• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صفحہ: جریدہ، چاہت و محبّت کا جزیرہ ...

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

شعراء کا ’’جمعہ بازار‘‘

’’اسٹائل‘‘ کی تحریر میں تو جیسے شاعروں کی بارات آئی ہوتی ہے۔ یہ خالد معین پہلی بارش میں دیوانے کیوں ہوگئے، اُن سے کہیں کوئی ڈھنگ کا کام دھندا کریں۔ کراچی کی بارش میں اگر وہ دیوانے ہوئے، تو کسی گندے نالے ہی میں جاگریں گے۔ پاکستان میں تو اگر بارشیں ہوں تو اپنی آنکھیں کُھلی اور دماغ حاضر رکھنا پڑتا ہے۔ 

ناصر کاظمی، جاں نثار اختر، نذیر بنارسی، آپ کی ’’اسٹائل‘‘ کی تحریر نہ ہوئی، شعراء کا جمعہ بازار ہوگیا۔ ایسے رائٹ اَپ پڑھ پڑھ کر اب تو ہم خُود کو بھی چھوٹا موٹا مرزا غالب محسوس کرنے لگے ہیں۔ یوں لگتا ہے، ہم 1850ء کے زمانے میں چُوڑی دار پاجاما، کھسّے پہنے اور سر پر رام پوری ٹوپی لگائے گھوم رہے ہیں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: ہم نے ’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ ہی سے بہت حد تک راہِ فرارہی اختیار کرلی ہے۔ اب آپ کو کسی اور دیوار سے سرپھوڑنا پڑے گا، تو یوں کیجیے، اپنی اونگیوں بونگیوں کے لیے کوئی اور موضوع تلاش رکھیے۔

جریدہ، چاہت و محبّت کا جزیرہ

مخزن کا آغازاپنی ہی طرز کے منفرد لکھاری منور مرزا کے قلمی شہ پارے ’’مشرقِ وسطیٰ میں مذاکرات کا موسم‘‘ سے ہوا۔ بقول منور مرزا مسلمانوں کا بدترین دشمن اسرائیل غزہ کے تقریباً 60 ہزار شہری شہید کرچُکا ہے۔ وہاں قحط کی صورتِ حال ہے، زندگی سسک سسک کے دم توڑ رہی ہے، مگر اُسے نام نہاد سُپر پاور امریکا کی مسلسل اشیرباد حاصل ہے۔ 

آخر انسانیت کب بےدار ہوگی۔ معروف مذہبی اسکالر، منیر احمد خلیلی مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے بطورِ خاص آرٹیکل ’’پُراسرار یہودی تنظیمیں اور مسلمان‘‘ زیرِ قلم لائے کہ ازل ہی سے مختلف تنظیمیں مسلمانوں میں فساد پھیلانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ 

کمال تو یہ ہے کہ اُن کا اصل ہدف حُکم ران اور سیاسی، سماجی اور مذہبی قائدین رہے ہیں۔ سیّدہ تحسین عابدی کے موضوعِ سخن ’’ایران کی جرات، اسرائیل کی پسپائی اور کربلا کی بازگشت‘‘ کا نچوڑ یہ تھا کہ اِس مزاحمت نے تاریخ انسانی کو جھنجھوڑکے رکھ دیا۔ بےشک، راہِ حق پر چلنے والے اکیلے نہیں ہوتے۔ نیز، حسینیت آج بھی زندہ ہے۔ سلیم اللہ صدیقی تو’’سندھ طاس معاہدے‘‘ کی پوری تاریخ ہی لے آئے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ پانی زندگی ہے اور زندگی کی راہ میں رکاوٹ بھلا کون برداشت کرے گا۔ محمّد کاشف ’’ڈے ٹریڈنگ:فوائد و نقصانات‘‘ کے ساتھ جلوہ گر تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے کیا خوش رنگ گل بکھیرے۔ واللہ، رُوح تک معطر ہوگئی۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں عرفان جاوید نے آباد احمد خان کا افسانہ ’’تماشا مِرے آگے‘‘ منتخب کیا اور بہت خُوب کیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مصباح طیب اپنےقلمی تراشے کےذریعے یہ حقیقت آشکار کررہی تھیں کہ زبان اگر ہمہ وقت ذکراذکار میں مصروف رہے، تو رحمتوں برکتوں کا نزول ہی جاری نہیں رہتا، بندہ لایعنی سوچوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ 

حافظ بلال بشیر کا کہنا صد فی صد درست کہ موبائل فون کا بہت زیادہ استعمال ذہنی و جسمانی امراض کا سبب بن سکتا ہے۔ کدّو کے حیرت انگیز غذائی و طبّی فوائد کے ساتھ حاضر تھے، پروفیسر حکیم عمران فیاض۔ بہت مفید مضمون لکھا۔ ارسلان اللہ خان ’’باپ کی پندو نصائح،اولاد کی متاعِ حیات‘‘ کے ساتھ آئے اور چھا گئے۔ رفیع مندوخیل بلوچستان کی دیہی خواتین سے متعلق چشم کُشا رپورٹ لائے۔ ڈاکٹر معین نواز ’’کثرت و قلت کا تضاد‘‘ کے ذریعے سمجھا رہے تھے کہ آنے والا دَور کیسا ہوگا۔ 

خنساء محمد جاوید ننھی چیونٹی سے متعلق بڑی معلومات لائیں کہ مالکِ دوجہاں کی یہ ادنیٰ مخلوق بھی کن کن صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں روبینہ ادریس کی ’’آخری ہجرت‘‘میں رضیہ ماں کا کردار ہم سب کے لیے روشن مثال تھا۔ تو محمّد عارف قریشی بھی زندگی کے اُصول سمجھا گئے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں بورے والا کے رانا محمد شاہد خُوب چھائے ہوئے تھے۔ 

ویل ڈن۔ لال کوٹھی، فیصل آباد کے محمد سلیم راجا بھی واپس آگئے، مبارکاں جی مبارکاں۔ اور سید زاہد علی، شہزادہ بشیر محمد نقش بندی اور شاہدہ ناصر کے خطوط بھی سنڈے میگزین کو خوب ہی مہکا رہے تھے۔ بے شک، انسان ہی انسان کی دوا ہے اور یہ جریدہ تو گویا چاہت و محبّت کا ایک جزیرہ ہے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

پکوان کون کھائے گا…؟؟

دوماہ سے زیادہ ہوگئے، میرا کوئی خط شایع نہیں ہوا، آپ ناراض ہیں کیا؟ تحریر، تنقید پر مبنی ہو یا تعریف و توصیف پر، اشاعت اُس کا حق ہے۔ اب اس عُمرمیں ہمارے لیے تو بس اخبار کا مطالعہ ہی رہ گیا ہے۔ یوں بھی اگر سالن میں نمک، مرچ، مسالے نہ ہوں، تو وہ پکوان کون کھائے گا۔ 

’’آپ کا صفحہ‘‘ پورے پاکستان میں پڑھا جاتا ہے، کسی کو پسند آتا ہے، کسی کو نہیں، لیکن ہر اتوار انتظار رہتا ہے۔ اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا ؎ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں… ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ (سیّد شاہ عالم زمرد اکبر آبادی، راول پنڈی)

ج: پکوان، پکوان بھی تو ہونا چاہیے۔ اب کھانے کے نام پر کچرا، غلاظت تو نہیں کھائی جا سکتی۔ یہ بات آپ اچھی طرح سمجھ لیں کہ کسی بھی خط میں اگر اخلاق سے گری ایک سطر بھی ہوگی، تو وہ ردّی کی ٹوکری ہی کا رزق بنےگا۔ اورہاں، یہ ناراضی، وراضی کی خوش فہمی بھی دل سےنکال دیں کہ آپ سے ہمارا قطعاً کوئی ایسا رشتہ نہیں ہے۔

’’صُبحِ نو‘‘ کے مثل…

محمود میاں نجمی کے حضرت ابوذر غفاریؓ سے متعلق مضمون نے بہت متاثر کیا۔ اُن کی تدفین کا واقعہ پڑھ کر توآنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ حافظ بلال بشیر نے ماحولیاتی تبدیلیوں کےضمن میں ایک نہایت اہم مسئلہ اُجاگرکیا اور بالکل صحیح لکھا کہ خُود انسان ہی اپنے فطری مسکن کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ ’’ڈونلڈ ٹرمپ کا ہفتۂ سفارت کاری‘‘ بھی بڑا متاثر کن مضمون تھا۔ صدر ٹرمپ کی بڑی خواہش ہے کہ انہیں امن کا داعی تسلیم کیا جائے اور یہ نادر موقع اُنہیں پاک، بھارت جنگ نے فراہم کر دیا۔ 

دو ایٹمی طاقت کے حامل پڑوسیوں کے درمیان جنگ کا سوچ کر ہی رُوح کانپ جاتی ہے۔ عرفان جاوید کا نیا سلسلہ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ ہمیشہ کی طرح ایک بےمثال، لاجواب کاوش ہے۔ اِس ضمن میں ’’مارٹن کوارٹرز کا ماسٹر‘‘ کیا بہترین انتخاب تھا۔ میرے خیال میں یہ سلسلہ جریدے کے لیے اِک ’’صُبحِ نو‘‘ کے مثل ثابت ہوگا۔ 

عالیہ زاہد بھٹی کی تحریر ’’کچھ ہلکا پھلکا‘‘ پڑھ کر تو میڈم نورجہاں کا گانا یاد آگیا۔ ؎ دل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچے… بات چل نکلی ہے، اب دیکھیں، کہاں تک پہنچے۔ اختر سعیدی کا کتب پرتبصرہ اپنی مثال آپ ہوتا ہے، تو جہانِ دیگر‘‘ میں دریائے پرل کے کنارے آباد، چین کے تاریخی شہر گوانگ چوکا احوال پڑھ کر بھی بےحد لُطف آیا۔ اور آخر میں ’دآپ کا صفحہ‘‘ میں لوگوں کے دل موہ لینے والےخطوط شامل تھے، توآپ کے کرارے جوابات بھی۔ (تجمّل حسین مرزا، مسلم کالونی، ڈاک خانہ باغ بان پورہ، لاہور)

ج: جی، عرفان جاوید کے لگ بھگ تمام ہی سلسلوں نے پسندیدگی و مقبولیت کے کچھ نئے ریکارڈز قائم کیے۔

سب مِٹتے چلے جا رہے ہیں

مزاجِ گرامی کیسے ہیں؟ اُمیدِ قوی ہے کہ آپ سمیت تمام ٹیم شاداں و فرحاں ہوگی۔ ظاہر ہے، اتنےچاہنے والوں کی دعائیںجوآپ لوگوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ موسمِ گرما عروج پر ہے، چہار سُو، حدِ نگاہ پیلی پیلی کھجوروں سے لدے پھندے درخت ہیں اور سڑکوں کے دو اطراف بڑے بڑے کڑاہے چڑھے ہیں، جن میں زمین پر پھیلی کھجوریں اُبال اور سُکھا کر چھوہارے بنائے جائیں گے، غرض کھجوروں کے دیس، خیرپور میں کھجوروں، چھوہاروں کی تیاری کا عمل جاری وساری ہے۔ 

چلیں جی، بات کرتے ہیں، میگزین کے مندرجات کی۔ شمارہ ہاتھوں میں ہےاور زیرِ نظر تحریر ہے، منور مرزا کی۔ جوشُکوہ کناں ہیں کہ اسرائیل مسلسل ہٹ دھرمی سے پوری دنیا کا امن وامان تباہ کر رہا ہے۔ سیّدہ تحسین عابدی ایران کی جرات سراہ رہی تھیں۔ سچ بھی یہی ہے کہ پاکستان کی طرح ایران نے بھی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ عرفان جاوید کی تو کیا ہی بات ہے، اُن کا ہر نیا سلسلہ، یک سر اچھوتا ہی ہوتا ہے۔ 

ارسلان اللہ کی تحریر ’’باپ کی پندونصائح، اولاد کی متاعِ حیات‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ ڈاکٹر معین نواز بھی منفرد موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ آسائشوں کی فراوانی، اخلاقی اقدار کی پامالی پر بہت اچھا لکھا۔ آج شایدہر چیز ہی زوال پذیر ہے۔ کیا تہذیب و ثقافت، اقدار و روایات اور ادب ولحاظ، رفتہ رفتہ سب مٹتے چلے جا رہے ہیں۔ بات تو سچ ہے، مگر وہ کیا ہے کہ ؎ اپنا چہرہ ہی مزین ہو اگر داغوں سے… آئینے سے تو وضاحت نہیں مانگی جاتی۔ 

خنساء محمد جاوید کی تحریر ’’چیونٹی‘‘ سے معلومات میں اضافہ ہوا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات بھی بہت پسند آئے، خصوصاً’’آخری ہجرت‘‘۔ اور آپ کی بزم تو ہمیشہ کی طرح دل چسپ اور رنگا رنگ مکتوبات سے مرصّع ہی تھی۔ اللہ اس بزم کی رونقیں، آپ ہی کی سرپرستی میں قائم و دائم رکھے، آمین۔ کوئی پڑھے، نہ پڑھے ہم تو آپ کا رائٹ اَپ پڑھتے ہیں، اور وہ بھی پورے انہماک، خُوب ذوق و شوق سے۔ (نرجس مختار، خیرپور میرس)

ج: یہی تو المیہ ہے۔ وقت کا بہتا دھارا، سب ہی کچھ بہائے لے جا رہا ہے۔ ابھی تو پتا نہیں کیا کیا کچھ اور دیکھنا باقی ہے۔

خال خال پڑھنے کو ملتے ہیں

تازہ سنڈے میگزین کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منیر احمد خلیلی اور ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ثانیہ انور کے مضامین بہت ہی اچھے لگے اور ہمارے منور مرزا کے ’’حالات و واقعات‘‘ کا تو کوئی ثانی ہی نہیں ہوتا۔ ہر مرتبہ ہی ایک نہایت شان دار، مدلل تجزیہ پڑھ کر علمیت و معلومات کا گویا ایک خزانہ ہاتھ آجاتا ہے۔ 

عرفان جاوید بھی کمال ہی کی داستان لے کر آئے۔ ہم تو پڑھ کر ششدر ہی رہ گئے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں شائستہ اظہر صدیقی کا خط آپ کو پسند آیا، واقعی بہت عُمدہ خط تھا، جو حقیقتاً پڑھنے سے تعلق رکھتا تھا کہ ایسے نامے خال خال ہی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: جی، ایسے ہی تو ہم شائستہ کی تحریر کے گرویدہ نہیں ہوئے اور اُنھیں ’’اسٹائل بزم‘‘ کی کڑی ڈیوٹی نہیں سونپی۔

کاغذی پھولوں سے نہیں

آپ کی خدمت میں دو شعر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ؎ صُبح، شام ہو جائے گی… زندگی تمام ہوجائے گی۔ ؎ زندگی اِک سفر ہے… آخری منزل قبر ہے۔ مَیں عرصۂ دراز سے جنگ اخبار پڑھ رہا ہوں، جب یہ کراچی سے چھپ کر ریل گاڑی سے لاہور آتا تھا۔ اخبار جنگ صحافت کے میدان میں ایک بلند و بالا مقام رکھتا ہے۔ 

بلاشبہ، اِس کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ کیا ہے کہ خُوشبو اصل پھولوں ہی سے آتی ہے، کاغذی پھولوں سے نہیں۔ تو’’جنگ‘‘ ایک اصل پھول، بلکہ پورا گل دستہ ہے۔ مَیں اپنا بچپن سامنے رکھ کرکچھ یادیں لکھ کے روانہ کررہا ہوں کہ انسان کی زندگی میں چار ہی مدارج آتے ہیں۔ بچپن، لڑکپن، جوانی اوربڑھاپا۔ (زمین اللہ، پیراگون سٹی، برکی روڈ، لاہور)

ج: کیا کیا بےسروپا کہانیاں نہیں لکھ بھیجیں آپ نے، (جنہیں قلم زد کرنا لازم ٹھہرا) نہیں لکھا تو بس ’’سنڈے میگزین‘‘ کے مندرجات سے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ آپ کا پہلا خط ہے، اِس لیے شایع کیے دے رہے ہیں۔ آئندہ، خط لکھنے سے پہلے نہ صرف جریدے کا بلکہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا بھی لازماً مطالعہ کرکے فارمیٹ کو فالو کریں۔

                 فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

محمود میاں نجمی روشنی کے اُن میناروں کی زندگیوں کو بڑی خُوب صُورتی سے قلم بند کر رہے ہیں، جو تمام انسانیت کےلیے’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ہیں۔ منور مرزا اس بار کچھ معمول سے ہٹ کر یعنی سماجی موضوع پر تحریر لائے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی چیز کا بےلگام ہوجانا معاشرتی انتشارکا باعث ہے، خواہ وہ آزادیٔ اظہارِ رائے ہی کیوں نہ ہو۔ ثانیہ انور ہمیشہ کی طرح اگست میں آنے والے اہم عالمی ایام کے ساتھ موجود تھیں۔ 

ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی وادیٔ نیلم کے حسین مناظر کی سیر کرو ارہی تھیں، تو ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ نے جہاں انسانی رویوں، نفسیاتی الجھنوں کی بات کی، وہیں ساون، مینہ اور بارش پر بھی خُوب لکھا۔ عرفان جاوید کا انتخاب خالد فتح محمّد کا افسانہ ’’انکشاف‘‘ خواتین کی نفسیات بخوبی اجاگر کر رہا تھا، ویسے مصنّف کا کتے، بلی کے حوالے سے مشاہدہ کمال کا تھا۔ 

دوستی کے عالمی دن کی مناسبت سے ارسلان اللہ خان نے عمدہ لکھا، مجموعی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ خُوب صورت رشتہ بھی قصۂ پارینہ ہوا، اب توصرف مفادات رہ گئے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں میمونہ ہارون نے ماں جیسے بےمثل رشتے پر تاریخی حوالوں سے ایک اعلیٰ تحریر رقم کی۔ حقیقت یہی ہے کہ ممتاکی طاقت سے بڑی کوئی طاقت نہیں۔ حمیرا اسلام کی دہی بڑوں سے متعلق تحریرمختصر، مگر بہت دل چسپ تھی۔ 

پہلی بار معلوم ہوا کہ دہی بڑے پہلی بار بہادر شاہ ظفر کے دسترخوان کی زینت بنے تھے۔ ویسے دہی بڑوں کا نام سُنتے ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں بشریٰ ودود نے آپا زبیدہ کے کردار پر خُوب لکھا۔ ویسے یہ کردارہرگلی محلے میں موجود نظر آتا ہے۔ 

اقصیٰ منور ملک کی ’’آگہی‘‘ میں، کہانی کہانی میں ایک شرعی فرض یعنی زکوٰۃ کی ادائی کو بڑی عُمدگی سے اجاگر کیا گیا۔ نرجس مختار کے خط کے جواب میں آپ نے صحیح لکھا کہ ساس کا امیج آج بھی اچھا نہیں اور ہمیں اِن معاملات کو ہمیشہ مجموعی تناظر ہی میں دیکھنا چاہیے۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)

گوشہ برقی خطوط

* کیا مَیں کوئی مختصر سی کہانی لکھ کر بھیج سکتا ہوں، ’’ڈائجسٹ‘‘ کے لیے؟ (احسن خان)

ج: اِس بات کا فیصلہ تو آپ کو خُود کرنا ہوگا۔ ہماری ذمّےداری اُس کے بعد (اشاعت و عدم اشاعت کے فیصلے کے ضمن میں) شروع ہوتی ہے۔

* مولانا زبیر احمد صدیقی وراثت کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے شان دار مضمون کے ساتھ نظر آئے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شیخ احمد یاسین کے حوالے سے بھی مضمون خاصا تحقیقی رہا۔ 

ماحولیاتی بحران اور دینی تعلیمات کےموضوع پررابعہ فاطمہ نے اچھی آگاہی دی۔ ذوالفقارچیمہ کی کہانی، ان کی زبانی کا سلسلہ بہت عُمدہ ہے اور اس سے بہت کچھ سیکھنے کوملا۔ خطوط بھی تمام ہی دل چسپ رہے۔ جریدے کی ترقی کے لیے دُعاگو ہوں۔ (دانیال حسن چغتائی، لودھراں)

ج: بےحد شکریہ۔

* یاسر عرفات حیات تھے تو پاکستان میں اُن کو آزادیٔ فلسطین کا ہیرو قرار دیا جاتا، حالاں کہ ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی نسبت بھارت کے زیادہ قریب تھے۔ اتنے قریب کہ آنجہانی اندرا گاندھی کو اپنی بہن قرار دے رکھا تھا۔ منیراحمد خلیلی سےمیرا سوال ہے کہ کیا وہ کوئی مُستند حوالہ پیش کرسکتے ہیں، جس سے ثابت ہو کہ یاسرعرفات بھارتی کشمیریوں کے بڑے حامی تھے یا انہوں نے کبھی کشمیریوں کے حق میں بیانات دیے؟

منور مرزا نے یمن کے حوثیوں سے متعلق ٹھیک اندازہ لگایاتھا کہ اب اُن کی باری ہے۔ یہ فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کی آڑ میں بحری قذاقی کا دھندا کرتےہیں اور ان کی وجہ سے پاکستان براہِ راست متاثر ہورہا ہے۔ ان ہی کے سبب بہت سے بحری جہاز ریڈ سی چھوڑ کرلمبا چکر کاٹ کے افریقا سائیڈ پر واقع Cape of Good Hope سے گزرنے لگے ہیں۔ 

نیز، دسمبر2023 ء میں ان حوثیوں نے کراچی جانے والے ایک بحری جہاز پر ناکام حملہ بھی کیا۔ منور مرزا نے فیک نیوز پر بھی شان دار مضمون لکھا، مگر اِن کے خاتمے کے لیےجو پیکا قانون متعارف ہوا ہے، اُس نے بھی ایک سنگین مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ پہلے لوگ غلط بولنےسےنہیں ڈرتےتھے،اب درست بات کرتے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں ’’پیکا‘‘ کی زد میں نہ آجائیں۔ (محمد کاشف، نیو کراچی، کراچی)

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk