السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے…
شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق کے رستے سے گزر کے اگلے صفحے پر پہنچ گئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کے حالاتِ زندگی اور جنگوں میں اُن کی شجاعت و شہادت کے واقعات قلم بند کیے گئے اور بہت ہی خُوب صُورتی اور روانی کے ساتھ۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا، اسرائیل، ایران جنگ کے بعد خطّے میں اُن کے اثرات کا ماہرانہ تجزیہ پیش کررہے تھے۔ ایک قاری نے اُن سے متعلق اظہارِ خیال کیا کہ اُن کے تجزیے جانب دارانہ ہوتے ہیں، پڑھ کے بہت ہی تعجب ہوا۔
ہم نے تو آج تک اُن کی جانب داری ہرگز محسوس نہ کی۔ ہم نے بھی10 سال صحافت کی خارزار وادی میں سفر کیا ہے۔ کم ازکم جانب داری اور غیرجانب داری کی سُوجھ بوجھ تو رکھتے ہی ہیں۔ ثانیہ انور ماہِ جولائی کے اہم ایام کا تذکرہ لائیں۔ ڈاکٹر عبدالستار عباسی روبوٹس کے بڑھتے اثر ورسوخ کے فوائد کے ساتھ نقصانات کی بھی نشان دہی کررہے تھے۔ منیر احمد خلیلی شام کی تاریخ بیان کررہے تھے۔ ہم نے تو ہوش سنبھالنے کے بعد سے شام میں ظلم وستم کی داستانیں ہی سُنی ہیں۔ اسد خاندان نے 50سالہ آمریت کے دور میں تقریباً10لاکھ مسلمانوں کا خون بہایا، عورتیں، بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔
بہرحال، مکافاتِ عمل شروع ہوچُکا ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں مبین مرزا ’’تہذیبی خودکُشی‘‘ کےعنوان سے علم وادب کے فروغ کے اداروں کی ڈاؤن سائزنگ پر نوحہ کُناں تھے۔ واقعتاً علم و ادب کے سوتے خشک ہوگئے، تو جہالت کی درندگی کے سوا کیا بچے گا۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ کا رائٹ اَپ نصیحت آموز تھا کہ خوشی ومسرت کے حصول کے لیے لمبے چوڑےپلان ضروری نہیں ہوتے، چھوٹی چھوٹی مثبت باتوں سے بھی خوشی کشید کی جاسکتی ہے۔
تقسیم کے ضمن میں اصغر ندیم سید کی کہانی ’’بٹوارا‘‘ کے کیا ہی کہنے۔ ذیشان عباس، دھرماراجیکا سے متعلق آگاہی دے رہے تھے، تو ’’پیارا گھر‘‘ میں حکیم سیّد عمران نے پھلوں کےبادشاہ، آم کی قسمیں اورخصوصیات بتائیں۔ہم تو ’’آموں کےگھر‘‘ ہی میں رہتے ہیں۔
نظیرفاطمہ کا افسانہ سبق آموز تھا، تو’’گلِ ناآشنا‘‘ بھی معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے۔ ہمارے صفحے میں محمّد سلیم راجا کی آمد نے دل شاد کردیا۔ ویسے ؎ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔ گوکہ ان کی غیرموجودگی میں ہماری چِٹھیوں کو سال میں سب سے زیادہ اعزازات ملے، مگر صفحہ پھیکا پھیکا ہی محسوس ہوا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
مزاج اور معیار کے عین مطابق
آپ کے مطابق ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ تحریروں کی فہرست پر مبنی کالم قارئین کی اُمنگوں کے عین مطابق ہے اور آپ نے لکھاریوں ہی کے اصرار پر شروع کرکے اپنے پائوں پرخُود کلہاڑی ماری ہے۔ ایک تابع دار ایڈیٹر کا یہی وتیرہ ہوتا ہے۔ یوں بھی دوسروں کے پائوں پر کلہاڑی مارنے سے، ایف آئی آر درج ہوجاتی ہے۔
اس فہرست میں لکھاریوں کے نام مخفّف الفاظ میں درج کرنے کا آئیڈیا میرا تھا اور اِس سے بہتر تجویز بھی دی جاسکتی ہے کہ جو لکھاری اپنا مکمل نام ناقابلِ اشاعت کی لسٹ میں دیکھنا چاہتے ہیں، وہ ضرور اپنے ذوق کی تسکین کریں کہ ممکن ہے، کل کو کوئی یہ فرمائش بھی کرے کہ میرا نام چوں کہ ناقابلِ اشاعت فہرست میں آیا ہے، لہٰذا مجھےمبارک باد دی جائے۔
آپ نے بجا ارشاد فرمایا کہ مَیں کوئی توپ لکھاری نہیں کہ میری کوئی تحریرری جیکٹ نہیں کی جا سکتی، مگر اِس کا کیا کیجیے کہ لاتعداد قلم کار مجھے ایسا ہی خیال کرتے ہیں۔ بچپن سے لے کراب تک میری ہزاروں نگارشات مُلک کے موقر اخبارات ورسائل اور ریڈیو سے نشرواشاعت ہو چُکی ہیں۔ میری تحریروں کو رد کرنے کا اختیار اُسے ہے، جس کی زیادہ نہیں، توکم ازکم میرے مساوی تحریریں نشر و اشاعت ہوچُکی ہوں۔
مَیں نے اپنا افسانہ، واقعہ وغیرہ بمع اُن تحریروں کے، جواب تک ’’سنڈے میگزین‘‘ میں شایع ہوچُکی ہیں، نام وَر لکھاریوں کے سامنے آراء کے لیے پیش کیں، تو انہوں نے موازنے کے بعداُنہیں جریدے کے مزاج اور معیار کے عین مطابق قرار دیا اور اُن کے مسترد کرنے کے فیصلے پرحیرت وتعجب کا اظہار کیا۔
میرے خیال میں تو جمہور کی رائے کو تسلیم کرنا ہی دانش مندی ہے کہ ایک آدھ کا فیصلہ گم راہ و شر انگیز بھی ہوسکتا ہے۔ ایک اور بات، عیدین کے پُرمسرت موقعے پر پیغام بَروں کی طرف سے جو پیغامات ارسال کیے جاتے ہیں، اُن کا سلسلہ عیدین کے بعد تک جاری رہنا درست معلوم نہیں ہوتا۔ (چوہدری قمر جہاں علی پوری، علی پور، مظفر گڑھ)
ج: آپ کی جوتحریریں مسترد کی گئیں، سوفی صد درست کی گئیں۔ ہمارے یہاں کے ’’جمہور‘‘ کی علمیت وقابلیت کا کیا معیار اور پیمانہ ہے، ہم بخوبی جانتے ہیں، لہذا آپ یہ راگ الاپنا بند کریں۔ مُلک کے جن موقر اخبارات وجرائد میں آپ کی ہزاروں نگارشات شایع ہوتی رہی ہیں، آئندہ بھی بصد شوق وہیں شایع کروائیں، ہمیں قطعاً کوئی اعتراض نہیں۔ یوں بھی ہمارے پاس فضول دردِ سری کی قطعاً فرصت نہیں۔ رہی بات، عیدین کے پیغامات کی، تو چوں کہ تمام پیغامات ایک قسط میں شایع نہیں ہوسکتے، تو اُنہیں سلسلے وار ہی شایع کیا جاتا رہے گا۔ تاوقتیکہ تمام تر پیغامات شاملِ اشاعت ہوجائیں۔
لاٹری ہی کُھل گئی
تازہ سنڈے میگزین کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منیراحمد خلیلی کا مضمون بےحد معلوماتی تھا، بہت ہی زیادہ پسند آیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا موجود رہتے ہیں اور ہر بار ہی ایک شان دار تجزیاتی، معلوماتی تحریر پڑھنے کو مل جاتی ہے۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں عرفان جاوید کی ’’رہائی‘‘ بہت اچھی لگی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس کا سلام اور پرنس افضل شاہین کے ’’اَن مول موتی‘‘ اچھے تھے مگر ساتھ ساتھ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں بھی ان کے دو دو خطوط ایک ساتھ شایع کردئیے گئے۔ پرنس کی تو گویا لاٹری ہی کُھل گئی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: آپ جس عمیق نگاہی سے جریدے کا مطالعہ کرتے ہیں، واقعتاً قابلِ صد ستائش ہے کہ اکثر و بیش تر ایسی غلطیوں کی نشان دہی کی جاتی ہے، جو حقیقتاً غلطیاں ہی ہوتی ہیں۔ گرچہ اس بات کا خیال رکھنے کی بہت کوشش کی جاتی ہے کہ دانستہ کسی قاری کی حق تلفی نہ ہو، نہ کسی کی بےجا پذیرائی، مگر بہرکیف، بندۂ بشر ہیں، کوئی نہ کوئی بھول چُوک ہوہی جاتی ہے۔ تو اب سوائے معذرت کے، کیا کرسکتے ہیں۔
شمارے کی کٹنگ پیشِ خدمت
شمارہ ملا، جس میں میرا مختصر خط بھی شاملِ اشاعت تھا۔ مَیں نے اپنے خط میں ’’مدرز ڈے‘‘ کا سندیسہ پنجاب میں شائع نہ ہونے کا ذکر کیا تھا، لیکن جواب میں، آپ نے قصور ہماری نظر ہی کا گردانا، تو مذکورہ شمارے کی کٹنگ پیشِ خدمت ہے۔ ویسے بھی جس شخص کو ماڈل کی انگوٹھیاں نظر آجاتی ہیں، اُس کی نظروں سے سندیسہ کیسے پوشیدہ رہ سکتا تھا۔
خیر، زیرِنظر شمارے میں ماڈل انمول راجپوت چھائی دکھائی دیں۔ اچھی لگیں، اللہ نظرِ بد سے بچائے۔ ثانیہ انور سال کے بارہ مہینوں کے تمام تر اہم عالمی ایام کے حوالے سے جو مفصّل و جامع معلومات قارئین تک پہنچا رہی ہیں، قابل صد تحسین عمل ہے۔ (محمد صفدر خان ساغر، نزد مکی مسجد، محلہ شریف فارم، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج: آپ کی سابقہ شکایت کے بعدجب انکوائری کی گئی تھی، تو متعلقہ افراد نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ایسا ممکن ہی نہیں کہ کراچی سے تیار کردہ صفحات میں مقامی طور پر کوئی تبدیلی کی جائے اور ایڈیٹر سے مشاورت نہ ہو۔‘‘ ہم نے اِس بات کا نہ صرف یقین کیا بلکہ یہی سمجھا کہ شاید اعلان آپ کی نظر سے چُوک گیا۔
اب آپ کے مذکورہ صفحے کا تراشہ بھیجنے کے بعد، جب دوبارہ چھان بین کی تو پتا چلا کہ آپ درست اور متعلقہ اسٹاف غلط تھا۔ اس پر ہم آپ سے تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں ۔ ہاں البتہ آئندہ کے لیے کسی بھی اسٹیشن پر ہونے والی تبدیلی کی اضافی ذمّے داری بھی اب اپنے سر لے لی ہے۔ ویسے ہم نے اپنے پورے پروفیشنل کیرئیر میں یہی دیکھا ہے کہ خواتین جس حُسنِ انتظام اور ذمّےداری سے اپنے فرائض انجام دیتی ہیں، مرد اُس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔
ویسے کا ویسا ہے
’’اسٹائل‘‘ کی تحریر میں اِس بار آپ نے کہیں ’’لڑکیاں بالیاں‘‘ نہیں لکھا، بڑی حیرت ہوئی۔ اور ہم واقعی انتہائی عجیب وغریب انسان ہیں، ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ہم فاترالعقل ہیں اور اکثر اونگیاں بونگیاں ارشاد فرماتے ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ گداگری کو فروغ ملنا چاہیے کہ پیسے کمانے کا یہی ایک آسان طریقہ ہے۔
سرکاری افسر کو زیادہ سے زیادہ رشوت لینی چاہیے، خوب پیسا کمانا چاہیے کہ پیسا ہی انسان کو آرام و سکون دے سکتا ہے اور تمباکو نوشی کی صنعت کو بھی فروغ دینےکی ضرورت ہے تاکہ غریب دکان داروں کےسگریٹ فروخت ہوں۔ باقی آپ کا جریدہ ویسے کا ویسا ہی ہے، جیسا ہمیشہ ہوتا ہے۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: جریدہ ہی نہیں، آپ بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں بلکہ اب تو شاید فاترالعقلی کی آخری اسٹیج پر ہیں۔
کم ازکم 50 اقساط
عرض یہ ہے کہ شمارہ ملا، پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ کیوں کہ اِس میں بالآخر ہمارا نام شامل ہو ہی گیا۔ ’’میری وفات‘‘ کے عنوان سے ایک نئے سلسلے ’’نئی کہانی، نیا فسانہ ‘‘ کے تحت ایک انتہائی شان دار افسانہ شامل اشاعت ہوا۔ محمود میاں نجمی نے ’’روشنی کے مینار‘‘ سلسلے میں بہت ہی معلوماتی مضامین لکھنے شروع کیے ہیں۔ کئی بار پڑھنے کے بعد بھی تحریر دوبارہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے، یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ منور مرزا کے تجزیات بھی عُمدہ ہوتے ہیں۔
مُلکی وعالمی حالات سے خُوب آگاہی ہو جاتی ہے۔ اگلےشمارے میں ’’شاہ محمّد کا تانگا‘‘ بھی ایک بہترین افسانہ تھا، جسے دو اقساط ہی میں ختم کردیا گیا، حالاں کہ اُس کی تو کم از کم 50 اقساط ہونی چاہیے تھیں۔ اختر سعیدی نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو بہترین خراجِ تحسین پیش کیا، جب کہ ایک سابقہ شمارے میں وِنگ کمانڈر محبوب حیدر کی نظم ’’شاہین ہوں خوش رنگ، دل وجانِ چمن ہوں‘‘ بھی بہت ہی اچھی لگی تھی۔ پھلوں کے بادشاہ، آم کے فوائد کا جواب نہ تھا اور شمیم اختر کا ’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ پر مضمون بھی خاصی محنت سے تیار کیا گیا تھا۔ (ملک محمّد نواز تھیہم، سرگودھا)
ج: چشمِ بد دُور، ایک تو آپ کی لکھائی اِس قدر حسین وجمیل ہے، اُس پر باتیں، سونے پہ سہاگا… تو یہ بس کچھ ہمارا دل ہی جانتا ہے کہ خط کو خط کس طور بنایاجاتا ہے۔ محترم! یہ جو افسانے ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ سلسلےکےتحت شایع کیے جا رہے ہیں، یہ اکیسویں صدی کے شاہ کار افسانے ہیں، جو لکھے، پڑھے جا چُکے، قبولیتِ عام کی سند بھی پا چُکے، تو ہم اِن میں کسی قسم کی ترمیم و اضافے کے ہرگز مجاز نہیں۔کہ دو قسطوں کے افسانے کو50 اقساط کا کر ڈالیں۔
فی امان اللہ
جون کے تیسرے اتوار کو ’’فادرزڈے‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ؎ میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے… ’’عالمی یومِ والد‘‘ کی مناسبت سے مصرع پڑھ کے والدہ کی یاد آگئی‘۔ بلاشبہ، اپنے بچّے اور بچّوں کے بچّے انسان کو بوڑھا نہیں ہونے دیتے۔ عطاءالحق قاسمی اور اُن کی فیملی سے ملاقات کرکے دلی خوشی ہوئی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی صحابیٔ رسول، حضرت سلمان فارسیؓ کی زندگی کی داستان لکھ رہے تھے۔
اِن عظیم صحابہؓ کی زندگیاں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ منیر احمد خلیلی ’’غزہ آخری سانسیں لے رہا ہے‘‘ کے عنوان سے ایک فکر انگیز تحریر لائے۔ ’’یورپ سے اسرائیلی مظالم کے خلاف آوازیں بلند ہورہی ہیں، مگر مسلمان حُکم ران اب بھی خاموش ہیں۔‘‘ پڑھ کے جمال الدین افغانی کا جملہ یاد آگیا کہ ’’مسلمانوں نے اِس بات پراتفاق کرلیا ہے کہ اُنہوں نے اتفاق سے نہیں رہنا۔‘‘ ’’پناہ گزینوں کے عالمی دن‘‘ کی مناسبت سے ثانیہ انور ایک اہم، بے حد معلوماتی تحریر کے ساتھ حاضر تھیں۔
’’فادرزڈے‘‘ کی مناسبت سے سیّدہ تحسین عابدی حافظ بلال بشیر، پیرزادہ شریف الحسن اور کلثوم پارس خُوب صُورت تحاریر لائیں۔ جون کا چوتھا شمارہ ملا۔ جامنی رنگ میں ملبوس ماڈل دل کو بھائی۔ منیر احمد خلیلی کی تحریر ’’عرب حُکم ران، غزہ اور اسرائیل‘‘ فکر انگیز تھی، اسرائیل کو اگر کوئی لگام ڈال سکتا ہے، تو وہ عربوں کا اتحاد ہے، مگر جو دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔ ثانیہ انور ایک اور اہم موضوع ’’بیوگی کا کڑا، تلخ و تند سفر‘‘ کے ساتھ حاضر تھیں۔
یہ موضوع بھی ہمارے سماج کا بڑا المیہ ہے۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں اظہر حسین کی ’’فیصلہ‘‘منفرد اسلوب کی حامل کہانی تھی، جو بتا رہی تھی کہ میاں بیوی کی علیحدگی بچّوں پر کس بُری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ نعمان اسحاق کا افسانہ’’صیقل‘‘ بھی پسند آیا، حقیقت یہ ہے کہ اکثر ہم زندگی کے قیمتی ترین لمحات منفی خیالات کی نذر کردیتے ہیں۔
وقت پر کوئی قلعی گر نہ ملے تو پچھتاوے بڑھ جاتے ہیں۔’’نئی کتابیں‘‘ میں کئی نئی، عُمدہ کُتب سے تعارف ہوجاتا ہے۔ اختر سعیدی اور منور راجپوت دونوں یہ کام احسن طور پر کر رہے ہیں۔ ویسے یہ ایک خط میں دو خطوط سمو دینے کی اختراع نئی ہے شاید۔ ورنہ مجھے یاد ہے’’آپ کا صفحہ‘‘ تو اُس وقت بھی ایک ہی صفحے کا ہوتا تھا، جب میگزین معمول کے40،50 صفحات پر محیط ہوتا تھا۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)
ج: بات یہ ہے کہ لوگوں نے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کو حقیقتاً ’’ہائیڈپارک‘‘ ہی سمجھ لیا ہے۔ ذاتی مسئلے مسائل، رام کہانیاں، الف لیلوی داستانیں سب یہیں کہی سُنی جانے لگی ہیں، جب کہ یہ صفحہ صرف جریدے کے مندرجات پر تبصروں کے لیے مختص کیاگیا تھا۔
طولِ شبِ فراق سے خطوط کی کاٹ چھانٹ کر کے، اور دو دو تین عریضوں کو یک جا کر کے شایع کرنے کے باوجود یہ حال ہے کہ جب تک مندرجات پر تبصرہ شایع ہوتا ہے، قارئین کی اکثریت یک سر بھول بھال بھی چُکی ہوتی ہے کہ دراصل بات کس سلسلے، صفحے یا مضمون کی ہورہی ہے۔
* منور راجپوت نے مزاح کے پیراہن میں، معاشرے کی ایک بہت تلخ حقیقت بیان کی، تو دل سے ایک آہ نکلی کہ اللہ جانے، میاں بیوی کے رشتے میں ظالم کون ہےاور مظلوم کون؟ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات پرایک بہت خُوب صُورت سی دلہن خُوب سجی بنی دکھائی دی۔ مَیں کافی عرصے سے، ایک برائیڈل شوٹ کی فرمائش کا سوچ رہی تھی،آپ تو جیسے دل کی باتیں جان لیتی ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’سُکھاں‘‘ ایک منفرد موضوع پر بہت ہی عُمدہ افسانہ تھا۔
اگلا شمارہ سامنے ہے۔ میری بلّی گود میں سو رہی ہے۔ باہر گلی دھندمیں ڈوبی اور گھر میں سناٹے کا راج ہے، کوئی پینٹنگ ہو جیسے۔ ایسے میں شہد، ادرک کی چائے اور ساتھ ’’سنڈے میگزین‘‘ واہ واہ۔ منیراحمد کی زبانی یہودی تخریب کی کہانی پڑھی۔
ذوالفقار چیمہ کی سرگزشت میں نصیرے ڈاکو کا احوال بہت دل چسپ تھا۔ ویسے ایک بات سمجھ نہیں آتی، اُن کو اپنے حالاتِ زندگی اس قدرجزئیات کے ساتھ کیسے یاد رہے؟ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات سے تو آپ نے ایک بار پھر دل لُوٹ لیا۔ بابو سرٹاپ کی سیرکا خُوب لطف اٹھایا۔ ڈاکٹرحمزہ سنڈے میگزین کا ترجمہ ’’سورج نامہ‘‘ کر رہے ہیں، جب کہ ترجمہ ’’سورج دن جریدہ‘‘ ہونا چاہیے۔ خادم ملک کا خط پڑھ کے یقین نہیں آیاکہ اُن ہی کا ہے، بہت مختلف انداز تھا۔
تیسراشمارہ گہرا نارنجی، پیلا اور مہاگنی رنگ اوڑھے درختوں کے نیچے، سنہری دھوپ میں بیٹھ کرپڑھا۔ چیمہ صاحب کی کٹھن مگر انتہائی سبق آموز داستانِ حیات پڑھنا بہت پُرلطف عمل ٹھہرا۔’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ یک سرمنفرد تھا۔ 1901ء تاموجودہ نسل تک کےناموں سےمتعلق جاننا بہت اچھا لگا۔
خود کو Generation Millennial (جی x) کے خانے میں رکھا۔ ڈاکٹر فیاض زیتون سے متعلق مفید معلومات لیے آئے۔ ویسے یہاں تو ہم لوگ پابندی سے زیتون استعمال کرتے ہیں۔ چوتھا شمارہ گرما گرم چائے کے ساتھ پڑھا۔
’’اسٹائل‘‘ میں آپ کے شاعرانہ انتخاب نے ہمیشہ کی طرح دل جیت لیا، خاص طور پر نظم کے آخری مصرعے دل چھوگئے۔ ’’پیاراگھر‘‘ کے چٹ پٹے پکوان بہت پسند آئے۔ مَیں بھی بنانے کی کوشش کروں گی۔ بٹ کڑھائی کی ترکیب دیکھی، تو یاد آیا کہ یہاں آ کے تو کبھی کھائی ہی نہیں۔ میری ای میلز متواتر شایع کرنے کا بہت شکریہ۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)
ج: اتنے تواتر کے باوجود دسمبر کی میلز اگست میں شایع ہو رہی ہیں۔ ہم بھی کیا کریں کہ ایک تو شمارہ منحنی، اور گوشۂ برقی خطوط تو منحنی کا بھی ساشے پیک۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk