• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیرتِ طیبہ کے دیگر پہلوؤں کی مانند، بہ طورِ رفیق بھی حیاتِ مبارکہ ﷺ مشعلِ راہ ہے
سیرتِ طیبہ کے دیگر پہلوؤں کی مانند، بہ طورِ رفیق بھی حیاتِ مبارکہ ﷺ مشعلِ راہ ہے

رابعہ فاطمہ

اللہ تعالیٰ نے دُنیا میں انسان کی وحشتیں دُور کرنے کے لیے جہاں اُسے معاشرے سے جوڑے رکھا، وہیں اُسے نایاب رشتوں سے بھی نوازا ہے۔ ان ہی رشتوں میں سےایک رشتہ، ’’دوستی‘‘ بھی ہے، جو احساسات اور اِخلاص سے مزیّن ہوتا ہے اور دوستی نبھانے کے ہُنر کی عملی تصویر کم و بیش 1500 ہجری سالوں سے رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ کی صُورت ہمارے سامنے ہے۔

شفیق و مہربان: رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس ہمارے لیے بہترین نمونہ اور آپؐ کی زندگی کا ہر گوشہ، ہر پہلو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ ﷺ نہایت نرم خُو اور خوش اخلاق تھے۔ آپﷺ کا تعلق اپنے اصحابؓ کے ساتھ محض معلّم و مربّی کا نہیں، بلکہ بحیثیتِ دوست بھی تھا۔ اللہ کریم نے آپﷺ کے اسی وصف کو قرآنِ پاک میں یوں بیان کیا ہے۔ ”(لوگو) تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے، جو تم ہی میں سے ہے، جس کو تمہاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے، جسے تمہاری بھلائی کی دُھن لگی ہوئی ہے، جو مومنوں کے لیے انتہائی شفیق، نہایت مہربان ہیں۔“ (سورۂ توبہ:128) حضورِ اکرمﷺ صحابہ کرامؓ سے نہایت شفقت و مہربانی سے پیش آتے تھے۔ اس ضمن میں انصاری صحابی حضرت جابربن عبداللہ ؓسے روایت ہے۔ ”رسول اللہﷺ سے کبھی کسی چیز کا سوال نہیں کیا گیا، جس کے جواب میں حضور نے ’’لا‘‘ (نہیں) فرمایا ہو۔“

اندازِ اظہارِ محبّت: رسول اللہ ﷺ وقتاً فوقتاً اپنے اصحاب سے اظہارِ محبّت فرمایا کرتے تھے۔ یاد رہے، یہ انداز دوستی کے رشتے کو مزید گہرا اور مضبوط کرتاہے۔ اس ضمن میں معاذ بن جبلؓ سے منقول ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے معاذ! قسم اللہ کی، مُجھےتم سے محبّت ہے۔‘‘ (نسائی) اِسی طرح سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ خیبر کے موقعے پر آپﷺ نے حضرت علیؓ سے کچھ یوں اظہارِ محبّت کیا کہ ’’کل مَیں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دُوں گا، جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا اور جو اللہ اور اُس کے رسولؐ سے محبّت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسولؐ بھی اُسے عزیز رکھتے ہیں۔ (متفق علیہ)

اچّھے ناموں سے موسوم کرنا: اپنے دوستوں کو اچّھے ناموں سے موسوم کرنا بھی ایک بہترین دوست ہونے کی نشانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے کئی صحابہ کرامؓ کے ناموں کو تبدیل فرما کراُن کو اچّھے ناموں سے موسوم فرمایا۔ مثال کے طور پر اسلام لانے سے قبل حضرت ابوبکر صدیقؓ کا نام ”عبدالعُزّی‘‘ (عُزّی کا بندہ) تھا۔ آپﷺ نے اُن کا نام تبدیل کرکے عبد الرحمٰن رکھ دیا۔ (مستدرک حاکم)جب کہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا نام دَورِ جاہلیت میں ”عبد الکعبہ‘‘ ( کعبے کا بندہ) تھا، تو رسول اللہﷺ نے اُن کا نام ”عبد الرحمٰن“ رکھا۔ (المعجم الکبیر)

چہرے پر مسکراہٹ: ملاقات پہلی ہو یا آخری، ایک منفرد اور دیرپا تاثر چھوڑجاتی ہے۔ صحابۂ کرامؓ نے آپﷺ کو ہمیشہ مُسکراتے ہوئے ہی دیکھا۔ اس ضمن میں حضرت عبدﷲ بن حارث بن جزءؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں نے حضور اکرم ﷺ سے زیادہ مُسکرانے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ ‘‘(ترمذی)

اندازِ مزاح : رسول اللہ ﷺ بعض اوقات صحابۂ کرام سے مزاح بھی فرمایا کرتے تھے، لیکن آپﷺ کا اندازِ مزاح بھی منفرد تھا، جس میں اُمّت کے لیے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ مذاقاً بھی جُھوٹ بولنے کی اجازت نہیں۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’حضور اکرمﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ اچّھے اخلاق والے تھے۔ میرا ایک بھائی تھا، جسے ابُوعُمیر کہا جاتا تھا۔ 

غالباً اُس کا دودھ چُھوٹ چُکا تھا۔ جب وہ حضورِ اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا، تو آپﷺ فرماتے۔ ’’اے ابُوعمیر! نغیر کا کیا بنا؟‘‘ نغیر ایک پرندہ تھا، جس کے ساتھ وہ کھیلا کرتا تھا۔ بعدازاں وہ فوت ہوگیا، تو آپﷺ اُس بچّے کی دل جوئی اور مزاح کے لیے یہ فرماتے۔‘‘ (متفق علیہ)

عفو و درگزر کی صفت: دوستی سمیت کوئی بھی رشتہ عفو و درگزر کے بغیر دیرپا ثابت نہیں ہو سکتا۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے دس سال نبی کریمﷺ کی خدمت میں گزارے، مگر نہ تو کبھی آپﷺ مُجھ سے ناراض ہوئے اور نہ کبھی مُجھے ڈانٹا، بلکہ یہ بھی نہیں فرمایا کہ ’’یہ کام تُونے کیوں کیا؟ یا کیوں نہ کیا؟‘‘

شُکر کی ترغیب: ایک دوست جب دوسرے دوست کا شکریہ ادا کرتا ہے، تو دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے احترام و محبّت کا جذبہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ’’نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’جو لوگوں کا شُکر ادا نہیں کرتا، وہ اللہ تعالیٰ کا شُکر بھی ادا نہیں کرتا۔ (سُننِ ابی داؤد)۔قصّہ مختصر، سیرتِ طیبہ کے دیگر حسین پہلوؤں کی مانند بہ طور رفیق بھی نبیٔ اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔