقرّبین سخت پریشان اور بے چین تھے، لیکن قائد ِاعظمؒ کو اُس وقت بھی اپنے وطن کے مسائل کی فکر دامن گیر تھی۔ 10ستمبر کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے جی کڑا کر کے محترمہ فاطمہ جناح کو یہ جاں سوز خبر سُنائی کہ ان کے بھائی اب چند دنوں کے مہمان نظرآتے ہیں۔ پھر ڈاکٹر الٰہی بخش نے امریکا میں پاکستان کے سفیر، مرزا ابوالحسن اصفہانی کو پیغام دیا کہ وہ قائدِاعظمؒ کے لیے چند ڈاکٹرز کو بھجوا ئیں۔
اسی دوران ڈاکٹر الٰہی بخش نے کراچی سے قائد ِاعظمؒ کے بمبئی کے دَور کے معالج ، ڈاکٹر محمد علی مستری کو بھی کوئٹہ بلوا لیا ، مگر اس کے باوجود بھی بانیٔ پاکستان کی طبیعت میں کوئی افاقہ نہیں ہوا اور ان کی نقاہت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ چناں چہ دوسرے دن قائدِاعظمؒ کو بذریعہ ہوائی جہاز کراچی لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگلی صبح قائدِ اعظمؒ کا سرکاری ہوائی جہاز،’’وِکرز وائی کنگ‘‘ اُنہیں کراچی لے جانے کے لیے سمنگلی ہوائی پٹّی پر تیار کھڑا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح، نرس فلس ڈنہم اور ڈاکٹرز کی ٹیم اُن کےساتھ تھی۔
اُنہیں پہلے کی طرح اسٹریچر پر ڈال کر ان کے سرکاری ہوائی جہاز تک پہنچایا گیا۔جہاز کے انگریز ہوا باز اور اُس کے عملے نےایک صف میں کھڑے ہوکر گورنر جنرل پاکستان کو سلامی دی۔ قائدِاعظم ؒنے آہستہ سے اپنا ہاتھ اُٹھاکر اُن کے سلام کا جواب دیا۔ سہ پہر سوا چاربجے ہوائی جہا زکراچی کے فوجی ہوائی مستقر، ماری پور پر اُترا۔
یہی وہ تاریخی مقام ہے ،جہاں تیرہ ماہ قبل وطن کی آزادی کے موقعے پر لاکھوں پاکستانی اپنے قائد کا والہانہ استقبال کرنے جمع ہوئے تھے لیکن آج یہاں صرف چند افراد موجود تھے، کیوں کہ قائدِاعظمؒ کی کراچی آمد صیغۂ راز میں رکھی گئی تھی، حتیٰ کہ وزیرِاعظم، نواب زادہ لیاقت علی خان کو بھی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ گورنر جنرل کے استقبال کے لیے ہوائی اڈّے پرنہ آئیں۔
قائد ِاعظمؒ کو ہوائی جہاز سے اسٹریچر کے ذریعے ایک فوجی ایمبولینس میں منتقل کیا گیا۔ پھر فاطمہ جناح اور نرس فلس ڈنہم بھی اس میں سوار ہوگئیں اور ایمبولنس گورنر جنرل ہاؤس، کراچی کی جانب روانہ ہوگئی، لیکن تھوڑی دُور جانے کے بعد ایک گنجان بستی کے سامنے اچانک ایمبولینس خراب ہوکر بند ہوگئی۔ اس حوالے سے فاطمہ جناح نےاپنی کتاب میں لکھا ہے کہ’’ مَیں نے جُھک کر بھائی کو بتایا کہ ایمبولینس خراب ہو گئی ہے، تو اُنہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔
ہم انتظار کرتے رہے۔ ہر لمحہ اذیّت بن گیا۔‘‘قریب ہی مہاجرین کی جھونپڑیاں تھیں، مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ اُن کا محبوب قائد انہی کے بِیچ ایک خراب ایمبولینس میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ پھر دوسری ایمبولینس آئی، تو تیزی سے قائدِاعظمؒ کو اُس میں منتقل کیا گیا اورسفر دوبارہ شروع ہوا۔ ایمبولینس شام چھے بج کر دس منٹ پرگورنر جنرل ہاؤس کے احاطے میں داخل ہوئی۔
ڈاکٹر الٰہی بخش کی سربراہی میں ڈاکٹرز کی ٹیم اور نرس ڈنہم نے انہیں ایک مقویٔ قلب دوا پلانے کی کوشش کی لیکن دوا ان کے حلق میں اُترنے کی بجائے منہ کے دہانے سے بہہ کر باہر آگئی۔ پھر ڈاکٹرز نے اُنہیں جان بچانے کا ٹیکا لگانا چاہا، لیکن اُن کی رگیں بے جان ہوچکی تھیں۔ اس کے تقریباًتیس منٹ بعد قائدِاعظم خوابیدہ حالت میں خاموشی سے ابدی نیند سو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔وفات کے وقت اُن کی عُمر 71برس تھی۔
اس سانحۂ عظیم کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے مُلک میں پھیل گئی اور پوری قوم سوگ میں ڈُوب گئی۔ قائدِ اعظمؒ کی اکلوتی صاحب زادی، دِیناواڈیا ، جو اُس وقت بمبئی میں مقیم تھیں،12ستمبر کی صبح ایک خصوصی طیّارے سے کراچی پہنچیں۔ غُسل دینے کے بعد قائدِ اعظمؒ کے جسدِ خاکی کو قومی پرچم میں لپیٹ کر گورنر جنرل ہاؤس کے برآمدے میں رکھ دیا گیا، جہاں گیارہ بجے سے دو بجے تک لاکھوں مَرد، خواتین اور بچّے اشک بار آنکھوں سے اُن کے جسدِ خاکی کا دیدار کرتے رہے۔
بعد ازاں، محترمہ فاطمہ جناح اور دِینا واڈیا نے اپنے پیارے بھائی اور والد کا آخری دیدار کیا۔ سہ پہر 3بجے وزیرِاعظم پاکستان، نواب زادہ لیاقت علی خان، اُن کے وزراء اور دیگر اہم شخصیات اپنے کاندھوں پر قائدِاعظمؒ کے جسدِ خاکی کو رکھ اُن کی آخری آرام گاہ کی جانب روانہ ہوئے۔ جلوسِ جنازہ نہایت آہستگی سے گورنر جنرل ہاؤس کے صدر دروازے کے باہر کھڑی توپ گاڑی تک پہنچا، جب کہ جنازے کے پیچھے ایک کار میں شدّتِ غم سے نڈھال اور سیاہ لباس میں ملبوس محترمہ فاطمہ جناح اور دِینا واڈیا سوار تھیں۔سربراہِ مملکت کی حیثیت سے قائد ِاعظم ؒ محمد علی جناح کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ عمل میں آئی۔
جوں ہی جسدِ خاکی کوتوپ گاڑی پر رکھا گیا ،تو آس پاس کی سڑک کے کناروں، چھتوں، بالکونیوں اور درختوں پر موجود ہزاروں افراد نے’’قائدِاعظم زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ توپ گاڑی کے دونوںا طراف اعلیٰ فوجی افسران موجود تھے اور اس کے پیچھے وزیرِاعظم، نواب زادہ لیاقت علی خان، سر محمد ظفر اللہ خان، سردار عبدالرّب نشتر، جوگندر ناتھ منڈل، پیرزادہ عبد الستّار، سندھ کے وزیرِاعلیٰ، پیر الٰہی بخش اور سید میراں محمد شاہ موجود تھے، جو سوگ کے عالم میں سر جھکائے آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور جنازے کی رُوداد براہِ راست ریڈیو پاکستان سے نشر کی جارہی تھی۔
بانیٔ پاکستان کے جنازے کے جلوس میں چھے لاکھ سے زائد افراد موجود تھے اور یہ جنازہ جب عوام کے سامنے گزرتا، تو فضا ’’اللہ اکبر‘‘، ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’قائدِ اعظم زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھتی۔ جب قائدِ اعظمؒ کا جسدِ خاکی پرُانی نمائش کے میدان میں پہنچا، تو رائل پاکستان ایئرفورس کے چھے جنگی طیّاروں نے نیچی پروازکرکے اس پر اظہار ِعقیدت کے طورپر پُھول نچھاور کیے اور لہراتے ہوئے آخری سلامی پیش کی۔ اس موقعے پر جا بہ جا رقّت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔
شیخ الاسلام مولانا شبّیر احمد عثمانی نے قائدِ اعظمؒ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور 12ستمبر بہ روز اتوار ، شام تقریبا ًساڑھے چھ بجے پُرانی نمائش کے میدان میں ایک بلند مقام پر بابائے قوم، رہنمائے ملّت، قائدِ اعظمؒ محمّد علی جناح کے جسدِ خاکی کوآہوں اور سسکیوں کے ساتھ سُپردِ خاک کردیا گیا۔ اس موقعے پر دیگر ممالک کے نمائندے بھی موجود تھے اور اُن کے چہروں پربھی حُزن و ملال کے آثارنمایاں تھے۔