مومنہ بنتِ محمّد حنیف
ہر سال پانچ اکتوبر کو ’’اساتذہ کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس روز معلّمین کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے لیے دُنیا بَھر میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یوں تو ہر دن ہی اِن قابلِ احترام شخصیات کے لیے مختص ہونا چاہیے کہ جن کی کاوشوں کی بدولت ہم پڑھ لکھ کر اس دُنیا میں اپنا نام و مقام بنانے میں کام یاب ہوتے ہیں، مگر 5 اکتوبر کو خاص طور پر یہ دن منانے کا مقصد معاشرے میں اساتذہ کے اہم کردار کو اُجاگرکرنا ہے۔ پھر اس دن کی مناسبت سے دُنیا بَھر میں سیمینارز، کانفرنسز اور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
حصولِ علم کی اہمیت کے ضمن میں اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر، حضرت محمدﷺ پر حضرت جبرائیلؑ کے ذریعے جو پہلی وحی نازل فرمائی، وہ علم ہی سے متعلق تھی، جب کہ استاد کی اہمیت کا اندازہ رحمتِ دو عالم ﷺ کے اس فرمانِ مبارک سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ’’مُجھے معلّم بناکر بھیجا گیا۔‘‘ یاد رہے، آپﷺ کی زبانِ اطہر سے نکلنے والا یہ جملہ رہتی دُنیا تک استاد کی عزّت و حُرمت کی سند رہے گا۔ اسی طرح تعلیماتِ اسلامیہ کی رُو سے استاد کا مقام و مرتبہ بہت اعلیٰ و ارفع ہے اور اس کے فرائضِ منصبی کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔
بلاشبہ، آج دُنیا کے ہرکام یاب فرد کے پسِ پُشت ایک استاد کی محنت ہی کارفرما ہے۔ ایک محقّق کے بقول، ’’بےشک استاد بادشاہ نہیں ہوتا، مگر وہ اپنی محنت اور گُر سے شاگردوں کو بادشاہ ضرور بنا دیتا ہے۔‘‘ استاد ایک ایسا چراغ ہے، جو تاریک راہوں میں روشنی کا وجود برقرار رکھتا ہے۔
تعمیرِ انسانیت اور علمی ارتقاء میں اساتذہ کے کردار سے مفر ممکن نہیں اور آئندہ نسلوں کی تعمیروترقّی، معاشرے کی فلاح و بہود، جذبۂ انسانیت کی نشوونما اور افراد کی تربیت سازی کی وجہ ہی سے معلّمین کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک استاد ہمیشہ اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے، جیسے ایک باغ بان اپنے باغ کی نگہداشت میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔
شاگرد ہونے کی حیثیت سے ایک فرد پر اپنے اساتذہ کے کئی حقوق کی ادائی لازم ہے۔ استاد کا پہلا حق یہ ہے کہ اُس کے شاگرد اُس کا ادب و احترام کریں۔ اُس کے ساتھ عزّت اور عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔ اپنے اتالیق کا کہنا مانیں اور اس کی دی گئی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔ علاوہ ازیں، شاگردوں پر استاد کا یہ حق بھی ہے کہ وہ نہ تو اُس کے آگے بیٹھیں اور نہ اُس سے آگے چلیں۔ نیز، ضرورت پیش آنے پر فوراً اُس کی خدمت کے لیے حاضر ہوجائیں۔
یاد رہے، استاد روحانی باپ ہوتا ہے اور اُس کا حق اپنے شاگردوں پر اُتنا ہی ہے، جتنا ایک باپ کا اولاد پر۔ والدین اگر انسان کے دُنیا میں آنے کا ذریعہ بنتے ہیں، تواستاد اُسے ایک اچّھی اور باعزّت زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ اُسے علم کے زیور سے آراستہ کرکے اُس کی اخلاقی تربیت کرتا ہے۔ اُس کی شخصیت وکردار سازی میں بھرپور کردار ادا کرتا ہے، یعنی پتّھر کو تراش کر ہیرا بناتا ہے، تاکہ وہ معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرسکے۔
شاگرد پرلازم ہے کہ وہ اپنے استاد کا احترام کرے اور اُس کی ادنیٰ سی بےادبی سے بھی خود کو بچائے۔ چناں چہ، روحانی ماں باپ کی تکریم وتعظیم کیجیے۔ اساتذہ سے تحکّمانہ اسلوبِ گفتار سے پرہیز کریں، اُن کے سامنے ادب اور شائستگی سے بیٹھیں اور ان کی موجودگی میں اپنی آواز بلند نہ کریں۔
انسانی تاریخ ایسی قابلِ قدرشخصیات سے بھَری پڑی ہے کہ جنہوں نے اپنے اساتذہ کے ادب و احترام کی درخشندہ مثالیں قائم کیں، جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے حضرت علیؓ کےاُس قول کی یاد دہانی ضروری ہے، جس پر تمام طلبہ کو عمل کرنا چاہیے۔ بابِ علم، حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ’’جس نے مُجھے ایک حرف بھی سکھایا، مَیں اُس کا غلام ہوں۔ وہ چاہے مُجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔‘‘
٭… علمِ فقہ کے سب سے بڑے امام، امام ابوحنیفہؒ اور آپ کے استاد، امام حماد بن سلیمان کے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ تھا، لیکن آپ کبھی اُن کےگھرکی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے اور دورانِ درس اپنے استاد کے بیٹے کے احترام میں کھڑے ہوجایا کرتے تھے، جب کہ امام حماد کی ہم شِیرہ، عاتکہ کہتی تھیں کہ ’’حضرت امام ابو حنیفہؒ ہمارے گھر کی روئی دُھنتے، دودھ اورترکاری خرید کرلاتے اور بہت سے کام کرتے تھے۔‘‘
٭… اِسی طرح اگرکسی کو استاد کا مقام و مرتبہ جاننا ہو، تو وہ امام مالکؒ کے اس عمل کو پیشِ نظر رکھے کہ جب آپ درسِ حدیث کے دوران بار بار ایک بچّے کی آمد پر کھڑے ہوتے اور بیٹھتے۔ شاگردوں کے استفسار پر معلوم ہوا کہ دورانِ درس جس بچّے کے احترام میں آپ کھڑے ہوجاتے تھے کہ وہ آپ کے استاد کے فرزند تھے۔ ؎ آتا نہیں ہے کوئی فن، اُستاد کے بغیر۔
بادشاہ ہوں یا سلطنتوں کے شہنشاہ، خلیفہ ہوں یا ولی اللہ، سبھی اپنے اساتذہ کے سامنے ادب و احترام کے تمام تقاضے پورے کرتے نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں، عصر حاضر کی ترقّی یافتہ اقوام اور مہذّب معاشروں میں بھی استاد کو ایک خاص مقام اورنمایاں حیثیت حاصل ہے، کیوں کہ مہذّب اور باشعور معاشرے کی تشکیل ایک استاد ہی کے مرہونِ منت ہے۔
اس ضمن میں اشفاق احمد مرحوم ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ ’’اٹلی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مُجھ پہ جرمانہ عائد کیا گیا۔ مَیں مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کرواسکا، تو مُجھے کورٹ میں پیش ہونا پڑا۔ کمرۂ عدالت میں جج نے مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ نے کیوں چالان جمع نہیں کروایا، تو مَیں نے بتایا کہ مَیں ایک پروفیسر ہوں اور اکثر مصروف رہتا ہوں، تو اس لیے چالان جمع نہیں کرواسکا۔‘‘، تو جج نے کہا کہ ’’The Teacher is in the court‘‘ اور پھر جج سمیت سارے لوگ احترماً کھڑے ہوگئے۔ اُسی دن میں اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا۔‘‘
یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب ایک طالبِ علم اپنے استاد کا حد درجہ احترام کرے گا، تو تب ہی اُسے علم کی بیش قیمت دولت نصیب ہو گی۔ مشہور کہاوت ہے کہ ’’با ادب، بانصیب، بے ادب، بےنصیب۔‘‘ اساتذہ کی بےادبی اور نافرمانی کرنے والا کبھی بھی دُنیا میں اعلیٰ مقام حاصل نہیں کرپاتا، جب کہ باادب شاگرد کبھی بےمُراد نہیں رہتا۔ نیز، باادب طلبہ ہمیشہ اساتذہ کی دُعاؤں میں بھی رہتے ہیں اور پھر زندگی کے ہر امتحان میں سُرخ رُو ہوتے ہیں۔