پاکستان کی تاریخ کئی عظیم شخصیات کی قُربانیوں اور خدمات سے مزیّن ہے، لیکن اگر تحریکِ پاکستان کے فوراً بعد اُبھر کر سامنے آنے والے قائدین کی بات کی جائے، تو اُن میں لیاقت علی خان سب سے نمایاں ہیں۔ قائدِاعظم کے دستِ راست، شفیق رہنما اور پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم کی حیثیت سے انہوں نے نہ صرف نوزائیدہ ریاست کے ابتدائی مسائل حل کرنے کی کوشش کی، بلکہ پاکستان کے نظریاتی و آئینی ڈھانچے کو بھی واضح سمت دی۔ اُن کی زندگی سادگی، اصول پسندی اور خدمتِ وطن کی روشن مثال ہے۔
لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1895ء کو ہندوستان کے ضلع، کرنال کے ایک معزّز زمین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، نواب رُستم علی خان اور والدہ، محمودہ بیگم تعلیم دوست اور بااثر شخصیات تھیں۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد انہوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں سے بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔
بعدازاں، اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے اور اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے قانون کی تعلیم مکمل کی۔ 1922ء میں بیرسٹر بنے اور ہندوستان واپس آکر عملی سیاست کا آغاز کیا۔ لیاقت علی خان 1926ء میں اُتر پردیش سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئےاورجلد ہی اپنی دیانت داری، شرافت اور فہم وفراست کی بدولت ہندوستان کی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔
گرچہ لیاقت علی خان ابتدا میں کانگریس سے وابستہ تھے، لیکن جلد ہی انہوں نے مسلمانوں کے مسائل اورمستقبل کےحوالے سے کانگریسی پالیسیز سے شدید اختلاف کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ مسلم لیگ میں شمولیت اُن کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوئی، کیوں کہ یہاں اُن کی ملاقات قائدِاعظم محمد علی جناحؒ سے ہوئی اور پھر دونوں کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہوا کہ جس نے تحریکِ پاکستان کی کام یابی میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔
قائدِ اعظمؒ نے لیاقت علی خان کو نہ صرف اپنا قریبی ساتھی بنایا، بلکہ اپنی جماعت میں تنظیمی ذمّے داریاں بھی دیں۔ نتیجتاً، 1936ء میں وہ مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کے رُکن منتخب ہوئے اور بعدازاں مرکزی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کے طور پر نمایاں کردار ادا کیا۔ تحریکِ پاکستان کے دوران ان کی تقاریر اور قائدِاعظم کے ساتھ عملی جدوجہد نے برِصغیر کے مسلمانوں میں نئی رُوح پھونک دی۔
قیامِ پاکستان کے بعد اُنہیں متّفقہ طور پر مُلک کا پہلا وزیرِاعظم مقرّر کیاگیا۔ اُس وقت پاکستان کو ایک نوزائیدہ ریاست کے طور پر نہ صرف مالی مشکلات کا سامنا تھا، بلکہ مہاجرین کی آبادکاری، انتظامی ڈھانچے کی تشکیل اور دفاعی ضروریات جیسے بڑے مسائل بھی درپیش تھے۔ لیاقت علی خان نے اَن تھک محنت اور اخلاص کے ساتھ ان مسائل کو سُلجھانے کی کوشش کی۔
ان ہی کے دَورِ حکومت میں مارچ 1949ء میں قراردادِ مقاصد پیش کی گئی، جس نے پاکستان کے نظریاتی تشخّص کو آئینی بنیاد فراہم کی۔ معیشت کے میدان میں انہوں نے مالی مشکلات کے باوجود کفایت شعاری اور اصلاحات پر زور دیا، جب کہ خارجہ پالیسی کے شُعبے میں امریکا اور مغربی ممالک سے تعلقات کو فروغ دیا۔
لیاقت علی خان نے 1950ء میں امریکا کا دورہ کیا اور وہاں پاکستان کا مؤقف بھرپور انداز سے پیش کیا۔ اُن کا یہ دورہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت طے کرنے میں اہم ثابت ہوا، البتہ انہوں نے سوویت یونین کی طرف سے دی جانے والی دعوت مسترد کردی، جس پر اُنہیں بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن ان کا مؤقف یہی تھا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر اپنی آزادی و خودمختاری ہرصُورت مقدّم رکھنی چاہیے۔
لیاقت علی خان کی شرافت اور اخلاص کے باعث ہی اُنہیں ’’شہیدِ ملت‘‘ کا لقب دیا گیا۔ 16 اکتوبر 1951ء کو راول پنڈی کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے سے خطاب کے دوران اُنہیں شہید کر دیا گیا اور یوں پاکستان ایک عظیم رہنما سے محروم ہوگیا۔
نیز، یہی سانحہ مُلک میں سیاسی عدم استحکام کے دَور کی ابتدا ثابت ہوا۔ یاد رہے، لیاقت علی خان، قائدِ اعظمؒ کے بعد وہ واحد رہنما تھے کہ جو مُلک کو استحکام اور واضح سمت دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ آج بھی لیاقت علی خان کو پاکستان کی تاریخ میں ایک بے لوث، مخلص اورعظیم قائد کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اُن کی خدمات آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہیں گی۔
(یومِ شہادت 16 اکتوبر)
خیّام ُ الپاک ظفر محمّد خان ظفرؔ
سَر ہمارا شرم سے شرم سار اَب بھی ہے
دل تُمہارے سوگ میں سوگ وار اَب بھی ہے
بےپناہ پیار سے تُم نے جو لگایا تھا
اُس شجر پہ خیر سے برگ و بار اَب بھی ہے
تُم نے اپنے خون سے جس کی آب یاری کی
سر زمینِ پاک وہ لالہ زار اَب بھی ہے
دِل تمہارے نام پر صد ہزار جان سے
جاں نثار جب بھی تھا، جاں نثار اَب بھی ہے
کب تمہارے قتل کا حل مُعَمّا ہو سکا
انتظار جب بھی تھا، انتظار اَب بھی ہے
اے غمِ شہیدِ قوم! جامۂ قرارِ جاں
تار تار جب بھی تھا، تار تار اَب بھی ہے
کہہ رہا ہے سچ ظفرؔ، قوم کا ہر ایک فرد
اشک بار جب بھی تھا، اشک بار اَب بھی ہے