• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صفحہ: دماغ کی چُولیں، مجرّب نسخہ ...

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

فارم 47 یا 45 والی؟؟

شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پرایک پیکرِخُوباں کی رعنائیاں دیکھتے محمود میاں نجمی کی بزمِ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ تک پہنچ گئے، جو حضرت عیاش بن ابی ربیعہؓ کی اسلام قبول کرنے کے بعد ظلم وستم، جبر و اذیت اور قید وبند کی صعوبتیں سہنے سے متعلق تھی۔ اگر ہم بھی ایسے ایثار کی روایت اپنالیں تو معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بن جائے۔’’حالاتِ حاضرہ‘‘میں منور مرزا سوشل میڈیا کے سبب پھیلنے والے معاشرتی و سیاسی انتشار پر تشویش کا اظہارکررہے تھے۔

جس قدرجھوٹے بیانیےسوشل میڈیا پرچلتےہیں، بےشک،اُنہیں لگام اور دشنام طراز لوگوں کوسخت سے سخت سزا دینےکی اشد ضرورت ہے، تاکہ باقیوں کو عبرت ہو۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ثانیہ انور ’’رضاعت کے عالمی ہفتے سے، جبری گم شدگی کے شکار افراد کے دن تک‘‘ اہم تاریخی واقعات، عالمی ایام کا تذکرہ لائیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی وادیٔ نیلم کی حُسن و دل کشی کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا احوال بھی بیان کررہی تھیں۔ 

اگر ہمارا محکمۂ سیاحت عالمی سطح پر خاطرخواہ تشہیرکرے، تو ہم اربوں ڈالرزتو سیاحت سےکماسکتے ہیں۔ بس، اچھی سڑکیں، عالمی معیار کی رہائش گاہیں تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈفٹنس‘‘ میں منورراجپوت انسدادِ ہیپاٹائٹس کے عالمی یوم پر ڈاؤ میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد سے بات چیت کررہے تھے، جنہوں نے پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی بڑھتی شرح پرسخت تشویش کا اظہار کیا۔ 

لمحۂ فکریہ ہی ہے کہ علاج میسّر ہونے کے باوجود عوام غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹرصاحبہ نےایک پیکر میں زیبائیاں، رعنائیاں، خوبیاں، دل کشیاں سب ہی سمیٹ دیں۔ عرفان جاوید ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں ’’انکشاف‘‘ کے عنوان سے خالد فتح محمّد کا ساس بہو کا پرانا قصّہ، یک سرنئے انداز سے لائے۔ ارسلان اللہ خان مخلص دوست کی اہمیت بتا رہے تھے، مگر اس دور میں ایسےدوست کا ملنا جوئے شیرلانا ہی ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں میمونہ ہارون، امّاں حاجرہؑ کے نقشِ قدم پر چلنے کا درس دے رہی تھیں، تو بلقیس متین نے بیکنگ پاؤڈر اور بیکنگ سوڈے کا فرق اورحمیرا اسلم نے دہی بڑوں کی وجۂ تسمیہ سے آگاہ کیا۔ 

نئی کتابوں پر اخترسعیدی نے بہترین تبصرہ کیا، جب کہ ہمارے صفحے کے اعزازی پلیٹ فارم پرمحمّد سلیم راجا ایکسپریس کھڑی دکھائی دی۔ اگلے شمارے کے سرِورق سے ہواخوری کرتے، منیر احمد خلیلی کے مضمون سقوطِ اندلس اورغرناطہ کے المیے سے غم زدہ ہو بیٹھے۔ بعدازاں، منور مرزا کی محفل میں آدھکے۔ثانیہ انور ’’عالمی یومِ رضاعت‘‘ پر لاجواب تحریر لائیں۔ ڈاکٹر عباسی بے ثبات، بے مقصد زندگی گزارنے والوں کےلیے فکرمند تھے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں سیّدہ تحسین عابدی ’’غیرت کے نام پرغیرت کا قتل‘‘ جیسےالمیے پر روشنی ڈال رہی تھیں۔

اِن جاہلانہ رسوم کا تدراک آخر کون کرے گا۔ تعلیم ہی سےتدراک ممکن ہے، مگر اربابِ اختیارکی یہ ترجیح ہی نہیں۔ حافظ بلال بشیر بارشوں سے تباہی اور انتظامی اداروں کی نااہلی پر شکوہ کُناں تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ کے انتخابِ اشعار سے خُوب لطف اندوز ہوئے۔ ’’ایک کہانی، جو لکھی نہ جاسکی‘‘ عرفان جاوید، اختر رضا سلیمی کا افسانہ لائے، تو ڈاکٹر طاہر نقوی ’’سفرفسانے‘‘ کے تحت پیرو کی سیر کروا رہے تھے اور عمیرمحمود نظامِ عدل کی حالت زار پرنوحہ کُناں تھے۔ 

سید محمد ذکی نے ایئرٹریفک کنٹرولرز کے کام کی افادیت اُجاگر کی۔ ہمارے صفحے میں شائستہ اظہر صدیقی حسبِ معمول شکستہ لوگوں کو شکست دے کر پہلے نمبر کی حق دار ٹھہریں۔ اب پتا نہیں، یہ فتح فارم 47والی ہوتی ہے یا 45والی۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: یہ فارم 47، 45 کی فتح والا جھگڑا، جن کی ذہنی اختراع ہے، اُنھیں تو اپنی کام یابی کے سوا ہرکام یابی ہی جعلی لگتی ہے، سو، ایک سو فی صد میرٹ پر ہونے والےفیصلے کو اُس سےتشبیہ نہ ہی دیں، تو بہتر ہے۔

درست لفظ ’’وہم و گمان‘‘ہے

’’ نیلم کی وادی میں، چند روز‘‘، تحریر میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل کے جگہ جگہ خطاب و استقبال کا احوال پڑھا۔ قاضی گھرانہ، حقیقتاً اِسی عزت واحترام کا حق دار ہے۔ اِس بار کی ماڈل، جیا ملک کے انداز اور پہناوے خُوب صورتی و دل کشی کا مرقّع تھے، سونے پر سہاگا نرجس ملک کی شان دار اشعار سے مزین تحریر۔ میرے دل کی دھڑکنوں میں ڈھل گئیں چوڑیاں، موسیقیاں، شہنائیاں…واہ واہ۔ عرفان جاوید کا ’’انکشاف‘‘ بھی انتہائی متاثرکُن رہا۔

بشریٰ ودود کا کردار ’’آپا زبیدہ‘‘ تو ہمارے معاشرے میں جا بجا پایا جاتا ہےاور عموماً بڑی عُمرکی وجہ سے برداشت بھی کرلیاجاتا ہے۔ اپنے ایٹمی پروگرام سے متعلق یہی کہوں گی کہ چڑیوں نے یہ گھونسلا، ایک ایک تنکا اکٹھا کرکے تیار کیا، کام یابی کا سہرا، محض ایک دو شخصیات کے سر پرنہیں سجایا جا سکتا۔ 

آپ نے ایک خط کے جوا ب میں لکھا کہ ’’یہ بات ہمارے سان و گمان میں بھی نہ تھی‘‘ حالاں کہ درست لفظ ’’وہم و گمان‘‘ہے۔ خطوط کی محفل میں نواب زادہ بےکار ملک موجود تھے، مجھے تو لگتا ہے، یہ بس یوں ہی دل لگی اور چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں، غالباً اپنی عادت سے مجبورہیں۔ آج کی ونر شائستہ اظہر ٹھہریں۔ وہ کیا ہےکہ ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘۔آج صفحہ کچھ نیا نیا سا لگا۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)

ج: ایک شعر ہے؎ جب اپنوں سے دُور پرائے دیس میں رہنا پڑتا ہے… ’’سان گمان‘‘ نہ ہوں جس کا، وہ دُکھ بھی سہنا پڑتا ہے۔ مطلب یوں تو یہ لفظ خاصا مستعمل ہے، مگر اشعار تک میں استعمال، گویا اِس کی درستی کی سندہے۔ ویسے ہمیں شدید حیرت ہوتی ہے، اُن لوگوں پر،جو خود غلط ہوتے ہوئے، دوسروں کو برملا غلط ثابت کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ آپ کی تحریر میں بعض اوقات ایسی ہول ناک غلطیاں ہوتی ہیں کہ اگر اُنھیں درست نہ کیا جائے، تو اِک ہنگامہ کھڑا ہو جائے۔ ذرا اپنا یہ خط ہی ملاحظہ فرما لیں۔ دل لگی ، چھیڑ چھاڑ، ’’کفرٹوٹا خداخدا کرکے‘‘ سب کا استعمال موزوں طور پر نہیں ہوا۔

طویل، خُوب صُورت ای میل

’’سنڈے میگزین‘‘میں زیادہ ترمضامین یومِ آزادی کی مناسبت سے پڑھنے کو ملے۔ سب ہی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ کےتحت ایک اچھا تجزیہ پیش کر کے منہ کا ذائقہ بدل دیا۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ سلسلہ بھی عرفان جاوید کی وجہ سے خُوب چمک دمک رہا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عندلیب زہرا کا افسانہ ’’وعدہ‘‘ پسند آیا۔

ڈاکٹر قمر عباس کے ’’عزمِ فولادی‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ خوشی ہے کہ سلیم راجا کی آمد مستقل ہوگئی ہے اور لگ بھگ ہرہفتے ہی مسند پر جلوہ افروز بھی ہو رہے ہیں۔ ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں مشرقی لڑکی کی ای میل پڑھی۔ اتنی طویل تحریر اور اس قدر عُمدہ، خُوب صُورت، پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: واقعتاً ای میل بہت عُمدگی سے لکھی گئی۔

دماغ کی چُولیں، مجرّب نسخہ

شمارہ موصول ہوا۔ ’’آپ کاصفحہ‘‘ کی اعزازی چِٹھی کی کرسی پر براجمان، شائستہ اظہر صدیقی کی تحریر انتہائی شان دار تھی، جس کی خُود آپ نے بھی بہت تعریف کی۔ اِن صاحبہ کا اندازِ تحریر منفردسا ہے، جب کہ خط میں بہترین الفاظ کا انتخاب کیا گیا۔ پوچھنا یہ تھا کہ یہ گوہرِ نایاب کس سرزمین، کس شہر سے دریافت ہوا۔ پھر نام کےآگے سیال کوٹ (شہرِاقبال) لکھا نظر آیا، تو اپنے ہر سوال کا جواب مل گیا کہ یہ مٹی تو ویسے ہی بڑی زرخیز ہے۔ 

اِس نے بڑے بڑے نام وَرپیدا کیے۔ ویسے خط ہذا لکھنے کا سبب بھی یہ چٹھی ہی بنی، جس کے جواب میں آپ نے ’’اسٹائل بزم‘‘ کے صفحات مستقل شائستہ اظہر کے سپرد کردینے کا ذکر کیا۔ اگر آپ نے سنجیدگی سے کوئی قدم اُٹھانےکا فیصلہ کربھی لیا ہے، تواِس پرذرا قارئین سے ریفرنڈم کروا لیں۔ رہی بات دماغ کی ہلتی چُولوں کی، تو اُن کے لیے ایک مجرّب نسخہ حاضرِ خدمت ہے۔ 

ہاں، اس ہفتے کی نمبر ون تحریر سیدہ تحسین عابدی کی ’’غیرت کےنام پرقتل، غیرت کا قتل‘‘ رہی، جس میں ریاست، عدلیہ اورمعاشرے کو خوب جھنجھوڑا گیا۔ دیگر تحریروں میں ڈاکٹر عزیزہ انجم کی ’’جدیدیت کی چاہ اور اکیلے پن ک عذاب‘‘ اور فیصل قاسم قریشی کی ’’فرقۂ بیڑا غرقیہ‘‘ تھیں۔ (محمّد صفدر خان ساغر، نزد مکی مسجد، محلہ شریف فارم، راہوالی، گوجرانوالہ)

ج: محترم! آپ نے جو یہ چار صفحات پر محیط (جسے ایڈٹ کردیا گیا) ایک مجرب نسخہ ہمیں عنایت فرمایا ہے، پہلے ذرا اِس کا استعمال خُود کردیکھیں کہ ایک یوں ہی ازراہِ تفنن، برسبیلِ تذکرہ کی گئی بات پر، آپ کی رگِ حکمت ایسی پھڑکی کہ دنیا جہاں کے ٹونے ٹوٹکے، نُسخے، حتیٰ کہ حکماء، اطباء تک کے فون نمبرز تک ہمیں لکھ بھیجے۔ ہمارےخیال میں تو خُود آپ کو فوراً سے پیش ترکسی ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

                          فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

صُبحِ اتوار، ساون کی چنچل ہوا کے دوش پر شوخ ادا میگزین، اخبار منرل سے لال کوٹھی وارد ہُوا۔ اللہ کی شان، دل کش رنگوں سے سجا دیدہ زیب ٹائٹل اور شانہ ہائے نازنین پہ بِکھرے گیسوئے دراز، تو دل دھڑکنے، بادل گرجنے کا سبب یاد آیا۔

میگزین کے اللہ لوک مضمون نگار، منیر احمد خلیلی کا قومِ یہود سے متعلق لکھا لوہے پر لکیر ہے کہ ’’یہ قوم ہمیشہ تخریب اور بگاڑ میں لگی رہی، جنگوں کے شعلے بھڑکاتی اور انسانیت کی تباہی کا سامان کرتی رہی۔‘‘ اِس پر اللہ کی پھٹکار۔ اور باقی رہی 21ویں صدی کی مُسلم اُمّہ تو، ’’اللہ کا نام، محمّد کا کلمہ‘‘۔ 

اللہ کے دُوراندیش بندے منور مرزا کے آرٹیکل سے گویا ہم نے جانا کہ انکل سام کا ’’ بُوہے باریاں‘‘ آج کل سُپرہٹ جارہا ہے، یعنی کبھی تجارتی دروازے کلوزڈ، اور کبھی علمی کھڑکیاں شٹ ڈاؤن، بھئی تینوں اللہ سنوارے۔ کوکھ سے گود تک انسانیت کو اللہ آمین سے پالنے والی فرشتہ صفت ہستی، ماں کو ثانیہ انور نے شان دار ہدیۂ تکریم دیا، اِس مجسم وفا پہ اللہ کی امان۔ ’’یہ زندگی کے میلے، دنیا میں کم نہ ہوں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے…‘‘ اللہ والے ڈاکٹر عباس نے دل کی کہی۔

یہ دنیا فانی ہے، اللہ بس باقی ہوس، یعنی اللہ ہی اللہ ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر مالک نے بارگاہِ سرکار میں ’’دماغی صحت‘‘ کو ترجیح دینےکی استدعا کی۔ یادش بخیر، عقلِ سلیم نےکیبنٹ کمال دیکھا کہ ایک ہی سیزن میں پہلے لاکھوں ٹن چینی برآمد کی،’’اللہ اللہ خیر صلّا‘‘، پھر لاکھوں ٹن درآمد بھی کی گئی کہ’’اللہ کو جو مُنہ دکھانا ہے‘‘، اللہ اللہ۔ اور’’سنڈے اسپیشل‘‘ (پارٹ ٹُو) کے ساتھ جو تصویرشائع کی گئی، اُسی سے موضوعِ مضمون آشکار ہورہا تھا۔ بھائیو! اللہ سے ڈرو، اللہ کو مانو کہ ’’اللہ کی لاٹھی بےآواز ہے۔‘‘ 

’’اچھی کتاب ہمیشہ سیدھےرستے پرچلنےکا درس دیتی ہے۔‘‘ پروفیسرڈاکٹرسیّد نےبجافرمایا۔اللہ داد صلاحیتوں سے مُتصف عرفان جاوید کے سلیمی فسانے میں کم سِن کے داخلے کا پڑھ کر ہمیں بھی اپنا بچپن یاد آگیا۔ ڈریس شو(صفحاتِ اسٹائل) کی قلمی کمنٹری میں نقل کیا گیا کہ ’’تتلی کی مانند بننےکی کوشش کریں، بہت خُوب صُورت، رنگا رنگ، مگرآسانی سے کسی کی بھی دسترس میں نہ آنے والی۔‘‘ سبحان اللہ! رنگ ڈھنگ اور رُوپ سروپ، حقیقتاً اللہ کی دین ہے۔

’’جہانِ دیگر‘‘ کے تین بھائی، اللہ کی سوہنی دھرتی ’’پیرو‘‘ سفرگشت کرنے گئے تو الحمدُللہ، ہم سےابنِ بطوطہ قارئین واسطے، بھائی پھیروسفر فسانےکا رومانی اہتمام ہوا۔ اللہ رے!صفحۂ ’’متفرق‘‘ پرہمارے نظامِ عدل پرتنقیدی تحریر بےمثل تھی، جس میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے حوالے سے رُوح فرسا و چشم کُشا حقائق سے پردہ اُٹھایا گیا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے اس مردِ بےباک کو جِس کسی نےاشتعال دلایا، اُسے خمیازہ بھگتنا پڑا، باقی اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔ 

ماشاءاللہ، ’’متفرق‘‘ پارٹ ٹُو میں میگزین ریڈزر کو ایک ٹکٹ میں تین مزے کروائے گئے۔ غلط العوام کی بااندازِمزاح درستی زبردست رہی، فیس بُکی ادباء کو خُوب دھوبی پاٹ مارے گئے۔ اُنہیں اللہ میاں کی گائے کہیں یا عقلِ نارسا؟؟ ڈاکٹر علیمی نے قلمِ زعفران سے جذبۂ دوستی کو جو مشک بیزکیا، تو تارِدل نےچھیڑا نغمہ چاہت کا، ’’تیری میری یہ دوستی۔‘‘ 

جدیدیت کی راہ سے موت کی وادی کے پار جانے والے آرٹسٹس کی نظیر دے کر، ’’پیارا گھر‘‘ میں حقوق العباد کی ادائی پر زور دیا گیا، جزاک اللہ۔ ساون کی حبس زدہ دوپہر میں اللہ اللہ کرکے، جنونِ مطالعہ صفحۂ آخرپر قدم بوس ہوا۔ برقی، مرلی و جاوید اور نواب، جمیل و زاہد سبھی کو مدیرہ سے قرطاسی ملاقات پر نازاں دیکھا، اور مدیرہ کو شستہ زبان ’’’’شائستہ‘‘ پہ فریفتہ۔ اِس بیوٹی فُل کنٹراسٹ پر اپیل (ہاؤاِزدیٹ؟)ناقابلِ سماعت قرار دی جاتی ہے۔ ہاہاہا!!! (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: خط لکھنا، مندرجات پر تبصرہ کرنا تو کوئی آپ سے سیکھے۔

گوشہ برقی خطوط

* سورج سائے کےفیتے سے میرا آنگن ناپ رہا ہے۔ چُھٹی کے دن گھر کے کام نمٹا کے بیٹھی، تو شمارہ ایک ساتھ ہی پڑھ ڈالا۔ یادگاری ڈاک ٹکٹس پرمضمون شان دارتھا۔ مارخورسے متعلق پڑھ کرحیرت ہوئی کہ مَیں ہمیشہ سے اِسے ایک پرندہ سمجھتی تھی۔ ذوالفقار چیمہ کی داستان میں شوہر پر اتنے گھناؤنے الزم کا قصّہ پڑھ کےدل لرز کے رہ گیا۔ کنول بہزاد کی تحریر میں لکھا تھا کہ ’’آج سے کوئی دو ماہ قبل، جب تم نے دستک دی تھی…‘‘ تو دسمبر تو ایک ماہ کا ہوتا ہے، تو دو مہینے پہلے اُس نے دستک کیسے دی؟ ’’اسٹائل‘‘ کے سب مشرقی پہناووں کے بیچ ایک ویسٹرن لباس کی کوئی تُک سمجھ نہیں آئی۔ 

’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا صفحہ بالآخر شامل کر لیا گیا، مگر تینوں واقعات کچھ خاص متاثرکُن نہیں تھے۔ اب شاید لوگوں کے ساتھ انوکھے واقعات پیش آناہی بند ہوگئے ہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں زلیخا جاوید کی چٹھی بہت پسند آئی۔ قیادت کے رہنما اصولوں سے متعلق سلطان محمد فاتح کی تحریر ہر سیاست دان کو زبردستی پڑھوانی چاہیے۔ منور مرزا ڈی ٹی (ڈونلڈ ٹرمپ) سے متعلق ایک شان دارت جزیاتی تحریر کےساتھ آئے۔ ’’اسٹائل‘‘کے صفحات پہ پہنچی، تو جیسے ایک موتی مالا سی سجی تھی۔ 

آفتاب شاہ کی نظم کاچناؤ شان دارتھا۔ سیفی سرونجی کی غزل پڑھ کرلگا کہ پہلے بھی کہیں پڑھ رکھی ہے۔ ’’اسٹائل‘‘ محفل تواِس بارخُوب مخملیں مخملیں ہورہی تھی۔ ویسے مخمل کو اگر فیبرکس کی شہزادی کہاجائے، توغلط نہ ہوگا۔ یہ کپڑا اتنا پیارا ہے کہ ہررنگ وانداز میں ہر ایک ہی پر سجتا تھا۔ ساٹن فیبرک پر بھی ایک شوٹ کروائیں، میرا من پسند فیبرک ہے۔ شبیراحمد کسی ڈرامے کے ہیرو کے عشق میں کیا مبتلا ہوئے، آپ نے تو اُن کی کلاس ہی لے ڈالی۔ 

ہاہاہا… ڈاکٹر عزیزہ ’’ہم سایوں کےحقوق و فرائض‘‘ پہ تحریر لائیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ نہیں معلوم، پڑوس میں کون رہتا ہے۔ ملک ذیشان کی ’’جولیاں‘‘ سے متعلق مختصر سی تحریر بہت دل چسپ تھی۔’’سدا بہار گانوں کا دیوانہ‘‘بھی مزے کی رپورٹ تھی۔ ہائے، مجھے یاد ہے، بچپن میں ایک من پسند گانا سُننے کے لیے کتنا ترسا جاتا تھا۔ کبھی گھر سے باہر کوئی دُکان دار تیز آواز میں لگا لیتا، تو دروازے سے چپک کے کھڑی ہوجاتی تھی۔

ایک خط کےجواب میں یہ پڑھ کے کہ ’’خادم ملک کے خط سے میگزین جگمگاتا کم، ڈگمگاتا زیادہ ہے۔‘‘ ہنسی ہی چُھوٹ گئی۔ یہاں عید کا دن بہت اداس ہوتا ہے۔ پردیس میں کیا عید، بس آئی اور چلی گئی۔ پتا چلا، تو صرف میگزین کےذریعے۔رؤف ظفرکی’’تارکینِ وطن کی عید‘‘ پڑھ کے دل سے ایک آہ نکلی۔ 

کنول بہزاد کے سفرنامے میں ’’اندرسوں‘‘ کاپڑھ کے منہ میں پانی بھر آیا۔ ڈاکٹر عزیزہ کی نظم ’’عید کا چاند دیکھ کے‘‘ بہت ہی پسند آئی۔ ’’پیارا گھر‘‘ کا دستر خوان انواع واقسام کے خوانوں سے سجا تھا۔ مجھے تویاد بھی نہیں، آخری بار شیرخُرما کب کھایا تھا۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

ج: دو ماہ پہلے دستک یوں دی تھی کہ تحریر جو جنوری کے آخری شمارے میں شایع ہوئی۔ ایک ویسٹرن اسٹائل کی تُک ہمیں بھی کچھ سمجھ نہیں آئی تھی، اسی لیے رائٹ اَپ سے کچھ کور کرنے کوشش تو کی۔

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید