• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا…

’’محرم الحرام ایڈیشن‘‘ موصول ہوا۔ مقدّس روضۂ انور کی زیارت کرتے آگے بڑھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں صحابیٔ رسولؐ حضرت مصعب بن عمیرؓ کےحالاتِ زندگی اوردینِ اسلام کے لیے خدمات پر مبنی رُوح پرور مضمون کا مطالعہ کیا۔ درحقیقت اِن ہی نفوسِ قدسیہ کی عظیم قربانیوں کےباعث اسلام کو عروج حاصل ہوا، اور ہم تک یہ روشنی آئی۔ 

ہمیں چوں کہ گھر بیٹھے اسلام مل گیا، اِس لیے دِلوں میں اس کی وہ قدرومنزلت نہیں، جو اُن افراد کے دلوں میں تھی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منیر احمد خلیلی، شریفِ مکہ کی عثمانیہ سلطنت سے غداری کی الم ناک داستان بیان کررہے تھے۔ نصرت عباس داسو ’’سانحۂ کربلا‘‘ پرعُمدگی سے قلم طراز تھے، توسید ثقلین نقوی، نام وَر نوحہ خواں، سید محمد رضوی کا ذکرِ خیر لائے۔ 

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ایران، اسرائیل بارہ روزہ جنگ کا ماہرانہ تجزیہ پیش کررہے تھے۔ ٹرمپ کے کردار سے متعلق تو یہی کہا جاسکتا ہے۔ ؎ وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا۔ بہرحال، دنیا نے سکون کا سانس تو لیا کہ تیسری عالمی جنگ ٹل گئی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نےاہلِ کربلا اور سالارِ شہدائے کربلا، حضرت امام حسینؓ کو بہترین انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ 

’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں اسرار گاندھی معاشرے کے ایک بدلتے رجحان کی نشان دہی کررہے تھے۔ بلاشبہ اکیسویں صدی کے ان افسانوں کا انتخاب بڑی محنت و عُمدگی سے کیا جا رہا ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں سید طارق حسنی نے آبنائے ہرمز کی اہمیت و افادیت خُوب اُجاگر کی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں روبینہ یوسف نے صاحب کی ’’ریٹائرمنٹ‘‘ کے بعد پرانی محبوبہ سےملاپ کروا کے ’’سجیلاہائوس‘‘ سجادیا۔ ویسےتو ہم بھی ریٹائرڈ ہیں، مگر ہماری سجیلا ابھی حیات ہیں۔ 

قمر عباس، امام حسینؓ کے لیے عقیدت کے پھول لائے۔ جوہر کی غزل بھی اچھی لگی اور ہمارے صفحے کا اعزاز حافظ عبدالرحمٰن نےحاصل کیا،مبارکاں۔ اگلے شمارے کے سرِورق پر ماڈل کے رنگِ دھنک دیکھ کر صفحہ پلٹا تو ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی میزبانِ رسولؐ حضرت ابوایوب انصاریؓ کے ایمان افروز واقعاتِ زندگی بیان کررہے تھے۔ کیسا جذبۂ شوقِ شہادت تھا کہ 92برس کی عُمر میں کمال بہادری سے جنگ میں حصّہ لیا۔ منیراحمد خلیلی، لبنان کےحالات لائے۔ بیروت کسی زمانے میں ’’ایشیا کا پیرس‘‘ تھا، مگر اب کھنڈرات کا ڈھیر۔

اسرار ایوبی عوام کو شکایت کرنا سکھا رہےتھے۔ مگر عوام کو تو پتا ہی نہیں کہ یہ شکایت حل کرنےوالے ادارے دست یاب کہاں ہیں۔ انجینئر قدر پرواز کتب خانوں سے عوام کی بےگانگی کاروناروتی نظر آئیں۔ سچ ہے، یہ کتابوں کی آخری صدی ہے۔ وحید زہیر نے ڈھولچیوں کی حالتِ زار بیان کی کہ کیسے وہ گداگری پر مجبور ہوگئے۔ 

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا امن کے متلاشی تھے اور اس کے لیےبات چیت پر زور دے رہے تھے، مگر اسرائیل اور بھارت جیسے خون خوار درندے مذاکرات کے قائل ہی کہاں ہیں۔ عمیر محمود بتا رہے تھے کہ پاکستان کی طرح امریکا میں بھی مراعات واختیارات کا ناجائز استعمال ہوتا ہے، وہ کوئی دودھ کے دُھلے نہیں۔

انصارعبدالقہار ’’اشرافیہ بمقابلہ اغرابیہ‘‘ کی نئی اصطلاح اردو لغت میں درج کرنےکی استدعا لائے۔ ہم تو کہتےہیں،اس فرق ہی کو ختم کرکے محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑا کردیں۔ ثانیہ انور ’’امانت‘‘ کے عنوان سےشان دار نگارش لائیں اور ہمارے صفحے پر ہمیں اعزازی چٹھی کی سند دینے کا بہت شکریہ۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: ’’ریٹائرمنٹ‘‘ پڑھ کر تو پتا نہیں، کتنے ہی ’’بابوں‘‘ کی دل کی کلیاں کِھل اُٹھی ہیں۔ شُکر کریں کہ آپ کی ’’سجیلا‘‘ حیات ہیں، تو اب تک چاؤچونچلے بھی دیکھے جارہے ہوں گے، وگرنہ اکثر بگڑے مَردوں کا بڑھاپا خاصا تکلیف دہ ہی ہوتا ہے۔ اور یہ سابقہ محبوباؤں سے ملاپ بھی افسانوں، ڈراموں ہی میں دیکھا جاتا ہے، حقیقت توعموماً تلخ، سفّاک ہی ٹھہری۔

سب سے بڑی غلطی

6 جولائی کا جریدہ، اتوار، عاشورۂ محرم کو ملا۔ سرِورق نواسہ رسولؐ، حضرت امام حسینؓ کے مبارک روضے سے مزیّن تھا اور ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کی مفصّل و جامع تحریر تھی۔ نیز، حضرت عباس علمدارؓ کے روضۂ مبارک اور بی بی زینبؓ اور بی بی سکینہؓ کے روضوں کی زیارت بھی انہی صفحات کی معرفت ہوئی۔ آج کل متن ہائے مضامینِ جریدہ، کئی غلطیاں دیکھی جارہی ہیں، جن کی طرف توجّہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

کئی ایک جگہ لفظ ادھورے، کٹے ہوئے، غلط یا اُلٹے ہوتے ہیں، اور کبھی کبھی سِرے سےغائب بھی۔ حالیہ شمارے میں میرا نام و پتا ہی آدھا اُڑا دیا گیا اور سب سے بڑی غلطی یہ کی گئی کہ میرے خط میں ’’پریاجٹ‘‘ کو ’’پریا بٹ‘‘ لکھ دیا گیا۔ یہ تو بہتر ہوا کہ غلطی اب ہوئی ہے، اگر مولا جٹ کے زمانے میں ہوتی، تو اُس نے جو گنڈاسا مجّوں کے باڑے میں دَب دیا تھا، دوبارہ نکال لینا تھا۔

ویسے جریدے کی سب تحریریں، بہترین تھیں،مگرروبینہ یوسف کی’’ریٹائرمنٹ‘‘ نمبرون ٹھہری، جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔’’نئی کہانی، نیافسانہ‘‘ کی کاوش ’’رہائی‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ ایک اور بات، قاضی جمشید عالم کی تحریر ’’جامن کے فوائد‘‘ ناقابلِ اشاعت قرار دیتے ہوئے، ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شامل کی گئی، لیکن اگلے ہی شمارے میں وہ حارث نسیم سوہدرودی کے نام سے شایع ہوگئی۔ 

یہی معاملہ قبل ازیں، آپ فضائی آلودگی، اسموگ کے عنوان سے ایک مضمون کے ساتھ بھی کر چُکی ہیں۔ کیا یہ زیادتی نہیں؟ شہلاعنایت اللہ کی مختصر تحریر، خضرحیات کا انتخاب اور ڈاکٹر قمرعباس کا سلام، عمدہ نگارشات تھیں۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط بھی شاملِ اشاعت تھا۔ آج کل قرات نقوی ای میلز سے غائب ہیں، خیریت؟ اور کافی عرصے سےدیکھ رہےہیں کہ ’’انٹرویو‘‘ صرف بلوچستان ہی کے لوگوں کے شایع ہوتے ہیں۔ ہوسکے تو چوہدری نثارعلی کا انٹرویو بھی کروالیں۔ (محمد صفدر خان ساغر، نزد مکّی مسجد، محلہ شریف آباد، راہوالی، گوجرانوالہ)

ج:جن چھوٹی غلطیوں کی آپ نے نشان دہی فرمائی،اُن سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ پرنٹنگ اورکٹنگ کے وقت بعض اوقات ایسا ہوجاتا ہے، تو شکایت متعلقہ شعبےکےگوش گزارکردی ہے۔ ہاں، ’’سب سے بڑی غلطی‘‘ جٹ کو بٹ لکھنے کے سزاوار ہم ہی ہیں، اِس پر پھانسی کی سزا ملنی یا کم ازکم گنڈاسا تو چلنا ہی چاہیے۔ 

رہی بات، ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں ناموں کے اندراج اور تحریروں کی اشاعت سے متعلق آپ کےارشادات کی، توکبھی کبھی تھوڑی بہت عقل خُود بھی استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔ ہمیں اکثر اوقات ایک ہی موضوع پر ایک سے زائد تحریریں بھی وصول پاتی ہیں، قابلِ اشاعت شایع کردی جاتی ہیں اور ناقابلِ اشاعت مسترد۔ اب اگر اسموگ اور جامن پر الگ الگ لکھاریوں کی تحریریں ملیں (قابلِ اشاعت بھی اور نا قابلِ اشاعت بھی) تو کیا فہرست میں تحریر کا عنوان بدل دیتے؟؟

خوگرِحمد کا گلہ

کافی عرصے بعد ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اینٹری ہورہی ہے۔ دراصل ڈھائی سال سے اپنی بیگم کے علاج معالجے میں کافی مصروف رہا، مگر پھر بھی ’’سنڈے میگزین‘‘ سے ناتا نہیں توڑا۔ لیکن…ہائے میرا بچّہ کس حال کو جا پہنچا ہے۔ ایک وہ وقت تھا، جب یہ طفل تھا، بےحد خوش حال، سب کرتےتھے اِس کی خوب دیکھ بھال، ہوتا تھا اِس کا والہانہ استقبال، اس کے مندرجات سے ہوتے تھے سب مالامال، مگر اب اِسے دیکھ کر ہوتا ہے رنج و ملال، ستم ظریفی اور امتدادِ زمانہ نےکردیا ہےبدحال اور نڈھال، حالتِ زار دیکھ کر اُٹھتا ہے دل میں اُبال، کبھی سوچا نہ تھا کہ ہوگا، اِس طور استحصال و استیصال، اب دل سنبھال! شروع ہوتا ہے، خوگرِحمد کے گِلے کا استعمال۔ 

تقریباً ڈیڑھ سال قبل مَیں نے’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے لیے اپنی والدہ مرحومہ کی کہانی ارسال کی تھی، جس کی وصول یابی کی ہمایوں ظفر نے تصدیق بھی کی۔ گوکہ قبل ازیں، میری ارسال کردہ پانچ مختلف کہانیاں اشاعت کا جامہ پہن چُکی ہیں۔

مگر اُس کے لیے ہنوز منتظر ہوں۔ علاوہ ازیں، ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کا صفحہ بھی شاید یتیم ہوگیا ہے یا عوام نے بیمار ہونا ہی چھوڑ دیا ہے، عرصۂ دراز سے کوئی تحریرشایع نہیں ہورہی، حالاں کہ میری چھے عدد تحاریر آپ کے پاس موجود ہیں۔ 

پھرچند ’’بکھرے موتی‘‘ بھی ارسال کیے تھے، شاید وہ بھی ابھی تک بکھرے ہوئےہی ہیں۔ نیز، کچھ اورتحاریر بھی پائپ لائن میں ہیں، مگر سابقہ کا انجام تو پتا چلے۔ ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ بھی بغور پڑھتا ہوں، اُس میں بھی نام نہیں ہوتا۔ ہاں’’روشنی کے مینار‘‘ایک معلوماتی سلسلہ ہے۔دیگر ’’حالات و واقعات‘‘ تو سامنے ہی ہیں، اُن پر مزید کیا لکھنا، کُڑھنا اور سردُھننا۔ (ڈاکٹر اطہر رانا، فیصل آباد)

ج: اصل مسئلہ یہ ہے کہ جریدے میں سن رسیدہ افراد کی بہتات ہوگئی ہے اور بزرگ بھی وہ، جو نہ کسی کی سُننا چاہتے ہیں اور نہ ہی کچھ سمجھنا۔ آپ کی ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کی تحریروں سے متعلق ایک سے زائد بار کال کرکے آپ کو بتایا گیا کہ یہ جو آپ بارہ چودہ سطروں کی تحریریں لکھ بھیجتے ہیں اور اُن میں بھی انگریزی الفاظ کی بھرمار(80 فی صد تک) ہوتی ہے، تو اُنہیں مضامین کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی شایع کرنا ممکن ہے۔ آپ کے’’بکھرے موتی‘‘ شایع ہوچُکے ہیں اور والدہ سے متعلق تحریر کا صفحہ انچارج سے دریافت کیا ہے، اگر تو کہیں سے دریافت ہوگئی اور قابلِ اشاعت ٹھہری، تو شامل ہوجائےگی۔ 

ویسے ہمیں یقین ہے کہ اُس کی عدم اشاعت کی وجہ بھی آپ کی یہ ’’پھرّا ٹیکنالوجی‘‘ ہی ہےکہ آپ کاغذ کے نام پر چھوٹے چھوٹے چیتھڑوں پر تحریریں لکھتے ہیں، جو ہاتھوں میں آتے ہی دَم توڑنےلگتےہیں۔ اور پھر آپ کے مضامین سے تو کہیں طویل آپ کے خطوط ہوتے ہیں، جن کے مختصر لکھنے میں ہرگز کوئی حرج نہیں۔

شاہ کار افسانے!!

تازہ سنڈے میگزین میں سب سے پہلے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا مضمون پڑھا، بہت ہی اچھا لگا۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں ’’کباڑیا‘‘ ایک بے مثال تحریر تھی۔ عرفان جاوید کا شکریہ کہ اُن کے توسّط سے شاہ کار افسانے پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ ’’متفرق‘‘ میں عمیر محمود کی تحریر ’’یہ پاکستان نہیں، امریکا ہے‘‘ ایک بہت ہی منفرد انداز کی انتہائی دل چسپ نگارش تھی۔ 

’’ڈائجسٹ‘‘ میں ثانیہ انور کی ’’امانت‘‘ کا جواب نہ تھا اور ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں راجا کی ای میل پڑھنے کو ملی، مگر یہ کیا کہ سال نامے پر تبصرہ جولائی 2025ء میں کررہے ہیں۔ اگلے شمارے کے شروع ہی میں منور مرزا موجود تھے۔ اُن کے تجزیات بےمثال ہوتے ہیں، پڑھ کر معلومات میں سیرحاصل اضافہ ہوا۔’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ بھی لاجواب سلسلہ ہے اور آپ کی شایع کردہ ’’ناقابلِ اشاعت کی فہرست‘‘ بھی پڑھ لی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ عرصے بعد شامل ہوا اور دونوں ہی واقعات بہت پُراثرتھے۔ شُکرہے، سلیم راجا ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں واپس لوٹ آئے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:اتنی خوشی توخُود راجاصاحب کو بھی واپس آنےکی نہیں ہورہی ہوگی، جتنی آپ لوگوں کو ہورہی ہے۔ ای میلز کے لیے ایک ننّھا سا گوشہ ہے، اور برقی خطوط کی تعداد، قلمی خطوط سے بھی متجاوز، تو پھر؎ اِس طرح تو ہوتا ہے، اِس طرح کے کاموں میں…

                    فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سلامِ محبت، نرجس جی! بڑے عرصے بعد تشریف لائی ہوں، خوش آمدید تو بنتا ہے۔ ویسے کوئی نہ بھی کہے، تو ہم کون سا واپس چلے جائیں گے۔ ہاہاہا… ایک بات ہے، ہم خط لکھیں، یا نہ لکھیں، مگر اپنا صفحہ پڑھنا کبھی نہیں چھوڑا۔ ہاں، کافی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بزم میں کبھی کسی نے ہمیں یاد ہی نہیں کیا۔ ایسی لاتعلقی توخون بہا میں دی جانے والی بیٹی کے ساتھ بھی نہیں برتی جاتی۔ خیر، آج آخر کار، میرے عظیم بھائی سعید احمد خان زادہ نے مجھے یاد فرما ہی لیا۔ اور بھائی! آپ بُلائیں اور ہم نہ آئیں، ایسے تو حالات نہیں۔ 

اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے۔ ایسے ہی یاد کرتے رہے، تو پھر آتی جاتی ہی رہوں گی۔ چلیں، اب تبصرہ ہوجائے، میگزین پر، وگرنہ …’’پیارا گھر‘‘ میں روبینہ قریشی فرمارہی تھیں، ’’آج کیا پکے گا؟‘‘ کے بجائے ہفتے بھر کا شیڈول بنائیں۔ ہاہاہا… لگتا ہے، بہنا جی کا جوائنٹ فیملی سسٹم نامی بلا سے کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا۔ یہاں تو سبزی کاٹ لی جاتی ہے اور گھر کے40افراد میں سے ایک رد کردیتا ہےکہ ’’بھئی، یہ نہیں چلےگی، ابھی فلاں دن ہی توکھائی تھی، رہنے دیں۔‘‘

ہاں، خالدہ علی کی چھوٹی سی تحریر بہت پسند آئی کہ مزے داربریانی بنائیں اور مہمانوں کا دل جیتیں۔ اِس سے متعلق ضرورسوچا جاسکتا ہے، مگر مہمان بھی تو کوئی خاص الخاص ہو۔ہاہاہا…(اُمید ہے، نرجس جی سمجھ گئی ہوں گی) ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی تحریرکےتوکیا ہی کہنے۔ 

ایڈیٹر صاحبہ فرما رہی تھیں کہ جھوٹی تعریف پر یقین نہ کریں۔ تو ایک بات بتائیں، یہ جو آپ نے ہمارے پچھلے خط کےجواب میں فرمایا کہ ’’مَیں اِس صفحے کو چھوڑنے کے لیے پر تول ہی رہی تھی، مگر ’’اسماء‘‘ کی واپسی نے قدم روک لیے‘‘، تو کیا سچ کہا تھا یا ہم ایویں ہی خوش ہوتے رہے اور اگرسچ کہا تھا تو مَیں بقلم خُود نہیں، بذاتِ خُود شکریہ ادا کرنے آؤں گی۔ 

پریشان نہ ہوں، مَیں بالکل تنگ نہیں کرتی، بہت اچھی بچّی ہوں، صرف دس کپ چائے پیتی ہوں۔ بس، آپ یہ صفحہ چھوڑ کر ہرگزنہ جائیے گا۔’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں اسرار ایوبی فرمارہےتھے کہ ’’شکایت کرنا سیکھیں…‘‘ہم تو شکایت کرنا سیکھ لیں، لیکن متعلقہ اداروں کو کوئی شکایت سُننا بھی تو سکھائے۔ 

’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا کا وہی بورمضمون، سچ کہوں تو پھلانگ کر بھاگ لیتی ہوں۔ اور ہاں، پچھلے شمارے میں ایک صاحب جو خُردبین لے کر ماڈل کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ کشادہ پیشانی، غزالی آنکھیں، سُچّے گلاب کی پنکھڑیوں سے ہونٹ… توبہ توبہ۔ اُن بچّوں کی خیرمانگنی چاہیے،جن کےایسے بڑے یا بزرگ ہوں۔ ( اسماء خان دمڑ، سنجاوی، بلوچستان)

ج: جوکہا تھا، سچ کہا تھا۔ بالکل اُسی طرح جیسے تم جو کہتی ہو، بہت دل سے اور سچ سچ کہتی ہو۔ اور تمھارے خاص الخاص مہمان کا کس کو نہیں پتا۔ بس، مسئلہ یہ ہے کہ وہ آ کے ہی نہیں دے رہا، تم تو کب سے آنکھیں فرشِ راہ کیے بیٹھی ہو۔

گوشہ برقی خطوط

* میرےخیال میں منیراحمدخلیلی نے ایک انصاف پسند سلطان، عبدالحمید ثانی سے متعلق درست نہیں لکھا۔ میری معلومات کے مطابق صیہونیت کے بانی تھیوڈورہرزل نے سلطان کوایک خط لکھا، جس میں فلسطین یہودیوں کے حوالے کرنے اوراس کے بدلے ایک سو پچاس ملین پاؤنڈز دینے کی آفر کی، لیکن جواباً عبدالحمید ثانی نے لکھا۔ ”مَیں ہرزل کو نصیحت کرتاہوں کہ آئندہ وہ اس حوالے سے سوچے بھی نہیں، اس لیے کہ فلسطین میری ملکیت نہیں۔ 

مَیں فلسطین کی زمین کا ایک بالشت بھی نہیں بیچ سکتا، فلسطین سارے مسلمانوں کی ملکیت ہے، اِس مٹی کی خاطر میرے آباء واجداد عثمانیوں نے سیکڑوں سال جہاد کیا،اِس کی مٹی میں مسلمانوں کاخون شامل ہے۔ 

یہودیوں کو نصیحت ہے کہ اپنے پیسے سنبھال رکھیں۔ اگر خلافت کاشیرازہ بکھرگیا تو فلسطین بغیر قیمت کے لے لیں، لیکن جب تک مَیں زندہ ہوں، اللہ کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ میرےبطن کوکاٹنا آسان ہے، بہ نسبت اس کےکہ دیارِ اسلام سے فلسطین کو کاٹا جائے۔“ (عمرابنِ صبر، کراچی)

ج: منیر احمد خلیلی صاحب معروف مذہی اسکالر، مستند محقّق اور متعدّد کتب کے مصنّف ہیں۔ آپ کی ای میل کے جواب میں اُن کا کہنا ہے کہ ’’تاریخ کوئی جامد شے نہیں ہے۔ محققین تاریخ میں درج باتوں پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھتے اور نئے زاویے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ 

مَیں اپنی تحریر کے مخالف نقطۂ نظر رکھنے والوں کا زیادہ شُکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری تحریر اس قدر توجّہ سے پڑھی۔ سلطان عبدالحمید ثانی کا یہ قول مَیں نےبھی لکھا کہ ’’یہ سرزمین ہم نے خون دے کرفتح کی تھی، مَیں اِس کا ایک انچ بھی کسی کو نہیں دے سکتا۔‘‘ لیکن ہر دو موقف، مستند روایات کا بیان ہماری دینی و اخلاقی ذمّے داری ہےاورمَیں نےیہ ذمّے داری احسن انداز سے پوری کی۔‘‘

* ایک درخواست کرنی تھی کہ قسط وار سلسلے ’’خُود نوشت‘‘ کے اختتام پرعمیرہ احمد یا نمرہ احمد کا کوئی قسط وار ناول شروع کردیں پلیز۔ (اریبہ شہزاد، کراچی)

ج: کسی طبع شدہ ناول کی اشاعت ہماری ادارتی پالیسی کےخلاف امر ہے، جب کہ’’سنڈےمیگزین‘‘ کے لیے نئے ناولز لکھنے میں دونوں خواتین نے کبھی دل چسپی ظاہر نہیں کی۔

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk