ظہورالحسن بھوپالی سے ہمارے تعلّقات اُن کے ایم پی اے بننےسے پہلے قائم ہو چُکے تھے۔ جب ہم انجمنِ طلبۂ اسلام میں سرگرمِ عمل تھے، تو وہ مختلف امورکی انجام دہی کےلیے نہ صرف ہماری رہنمائی کیا کرتے ، بلکہ متعلقہ افراد سے ہمارے رابطے بھی کروا دیا کرتے تھے۔
علاوہ ازیں، روزنامہ جنگ سے وابستہ ہونے کےسبب اخبار میں خبروں کی اشاعت کے ضمن میں بھی خاصے ممّد و معاون ثابت ہوتے۔ اُنہوں نے 1970ء میں جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر لائنز ایریا سے، جو اَب اُنہی کے نام سے منسوب ہونے کے سبب ’’گُلشنِ ظہور‘‘ کہلاتا ہے، الیکشن لڑا اور واضح برتری کے ساتھ کام یابی حاصل کی۔
ظہور الحسن بھوپالی صحافی و سیاست دان ہونے کے علاوہ ایک بہترین مقرّر بھی تھے اور مذہبی موضوعات سمیت کسی بھی موضوع پر نہایت عُمدہ، لاجواب گفتگو کیا کرتے۔ علاوہ ازیں، وہ ایک بہت اچّھے لکھاری بھی تھے اور اِس کا اندازہ ان کی تحاریر، تیار کردہ خبروں، قراردادوں اور اعلامیوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر جب اُس وقت کے بڑے بڑے سیاسی رہنما اجلاس کے لیے جمع ہوتے یا نواب زادہ نصراللہ خان کی سربراہی میں کوئی اجلاس ہوتا، تو اگر مولانا شاہ احمد نورانیؒ کے ساتھ ظہور الحسن بھوپالی بھی شریک ہوتے، تو تمام سیاسی رہنما یہ سوچ کر مطمئن ہوجاتے کہ وہ اس اجلاس کی بہترین خبربنائیں گے اور بہترین قرارداد بھی منظوری کے لیے پیش کریں گے۔
ظہور الحسن بھوپالی نے دینی تعلیم شیخ الحدیث، علّامہ عبد المصطفیٰ الازہری، جو اُس وقت جامع مسجد جٹ لائن کے خطیب تھے، اور اپنے والدِ بزرگوار، مولانا وہاج الدّین چشتیؒ سے حاصل کی تھی۔ وہ 1970ء کے عام انتخابات میں سندھ اسمبلی کی نشست پر کام یاب ہوئے۔ سندھ اسمبلی میں اُن کے رفقاء میں قائدِحزبِ اختلاف پروفیسر شاہ فرید الحق، مولانا محمد حسن حقّانی، الحاج زاہد علی صدّیقی، مُنیر احمد آرائیں اور مُفتی محمد حسین قادری جیسے سیاست دان شامل تھے۔
ظہور الحسن اسمبلی میں ایک شُعلہ بیاں مقرّر کے طور پر مشہور تھے اور اپنی تقاریرمیں اکثروزرا ءکے خُوب لتّے لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ اسمبلی کا سیشن شروع ہونے پر وزراء تنہائی میں آکر سندھ کے روایتی انداز میں ہاتھ جوڑ کر اُن سے درخواست کرتے کہ ’’بھائی! ہم پرذراہلکا ہاتھ رکھنا۔ ہماری کلاس نہ لینا۔‘‘وہ عوامی مسائل سے کماحقہ واقفیت رکھتے تھے اور ایک اچّھا مقرّر ہونے کے ناتے اسمبلی کے فلور پر شہریوں کے مسائل کو احسن طریقے سے پیش کرتے۔ علاوہ ازیں، اللہ تعالیٰ نے اُنہیں سوال اُٹھانے کی جرأت بھی عطا کی تھی۔
وہ کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی گورننگ باڈی کے رُکن بھی تھے اور اس دوران اللہ تعالیٰ نے اُنہیں گلشنِ اقبال، بلاک 5 میں مسجد و مدرسے کے لیے ایک بڑی جگہ الاٹ کروانے کی سعادت نصیب فرمائی، جہاں آج مدنی مسجد اور اس سے متّصل مدرسہ انوار القرآن قائم ہیں۔
اسی طرح فیڈرل بی ایریا میں واقع دارالعلوم نعیمیہ کے لیے اراضی بھی ظہور الحسن بھوپالی ہی نے الاٹ کروائی۔ نیز، نارتھ ناظم آباد بلاک، این میں واقع جامعہ رضویہ شمس العلوم کے لیے زمین کی الاٹمنٹ بھی انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جب کہ انہوں نے دارالعلوم حامدیہ رضویہ کےلیے یونی ورسٹی روڈ پرکئی ایکڑ زمین بھی الاٹ کروائی۔
ظہو ر الحسن بھوپالی 1974ء کی تحریکِ ختمِ نبوّتؐ میں بھی خاصے سرگرم رہے۔ اس موقعے پر وہ نہ صرف جمعیت علمائے پاکستان کے رہنمائوں اور کارکنوں کو رہنمائی فراہم کرتے، بلکہ اس تحریک کے دوران جیل جانے والے افراد کے اہلِ خانہ کی خدمت بھی اُن کا شِعار تھا۔ اسی طرح 1977ء میں چلائی گئی تحریکِ نظامِ مصطفیٰ ﷺ کےدوران بھی انہوں نے عظیم الشّان خدمات سرانجام دیں۔ 1977ء کے عام انتخابات کے موقعے پر جب غُلام مصطفی جتوئی وزیرِاعلیٰ تھے، تو انہوں نے جے یو آئی کے وفد کو وزیرِ اعلیٰ ہاؤس ملاقات کے لیے طلب کیا۔
ہماری یادداشت کے مطابق اس وفد میں ہمارے علاوہ ظہورالحسن بھوپالی، پروفیسر شاہ فرید الحق اور مولانا محمد حسن حقّانی شامل تھے۔ ملاقات کے دوران غلام مصطفیٰ جتوئی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’’پی این اے نے آپ کے ساتھ اچّھا سلوک نہیں کیا۔ قومی اسمبلی کی جن تین نشستوں کا آپ سے وعدہ کیا گیا تھا (شاہ فرید الحق، حقّانی صاحب اور ہمارے لیے)، وہ تینوں آپ نہیں جیت سکیں گے، کیوں کہ 11نشستیں کراچی کی ہیں اور ان میں سے9 پیپلز پارٹی اور 2 پی این اے جیتےگی۔
اس پربھوپالی صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ ’’میری بات بھی آپ لکھ لیں کہ 9 نشستیں پی این اے اور 2 پیپلز پارٹی جیتےگی۔‘‘ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اس الیکشن میں قومی کی تین نشستوں پر شاہ فرید الحق، مولانا حسن حقانی اور ہم نے کام یابی حاصل کی۔ ہم تینوں نے انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے حلف نہیں اُٹھایا اور صوبائی اسمبلی کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے میں بنیادی کردار مولانا شاہ احمد نورانی اور ظہورالحسن بھوپالی نے ادا کیا، جب کہ پی این اے کی تحریک میں بھی بھوپالی صاحب کا اہم کردار تھا۔
ظہورالحسن بھوپالی نے 1974ء اور 1977ء کی تحاریک کے حوالے سے اپنے رسالے، ’’اُفق‘‘ کےخصوصی نمبرز بھی شائع کیے، جب کہ مولانا شاہ احمد نورانیؒ کی والدہ کے حوالے سے لکھا گیا اُن کا مضمون مامتا کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ آج بھی اس مضمون کوپڑھا جائے، تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ظہور الحسن بھوپالی، سیّدِنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے تھے، جنہیں13ستمبر 1982ء کو ایک سیاسی جماعت کے عسکری ونگ نے بڑی بےدردی سے شہید کردیا۔
شہادت کے وقت بھی وہ عوام النّاس کے مسائل سُن رہے تھے اور اُن کے حل کے سلسلے میں افسرانِ بالا سے گفتگو میں مصروف تھے۔ اُس وقت وہ سابق سینئر بیوروکریٹ، سلمان فاروقی سے محوِ گفتگو تھے۔ اِس ضمن میں سلمان فاروقی نے ہمیں بتایا کہ ’’وہ ٹیلی فون پر کسی غریب کارکن کے مسئلے پر بات کررہے تھے کہ اچانک گولیاں چلنے کی آواز آئی اور پھر ریسیور اُن کے ہاتھ سےگرگیا اور اس کے تھوڑی دیر بعد اُنہیں اطلاع ملی کہ ظہورالحسن بھوپالی کو شہید کردیا گیا ہے۔‘‘ کراچی کے مشہور روزنامے کے فوٹو گرافر، مجیب الرحمٰن بھی، جو کراچی فوٹوگرافرز ایسوسی ایشن کے صدر رہ چُکے ہیں، اُس وقت وہاں موجود تھے۔ اورانہوں نے اُس وقت بھوپالی صاحب کی شہادت اور جائے وقوع کی تصاویر بھی کھینچی تھیں۔
فائرنگ کے واقعے کے چند لمحوں بعد ہی ہمیں فون پر اطلاع موصول ہوئی کہ اُنہیں گولیاں مارکرشہید کردیا گیا ہے۔ ہم فوراً اُن کے گھر پہنچے، تو پتا چلا کہ اُنہیں جناح اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔اسپتال پہنچے، تو پتاچلا کہ بھوپالی صاحب شہید ہوچُکے ہیں۔ بعدازاں، جس ایمبولینس میں اُن کے جسدِ خاکی کو اسپتال سے گھر لایا گیا، اُس میں ہم بھی موجود تھے۔ غُسل کے وقت بھی اُن کے جسم سے خُون بہہ رہا تھا۔
اس موقعے پر ہمیں مُفتی عبد السّبحان قادری نے اپنی علمی و رُوحانی بصیرت کی روشنی میں بتایا کہ بھوپالی صاحب واقعی شہادت کے درجے پر فائزہوچُکے ہیں۔ بھوپالی صاحب کی نمازِ جنازہ بنیادی مسجد کے سامنے ایم اے جناح روڈ پر ادا کی گئی۔ اس موقعے پر عوام کاایک جمِ غفیر موجود تھا۔ کارکنان ایک دوسرے سےلپٹ لپٹ کررورہے تھے۔ مسجد کے عقب میں بھوپالی صاحب کی تدفین کی گئی۔ یہ علاقہ شہر کی کچّی آبادیوں میں شمار ہوتا تھا۔ بھوپالی صاحب ہی نے اس کچّی آبادی کو پینتالیس گز کے مکانات میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا، جس سے اس علاقے کی مالیت میں کئی گنا اضافہ ہُوا۔
بعدازاں،ایک روزہمیں اطلاع ملی کہ صوبۂ سرحد(موجودہ خیبرپختون خوا) کے گورنر اور سابق سینیٹر، فدا محمّد خان بھوپالی صاحب کی شہادت پر تعزیّت کے لیے کراچی آرہے ہیں۔ اُن کے ساتھ مسلم لیگ، کراچی کےایک رہنما ہارون احمد بھی تھے۔ فاتحہ خوانی کے بعد ہارون احمد نے دریافت کیا کہ ’’حاجی صاحب! کیا یہ چھوٹا سا گھر بھوپالی صاحب کا ہے ؟‘‘
تو ہم نے بتایا۔ ’’یہ بھی اُن کا ذاتی نہیں، کرائے کا ہے۔‘‘ اس پرانہوں نے فوراً بلند آواز میں اللہ سےمعافی مانگی اور کہا کہ ’’مَیں تو سمجھتا تھا کہ بھوپالی صاحب نے بڑا پیسا بنایا ہوگا۔ بڑے بڑے پلاٹ اُن کے نام ہوں گے۔ مُجھے افسوس ہے کہ مَیں اپنی اس بدگُمانی کو لوگوں میں بھی پھیلاتا رہا، جس کا مُجھے بہت دُکھ ہے۔ اللہ تعالی مُجھے معاف کرے۔‘‘
ہم نے شہید بھوپالی صاحب جیسا غریب پرور انسان اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔ جب ہم کراچی میں جمعیت علمائے پاکستان کے جنرل سیکریٹری تھے، تو اکثروبیش تر اُن سے ملاقات رہتی۔ اُن کی گفتگو میں محبت، چاشنی اور درد ہی درد ہوتا تھا۔ ایک دن اُن سے ملنے گیا، تو اسی اثناء دیگر لوگ بھی آگئے۔ اُنہوں نے اُن لوگوں سے کہا کہ ’’آپ انتظار کریں۔ مَیں ذرا حاجی صاحب سے بات کرلوں۔‘‘ پھر ہم سے کہا کہ ’’مُجھے بہ حیثیتِ ایم پی اے اور ممبر گورننگ باڈی، کے ڈی اے سے غریب کارکنان کو دینے کے لیے400 پلاٹ ملے ہیں۔
آپ ایسے غریب کارکنان جمع کریں کہ جن کے پاس ذاتی گھر نہیں ہے۔ مَیں کے ڈی اے کا عملہ بُلا لوں گا۔ ہاتھ کے ہاتھ فارم مل جائیں گےاورانتہائی کم پیسوں میں اُنہیں نیو کراچی میں پلاٹ الاٹ کر دیے جائیں گے۔‘‘ بعدازاں، یہ چار سو پلاٹ کارکنان کو الاٹ کردیےگئے۔
کچھ عرصے بعد ہمیں کے ڈی اے کے افسران نے بتایا کہ ’’کے ڈی اے نے گورننگ باڈی کے جن دیگر ارکان کو پلاٹ تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے، وہ کسی اور کام میں لے لیے گئے، جب کہ زیادہ ترنے وہ پلاٹ فروخت کر دیے، مگر صرف ظہورالحسن بھوپالی نے یہ پلاٹ کارکنان میں تقسیم کیے۔‘‘ (مضمون نگار ، سرپرستِ اعلیٰ، المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی اور سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم ہیں)