• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نبی کریمﷺ کی شان و مرتبے کی تعریف و توصیف کا بے مثال، لاجواب انداز اپنایا
نبی کریمﷺ کی شان و مرتبے کی تعریف و توصیف کا بے مثال، لاجواب انداز اپنایا

’’لَوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وُجُود الکتاب…گنُبدِ آبگینہ رنگ تیرے مُحیط میں حباب۔‘‘ یہ علّامہ محمّد اقبال کا ایک معروف شعر ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ’’اے نبیؐ آپؐ کا وجود لوح بھی ہے اور قلم بھی۔ الغرض، آپؐ کا وجود سراپا الکتاب، یعنی قرآنِ پاک ہے۔ آپؐ کی ذات اتنا بڑا وسیع و عریض سمندر ہے کہ جس کی سطح پر کانچ جیسا یہ آسمان، ایک بلبلے کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ 

اِس شعر میں علّامہ صاحب نے نبی کریمﷺ کے شان و مرتبے کی تعریف و توصیف کا جو انداز اپنایا، وہ بے مثال اور لا جواب ہے۔ اِس میں شاعری کا فنِ مہارت و کمال اور عشقِ رسولؐ کی گہرائی و وسعت یک جا کر کے دو مصرعوں میں سمو دینا عشقِ حقیقی کی گہرائی اور خونِ دل وجگر کی محنت کے بغیر ممکن نہیں۔ گو کہ یہ ایک مشکل شعر ہے، لیکن آئیے، اس کی تفہیم کو حد درجہ آسان بنا کر مرحلہ بہ مرحلہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اِس شعر کے پہلے مصرعے کے تین حصّے ہیں یعنی’’ لوح بھی تُو‘‘، ’’قلم بھی تُو‘‘ اور’’تیرا وجود الکتاب۔‘‘ ہم اِس آخری حصّے، تیرا وجود الکتاب کو پہلے سمجھیں گے، کیوں کہ اِس ضمن میں دو حوالے ایسے ہیں کہ جنہیں یہاں سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ ایک تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی وہ جامع قول ہے کہ جب نبیؐ کے وصال کے بعد کچھ نو مسلموں نے اُن سے پوچھا کہ ہمیں حضورﷺ کے روزمرّہ کے معمولات سے متعلق کچھ بتائیں، تو امّی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ’’کیا تم قرآن نہیں پڑھتے۔‘‘ 

گویا کہ اِس مصرعے کا آخری حصّہ،’’ تیرا وجود الکتاب‘‘، امّی عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس قول کی تعبیر ہے کہ’’ کان خُلقُہ القرآن۔‘‘ یعنی آپؐ کا وجود قرآنِ حکیم کا علمی، تشریحی اور عملی نمونہ ہے۔ وُجُود کے معانی ہیں، مطلوب کا پانا اور حصولِ مقاصد۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی ذات میں اپنی کتاب کا مطلوب انسان، آدمؑ کی اولاد کو عطا فرمایا۔ 

نیز، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک شعر کا ترجمہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ’’آپؐ ہی وہ الکتاب المبین ہیں، جس کے ایک ایک حرف سے اسرارِ الٰہی منکشف ہوتے ہیں۔‘‘ گویا کہ اِس شعر کے مطابق قرآنِ حکیم آپؐ کی ذاتِ مبارکہ کی عملی تصویر ہے، جسے اللہ تعالی عزوجل نے اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ 

اِن دو عظیم ہستیوں کے اقوال کے پیشِ نظر اِس شعر کی تعبیر میں بہت سہولت ہو گئی ہے، کیوں کہ یہ ایک حسّاس معاملہ ہے۔ آپؐ کی پوری زندگی قرآنِ پاک کی چلتی پِھرتی تعبیر کا منہ بولتا ثبوت ہے، یعنی قرآن کو سمجھنا مطلوب ہو، تو آپؐ کی سیرتِ مبارکہؐ اور تعلیمات سمجھنی ہوں گی۔ قرآنِ پاک پر عمل کرنا مقصود ہو، تو آپؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنا ہوگا۔

آئیے، اب پورا شعر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔جیسا کہ الفاظ سے ظاہر ہے کہ لوح کا تعلق علم سے ہے، قلم کا رشتہ بھی علم ہی سے ہے اور الکتاب کا ناتا بھی اِسی سے ہے۔ آپؐ کا سراپا عشقِ حقیقی کا سرچشمہ اور علم کا شہر، یعنی مدینۃُ العلم ہے اور یہ کہ اِس روحانی علم کا تعلق اُس نور سے ہے، جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں اپنی معرفت عام کرنے کے لیے بالخصوص تشکیل دیا۔ اِس لیے آگے بڑھنے سے پہلے ہم علم سے متعلق چند بنیادی باتیں سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت’’ الاعلم‘‘ ہے اور’’ العلیم‘‘ اس کا صفاتی نام ہے۔ 

جیسا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعلق جانتے ہیں کہ اس کی ہر صِفَت ذاتی ہے، ازخود اس کی اپنی ذات سے ہے۔ کسی کی دی ہوئی نہیں ہے۔ اور یہ کہ اس کی ہر ایک صفت قدیم اور وقت سے ماورا ہے۔ وہ ازل اور ماضی سے پہلے اور ابد اور مستقبل کے بعد بھی ان صفات کا مالک تھا، ہے اور رہے گا۔ مزید یہ کہ اس کی تمام صفات لامحدود ہیں اور ہر قسم کی حدود و قیود کے دائروں سے بالاتر ہیں۔ اس کے برعکس، کسی بھی غیر اللہ کا علم ذاتی نہیں ہے، بلکہ عطائی ہے۔

یعنی کسی بھی مخلوق نے اپنی ذات سے از خود کوئی علم حاصل نہیں کیا، جب کہ جس کسی کے پاس جو بھی عِلم ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ غیر اللہ کا تمام علم حادث ہے، ازلی اور ابدی نہیں ہے۔ یعنی اللہ نے ایک خاص وقت پر عطا کیا ہے۔ نیز، تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں محدود ہے، لامحدود نہیں۔قصّہ مختصر، غیر اللہ کا علم عطائی، حادث اور محدود ہے۔

یہ وہ عقیدہ ہے، جو تمام مکاتبِ فکر اور اُمّتِ مسلمہ کے سب فرقوں میں متفّقہ طور پر رائج ہے۔ گویا کہ مخلوق کو جو بھی علم ملا، وہ اُن کا ذاتی علم نہیں ہے، بلکہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اور یہ کہ مخلوق کا علم ہمیشہ سے نہیں، ازلی نہیں ہے، بلکہ اس کا نکتۂ آغاز وہ ہے، جب اللہ نے اُسے عطا کیا تھا اور یہ کہ اللہ کے ابدی علم کے برعکس، یہ علم ہمیشہ کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کا ایک انجام یا اختتام بھی ہے، جب تک اللہ چاہے گا، یہ رہے گا اور جس لمحے اللہ چاہے، اسے ختم کر سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اللہ کے لا محدود علم کے مقابلے میں یہ علم جس قدر بھی ہو، محدود ہی ہے۔اور یہ کہ جس جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے جتنا چاہا، علم عطا کیا، کسی کو کم، کسی کو زیادہ۔

اقسامُ العلم: علم کی دو اَقسام ہیں۔ علم الادیان اور علم الابدان۔ علم الادیان، آسمانی علم کو کہا جاتا ہے اور یہ علم، اللہ تعالیٰ اپنے چنیدہ بندوں کو، حضرت جبرائیلؑ کے ذریعے وحی کی صُورت میں عطا کرتا رہا اور انبیائے کرامؑ یا رسلؑ نے اپنے اپنے ادوار میں مخاطبین کی ذہنی سطح کے مطابق، اِس علم کو لوگوں میں عام کیا۔ دوسرا علم، علم الابدان، یعنی اِس کائنات میں موجود اشیاء کا وہ علم ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ آدم کے وقت یک بارگی حضرت آدمؑ کو ودیعت کر دیا تھا۔

حضرت آدمؑ کا فرشتوں سے علمی مقابلہ:سورۃ البقرہ کا چوتھا رکوع اِس اعتبار سے منفرد شان کا حامل ہے کہ اس کے آغاز میں حضرت آدمؑ کو خلافت دینے کے ساتھ ہی مکمل دنیاوی علم دینے کا نہ صرف ذکر ہے، بلکہ انہیں دیئے گئے علم کا فرشتوں سے مقابلہ بھی شامل ہے، جس میں حضرت آدمؑ کی فرشتوں پر علمی برتری نے اُن کے ذہنوں میں موجود ہر طرح کے شکوک و شبہات کا خاتمہ کر دیا۔ 

حضرت آدمؑ کو دیئے گئے دنیاوی اور مادی علم کے بارے میں ارشادِ ربّانی ہے: ترجمہ: ’’اور اللہ نے آدمؑ کو سب چیزوں کے نام سِکھائے، پھر اُن چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔ پس فرمایا’’ مجھے ان کے نام بتاؤ، اگر تم سچّے ہو۔‘‘ اُنہوں نے کہا ’’ تُو پاک ہے، ہم تو اِتنا ہی جانتے ہیں، جتنا تُو نے ہمیں بتایا ہے، بے شک، تُو بڑے علم والا، حکمت والا ہے۔‘‘ اور اِسی رکوع کے اختتام میں روحانی علمِ ہدایت کی گاہے بگاہے تنزیل سے متعلق فرمایا۔ ترجمہ:’’ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے نیچے زمین پر اُتر جاؤ، پھر جب جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت وحی آئے گی، تو جو بھی لوگ میری ہدایت پر چلیں گے، اُن پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غم گین ہوں گے۔‘‘

عروجِ آدمِ خاکی: معلوم یہ ہوا کہ حضرت آدمؑ کو خلافتِ ارضی دینے کے اعلان کے ساتھ ہی کُل کے کُل دنیاوی علوم ایک بیج کی صُورت، جنّت ہی میں حضرت آدمؑ کے ذہن میں منتقل کر دئے گئے، جس سے اس علم کو آہستہ آہستہ ترقّی کر کے ایک تناور درخت کی صُورت پروان چڑھنا تھا۔ جب کہ علمِ وحی کے نزول کا آغاز بعد میں حضرت آدمؑ کو زمین پر خلیفہ کی حیثیت سے متمکّن کرنے کے بعد شروع کیا گیا۔ 

اِس طرح رفتہ رفتہ انسان اپنی عقل کے بل بوتے پر اور حسی تجربات کی بنیاد پر وقت کے ساتھ، علم دنیا کا حصول کرتا رہا اور اس میں ترقّی و اضافے سے کائنات کے سربستہ رازوں سے پردے اُٹھاتا رہا، جب کہ ساتھ ہی مبعوث ہونے والے انبیائے کرامؑ کو ان کی قوم کی دنیاوی علوم کی ذہنی سطح کے مطابق علمِ وحی ملتا رہا۔ 

یوں علم دنیا میں ترقّی اور علمِ وحی میں تفصیل کے ساتھ، انسانی تمدّن کی گاڑی ایک ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بندوبست کیا کہ انسان جتنی دنیاوی ترقّی کرتا جائے، اُس کے مساوی علمِ وحی میں بھی اضافہ ہوتا رہے۔ جب انسان فلسفہ اور منطق کے اعتبار سے عقلی علوم کی انتہا کے قریب تر پہنچ گیا، تو اِسی دوران علمِ وحی کی تکمیل حضرت محمّد مصطفیٰؐ پر نزولِ قرآن کی صُورت ہوئی، جس کی حفاظت کا ذمّہ اللہ تعالیٰ نے خود لے لیا اور نبوّت کا سلسلہ مکمل کر کے اس پر ختمِ نبوّت کی مُہر لگا دی۔ 

یہاں حضرت محمّدﷺ کو علم دیتے وقت بھی وہی ترتیب ہے، جو حضرت آدمؑ کو علم دیتے وقت تھی۔ یعنی وہ دنیاوی علم الاسماء، جو حضرت آدمؑ کو دیا گیا، وہ تو نسل در نسل انسان اپنی اگلی پُشتوں کو منتقل کرتے رہے اور ہر دَور کے لوگ اس میں اضافہ بھی کرتے رہے۔ اور آج وہی علم اپنے بامِ عروج کو چھو رہا ہے۔؎ ’’عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں…کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے۔‘‘

علمِ رسولؐ: اِس پس منظر میں دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی وحی، سورۂ علق کی ابتدائی5 آیات کی صُورت حضرت محمدﷺ کی ذاتِ مبارکہ میں پہلے اِسی علم الاسما یا علم الابدان اور دنیاوی علم کی تجدید فرمائی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔’’(اے محمّدﷺ) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو، جس نے تخلیق کیا۔ جس نے انسان کو معلّق لوتھڑے سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم (یعنی سخی اور فیاض) ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا۔ اور انسان کو وہ باتیں سِکھائیں، جس کا اُسے لم نہ تھا۔‘‘ 

گویا، اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو تمام کائنات اور انسان کی تخلیق کا علم سِکھا دیا۔ اور کئی ایسے علوم قرآنِ پاک کے ذریعے بتائے، جن تک سائنس آج پہنچی ہے یا جن علوم تک سائنس ابھی پہنچنا چاہتی ہے۔ ایسے ہی بقیہ تمام علوم یعنی اِس کائنات کی تخلیق، انسان کی مادّی اور روحانی تخلیق کا علم بھی آپؐ کو عطا کر دیا گیا۔ آپؐ کو علمِ غیب عطا کرنے کی خاطر آسمانوں کی سیر بھی کروائی گئی، جنّت کا دورہ بھی کروایا گیا اور جہنّم کا مشاہدہ بھی۔ شبِ معراج میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو عرش پر بُلایا اور وہ کچھ عطا فرمایا، جس کا اندازہ بھی ہم نہیں لگا سکتے۔ 

لوح کیا ہے؟ لوحِ محفوظ وہ تختی ہے، جس پر ساری کائنات کی تقدیر (یعنی علمِ الہٰی) درج ہے۔ قرآنِ پاک بھی اُسی پر درج ہے اور اِس علم میں سے اللہ پاک جس کو جتنا چاہے، عطا فرماتا ہے۔

لہٰذا علّامہ اقبال کا اِس شعر میں کہنا یہ ہے کہ حضرت محمدﷺ، امین ہیں لوح پر لکھے جانے والے تمام علوم کے۔ آپؐ امین ہیں، قلم سے لکھے جانے والے تمام علوم کے۔ اور اِس بات میں ذرا بھر مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ آپؐ مجسمِ قرآن ہیں اور آپؐ کی زندگی کے تمام اعمال، افعال اور اقوالِ مبارکہ ان علوم کی عملی تفسیریں اور تصویریں ہیں، جو لوح کا علم ہے، جو قلم کا علم ہے اور جو قرآن کا علم ہے۔ گویا کہ یہ سچ ہے کہ حضرت محمدﷺ کی ذاتِ مبارکہ سراپا لوح بھی ہے۔ یہ حق ہے کہ آپؐ سراپا قلم بھی ہیں اور یہ اٹل حقیقت ہے کہ آپؐ سراپا قرآن بھی ہیں۔

گویا کہ آپؐ کی ذات، علم کی کیفیات کے لحاظ سے ایک بہت بڑے بحرِ بے کراں جیسی ہے۔ اِس پس منظر میں علّامہ صاحب نے دوسرے مصرعے میں آپؐ کے علم کی مقداری حقیقت دِکھانے کے لیے ایک تمثیل پیش کی اور اس کا موازنہ کر کے بتایا کہ آپؐ کا علم ایک محیطِ بے کراں، یعنی وسیع العریض سمندر ہے، جس کے مقابلے میں آسمان کی مثال ایک بلبلے کی سی ہے۔ اگر اس دنیا کے گنُبد نُما چھت، آسمان کو اُٹھا کر اگر آپؐ کے بحرِ زخار میں ڈال دیا جائے، تو اُس آسمان کی حیثیت، آپؐ کے سمندر میں ایک بلبلے یعنی حَباب جیسی ہو گی۔ 

حَباب پانی کا وہ قطرہ ہوتا ہے، جو ہَوا بَھرنے سے پھول کر پانی کے اوپر آ جاتا ہے اور جس کی اندرونی شکل اُلٹے پیالے جیسی ہوتی ہے۔ علّامہ صاحب نے کمالِ فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں حضورﷺ کے عالی مرتبے کی ایسی شان بیان کی کہ جس کی کہیں اور مثال نہیں ملتی، وہیں ایسی منظر نگاری بھی کی ہے کہ انسان عالم محویت میں کھو کر رہ جائے۔ یعنی مضبوط ترین اور بزرگ ترین آسمان کو گنبدِ آبگینہ رنگ کہہ کر اس کی حیثیت عارضی، ناپائے دار اور نازک شیشے یا کانچ جیسی بنا دی۔

پھر اس کی شکل کو لے کر اسے ایک بلبلے سے تشبیہ دے دی کہ حباب، جو انتہائی نازک اور کم وقتی ہوتا ہے، پھر اِس عالمِ دنیا، کائنات کا جو تعلق حضورﷺ کے محیط سے جوڑا، وہ بھی با کمال ہے۔ یعنی حضورﷺ کی ذاتِ گرامی اپنے وجود میں علم کا اِتنا وسیع بحرِ بے کراں ہے کہ یہ آسمان اور جو کچھ اس میں سمایا ہوا ہے، مُراد پوری دنیا، جو ادنی کی مؤنث ہے، اس کی حیثیت حضور ﷺ کے زخار سمندر میں ایک حقیر سے بلبلے جیسی ہے، جو نا صرف نازک ہے، بلکہ نا پائے دار اور ادنیٰ ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو وسیع و عریض، بلند و بالا ابدی جنّتوں کا مالک بنا دیا ہے، جو انتہائی مضبوط، دیرپا اور پائے دار ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید