• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلا کلام’’ الحمرا‘‘ کی سیڑھیوں پر پڑھا، اداسی کو بڑی نعمت سمجھتا ہوں۔
پہلا کلام’’ الحمرا‘‘ کی سیڑھیوں پر پڑھا، اداسی کو بڑی نعمت سمجھتا ہوں۔

رحمان فارس اُردو ادب کی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ اُن کی بیش تر شاعری غزلیں، نظمیں رومانیت میں گندھی، جذبات و احساسات سے لب ریز ہوتی ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ نوجوان نسل کے آئیڈیل شاعر ہیں۔ اُنھوں نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ایروناٹیکل انجینئرنگ سے کیا اور پھر26 سال کی عُمر میں سی ایس ایس کرنے کے بعد بیوروکریسی کی دنیا میں قدم رکھ دیا، لیکن بچپن ہی سے علم و ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے، جس کا سحر آج بھی طاری ہے۔ 

پاکستان ہو یا بیرون مُلک، شاید ہی کوئی اہم مشاعرہ ہو، جہاں اُنہوں نے اپنے کلام کا جادو نہ جگایا ہو۔ گزشتہ دنوں اُن سے خصوصی بات چیت ہوئی، جس میں اُنہوں نے اپنی زندگی کے کئی دل چسپ تجربات و واقعات جنگ،’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کے لیے شیئر کیے۔

س: سب سے پہلے تو اپنی ابتدائی زندگی سے متعلق کچھ بتائیے؟

ج: بات یہ ہے صاحبو کہ بچپن، لڑکپن جیسا سب کا گزرتا ہے، ویسا ہی ہمارا گزرا۔ پنجاب کے ایک مُنے، مگر مَن موہنے شہر، بورے والا میں آنکھ کھولی، تو آنکھ کُھلی کی کُھلی رہ گئی، کیوں کہ جہانِ آب و گِل کے ساتھ پہلا مکالمہ حیرت کا تھا۔ بقول فراز’’وہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی مِری۔‘‘ بچپن ہی سے امّاں، ابّا نے گھریلو ماحول کچھ ایسا بنایا کہ گھر میں ہر سُو کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ 

ابّو ہمارے ٹھہرے لائبریرین، سو کتابیں ایشو ہو کر آتیں اور ہر پندرھواڑے مکتب کو لَوٹانا پڑتیں یا مُدّتِ مطالعہ میں اضافہ کروانا پڑتا۔ اب اِس محدود مُدّت اور اِنی گنی مہلت نے کتاب کو سرِورق سے آخری وَرق تک چاٹ ڈالنے کا ایسا ہُڑکا بچپن ہی سے ہم میں پیدا کردیا کہ جس کی لمبان، چوڑان وقت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ ٹھیک سے یاد نہیں پڑتا، مگر’’وُدرِنگ ہائیٹس”،’’رابنسن کروسو“، ’’وار اینڈ پیس‘‘ وغیرہ کے تراجم اور دیگر روسی و فارسی ادب ہم لڑکپن میں چاٹ چُکے تھے۔ 

ماقبل مدرسہ، ہم ایک اُستانی کے ہاں بھیجے گئے، لیکن ناحق پِیٹے جانے کی وجہ سے امّاں نے ہمیں اُن محترمہ کے پاس سے جَلد ہی اُٹھوا لیا۔ اسکول کا آغاز ہوا۔ گورنمنٹ بی ٹی ایم ہائی اسکول، بورے والا ہماری پہلی مادرِ علمی تھی، جس کے شام و سحر، در و دیوار، رنگ و روغن، صُوت و صدا آج بھی حافظے کی لَوح پر نقش ہیں۔ ہم پانچویں یا شاید چَھٹی جماعت تک اُدھر رہے اور پھر ابّا کی ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب سُدھار لیے۔

س: بچپن میں کیسے تھے، شرارتی یا سنجیدہ؟

ج: سچ پوچھیے، تو شروع دن ہی سے ہم بہت خاموش طبع، ازحد شرمیلے اور اپنی ہی موج میں مست رہنے والے تھے۔ مہمانوں کے سامنے لے جانے اور اُن سے تعارف کروانے کے لیے ہمارے ساتھ زبردستی کرنی پڑتی تھی۔ خلوت، محفل سے زیادہ، خاموشی، شور سے زیادہ اور عدم، شاید وجود سے زیادہ پسند تھا۔ 

شرارتیں اگر تھیں بھی، تو معصومانہ، بے ضرر اور سیدھی سادی، مثلاً یہی کہ مُحلّے میں کسی کا دروازہ کھٹکھٹا کر بھاگ گئے یا کسی راہ گیر پر چھت سے پانی کا غبارا پھوڑ دیا۔ پتنگ وغیرہ ہمیں آج تک اُڑانی نہیں آئی۔ والدین کی تبھی کی تربیت کا اثر ہے کہ بحمدللہ، ہم نے آج تک سگریٹ کو ہونٹوں سے کیا، ہاتھوں تک سے بھی چُھوا، نہ تاش کے پتّے چھانٹے، بانٹے اور نہ ہی کسی ایسے دیگر غیر ضروری عمل میں پڑے۔

میرے عظیم والدین
میرے عظیم والدین

س: گھر کا ماحول کیسا تھا، والدین کیا کرتے تھے؟

ج: جیسا کہ پہلے عرض کیا، ابّا ہمارے لائبریرین تھے۔ والدہ اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ کچھ کچھ کھٹا میٹھا سا، سہج سہج یاد پڑتا ہے کہ تین، چار سال کی عُمر میں ہمیں گود میں اُچھال، تانگے پر بٹھال، ساتھ اسکول لے جاتیں، جہاں ہم نہم دہم کی لڑکیوں کے سپُرد ہوجاتے۔ 

گمان غالب ہے کہ شاعر کی ستائشِ جمالیات کا ابتدائی خمیر انہی جلترنگ کھلکھلاہٹوں، خمار آور خوش بوؤں اور رسیلے رنگوں سے اُٹھا ہے۔ یہ ضرور ہوا کہ امّاں ابّا کے کتب اور تدریس سے منسلک ہونے کے باعث ہماری تعلیم شروع ہی سے باذنِ ربّ بہت اعلیٰ معیار کی رہی۔

س: کیا بننا چاہتے تھے؟

ج: پہلی خواہش پائلٹ بننے کی تھی، شاید یہ کسی حسرتِ پرواز کا اثر تھا۔ یہ خواہش اِس قدر ضرور پوری ہوئی کہ بعد میں پاکستان ایئر فورس اکیڈمی، رسال پور سے ایروناٹیکل انجینئر بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ رہی زمان و مکان سے پرے اُڑان کی بات، تو وہ شعری تخیّل نے پوری کردی، الحمد للہ۔

س: ادب سے لگاؤ کیسے ہوا؟ کس عُمر سے شعر کہنا شروع کیے؟

ج: مطالعے کے شوق نے نثر کی ناؤ کھیتے کھیتے شاعری کے پُراسرار سبز جزیرے پر لا کھڑا کیا۔ میر و غالب، مومن و مصحفی، داغ و ذوق، فراق و جگر، ناصر و فراز، زہرا و پروین، تابش و شکیل سے شناسائی، نیز دوستی ہوئی۔ یہ سب نام اور ان کے علاوہ بہت سے، ہمیں بے حد پسند تھے۔ 

شروع ہی سے ہمیں توازن، تناسب، ردھم اور بیلنس بہت بھاتا تھا، چاہے وہ سُروں میں ہو، رنگوں میں ہو، لفظوں میں ہو یا خدّوخال میں۔ ردھم اور تلازمے کی یہی محبّت ہمیں کھینچ کھانچ کر دربارِ سخن میں شعر کی دیوی کے آگے لے گئی۔ اُس کے سامنے کیا بیٹھے کہ آج تک وہیں بیٹھے ہیں۔

س: پہلا شعر کب کہا اور کیا کیفیت تھی؟

ج: تُک بندی تو تبھی سے شروع کردی تھی، جب خدا کی بندیاں لڑکپن میں شعر گوئی کی تحریک بنا کرتی تھیں۔ گھر کے قریب کہیں ایک چکّی تھی، جہاں آٹا پِسوانے جاتے تھے۔ چکّی کی مالکن افغانی تھیں شاید۔ 

اُنہی کی لڑکی ہمارے لیے فتنۂ اوّل الزماں بنیں کہ جو ہمارے ہر وزٹ پر پہلے سے زیادہ حَسین دِکھائی، سُنائی دیتی تھیں، سو مبتدی نے پانچویں یا شاید چھٹی جماعت میں مصرعے توڑے، جوڑے کہ؎’’اور بھی پیاری ہوتی جاتی ہو…کس چکّی کا آٹا کھاتی ہو۔‘‘خیر، اُنہیں شعر سُنانے کی نوبت تو کبھی نہ آئی کہ ہم ٹھہرے ازلی شرمیلے۔

س: پہلا باقاعدہ مشاعرہ کب پڑھا؟

ج: لاہور ہی میں’’ ماورا‘‘ والے خالد شریف صاحب، جو بہت شان دار شاعر اور پبلشر ہیں اور شروع کے دنوں ہی سے ہماری اُن سے دوستی تھی، ہمیں الحمرا کی سیڑھیوں پر ہونے والے ایک مشاعرے میں لے گئے۔ وہیں پہلی بار ڈرتے ڈرتے مجمعے کو شعر سُنائے۔ بارِ اوّلیں داد نے جو سُرور دیا، وہ بیان سے باہر تھا۔

س: ایم اے کے بعد سی ایس ایس کرلیا۔ کیا ملازمت کے دَوران بھی شاعری کا سلسلہ جاری رہا؟

ج: بات یُوں ہے کہ پاکستان ایئر فورس اکیڈمی، رسال پور سے ایروناٹیکل انجینئر کی ڈگری لینے کے بعد ہم نے لگ بھگ ڈیڑھ برس کنگ فہد یونی ورسٹی، دہران (سعودی عریبیہ) میں جاب کی۔ ایک نیا ڈیپارٹمنٹ، یعنی ایرو اسپیس ڈیپارٹمنٹ بنایا اور اُسے تَرک کرکے پاکستان آئے اور سی ایس ایس کرلیا۔ اسسٹنٹ کمشنر ہونے سے لے کر آج تک شعرگوئی کا سلسلہ نہیں تھما۔

اہلیہ اور بچیاں
اہلیہ اور بچیاں

س: آپ کے اب تک کتنے شعری مجموعے شایع ہو چُکے ہیں؟

ج: الحمدُللہ تین مجموعے آچُکے ہیں۔ پہلا مجموعہ’’عشق بخیر‘‘ غزلوں، نظموں، رباعیات، منظوم سفرناموں، ہائیکو اور نعت و سلام پر مشتمل تھا، جسے’’پروین شاکر-عکسِ خوش بُو ایوارڈ برائے بہترین شعری مجموعہ‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ اس کی تقاریبِ روُنمائی و پذیرائی امریکا و یورپ میں ہوئیں۔ دوسرا مجموعہ ہسپانوی شاعر، پابلو نرودا کی شہرۂ آفاق کتاب’’ Cien Sonetos De Amor ‘‘کا منظوم ترجمہ تھا، جو’’محبّت کی سو نظمیں‘‘ کے عنوان سے چَھپا۔ 

یہ دونوں مجموعے سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور سے شائع ہوئے۔ حال ہی میں تیسرا مجموعہ’’یاد آباد‘‘ کے نام سے عکس پبلی کیشنز، لاہور سے چَھپا ہے۔ یہ مجموعہ ایک ہی زمین میں72غزلوں پر مشتمل ہے۔ اصغر ندیم سیّد اور عباس تابش سمیت نابغینِ ادب کی رائے ہے کہ یہ اُردو شاعری کی تاریخ میں ایک انوکھا تجربہ ہے کہ ایک ہی زمین میں 72 غزلیں ہیں۔ اِس مجموعے کی تقاریبِ رُونمائی حال ہی میں ہیوسٹن، شکاگو اور ڈیلاس (امریکا) میں منعقد ہوئیں اور جلد ہی اِن شاء اللہ پاکستان کے کئی شہروں میں ہوں گی۔

س: اِس دوران کتنے بین الاقوامی مشاعرے پڑھے اور کِن کِن ممالک میں ؟

ج: مشاعروں کے حوالے سے تو الحمدُللہ، ناچیز کو دُنیا بَھر میں مدعو کیا جاتا ہے۔ ابھی تک ہم اللہ کی عطا سے امریکا، یورپ کے متعدّد ممالک، مشرقِ وُسطیٰ کے بیش تر ممالک، بھارت، بنگلا دیش، چین، تُرکی اور آسٹریلیا کے مشاعروں میں اپنا کلام پیش کرکے سامعین و حاضرین کی کثیر تعداد سے دادِ سخن سے نوازے گئے ہیں۔

س: نوجوان طبقہ آپ کی شاعری سے زیادہ متاثر ہے، شاعری میں رومانی مزاج کیسے آیا؟

ج: بات یُوں ہے کہ ہم دل کی بات کرتے ہیں۔ شاعرانہ ہیر پھیر، مشّاقی، ریاضت، اُستادی، مصرعے کی صفائی، الفاظ کا چُست چُناؤ وغیرہ مل جُل کر بھی تاثیر پیدا نہیں کرسکتے، اگر بات دل سے نہ نکلی ہو۔ تاثیر، سچ سے پیدا ہوتی ہے۔ سچّی سُچّی، سُتھری، سہل، سیدھی اور صاف بات کیجیے۔ 

دل سے نکلے گی اور دِلوں میں اُتر جائے گی۔ نوجوان، جو کثیر تعداد میں ہمارے ساتھ جُڑے ہیں، اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اُردو شاعری کا مستقبل تاب ناک و آب دار ہے۔ رومانی مزاج چوں کہ ہماری فطرت کا ایک لازم جُزو ہے، سو شاعری میں اُس کی جھلک آنا، بلکہ بَھر بَھر کے چھلک آنا بھی لازم تھا۔ یہ ہونا ہی تھا، سو ہوا۔

س: کیا یہ درست ہے کہ دورِ حاضر غزل کا زمانہ نہیں رہا؟ یہ ٹیکنالوجی کی دُنیا ہے۔ اب غزلوں، نظموں میں رومان کا دَور ختم ہوگیا؟

ج: اس سے پہلے کے سوال میں ناچیز نے عرض کیا کہ نوجوانانِ عہدِ حاضر، یعنی نسلِ نَو الحمدُ للہ، ملینز کی تعداد میں ہمیں پڑھتی، سُنتی اور پڑھواتی، سُنواتی ہے، تو کیا یہ کُھلا ثبوت نہیں کہ غزل کی تتلی محفوظ ہاتھوں میں ہے؟ نوجوان نسلیں اس تتلی کے پَر نہیں مسلیں گی، پنکھ نہیں نوچیں گی، حنوط نہیں کریں گی، اُسے زندہ رکھیں گی۔ رہا ٹیکنالوجی کا سوال، تو یقین کیجیے، ہمارے وائرل ہونے میں ٹیکنالوجی کا بھی بہت ہاتھ ہے۔ 

اِدھر سوشل میڈیا پر غزل جَڑی، اُدھر وہ وائرل ہونے کی بڑی بڑی سیڑھیاں چڑھی۔ یہ جو ملینز میں ویوز ہیں، لائکس ہیں، سبسکرائبرز ہیں، یہ عاشقینِ غزالِ غزل نہیں تو اور کیا ہیں؟ کون کہتا ہے کہ اُردو غزل کا زمانہ نہیں رہا؟ اُردو غزل کا جیسا زمانہ آج ہے، ویسا کبھی نہیں رہا۔ 

کروڑوں نوجوان غزل کے اشعار کو اپنا اسٹیٹس بناتے ہیں، ریلز میں پوسٹ کرتے ہیں، گنگناتے پِھرتے ہیں۔ آپ ذرا دیکھیے تو سہی۔ بات یہ ہے کہ ہمارے عمومی قومی مزاج میں جو یاسیت دَر آئی ہے، وہ ہمیں کچھ بھی اچھا دیکھنے نہیں دیتی۔

شادی اریجنڈ تھی، دونوں نے ارینج کی
شادی اریجنڈ تھی، دونوں نے ارینج کی

س: اِس اعتبار سے غزل کا مستقبل کیا ہے؟

ج: اِس سوال کا جواب اتفاق سے پچھلے سوال میں آچُکا ہے۔ غزل یہاں سے اُٹھان، عروج اور کمال ہی کی جانب جائے گی۔ ہر نسل کا مسئلہ، نسلِ نَو سے خائف ہونے کا ہوتا ہے، یہی ارتقا کا چلن ہے۔ غزل کے زوال پر نوحہ کُناں ثقہ نقّاد، وہی ٹولہ ہے، جس کے مفتیانِ کرام اجداد نے پہلے پرنٹنگ پریس کے خلاف فتویٰ جاری کیا، پھر لاؤڈ اسپیکر کو خارج از دائرۂ اسلام گردانا، پھر کیمرے کو کافر و زندیق اور ٹیلی ویژن کو مرتد و فاسق قرار دیا۔ اور اب اس امر کی شدّومد سے مخالفت کررہے ہیں کہ غزل میں نوجوانانِ عصرِ حاضر جدید حسیات کو تنگنائے غزل میں سمونے کی سعی آخر کیوں کررہے ہیں؟ ناچیز کا ماننا ہے کہ تبدل و تنوّع ہی ترویج و ترقّی ہے۔

ہاں سلیقہ و قرینہ برقرار رہنا چاہیے۔ غزل جس ڈھکے چُھپے، ملفوف، محجوب اظہار کی قائل ہے، اُس کو کُھل کھیلتے ہوئے، بلند آہنگ، براہِ راست انداز میں یک سر نہیں بدلا جاسکتا۔ اگر غزل نے یہ مزاج قبول بھی کیا، تو اپنی رضا سے کرے گی اور آہستہ مزاجی سے کرے گی۔عروسِ غزل زور زبردستی کی قائل نہیں۔

س: ہمارا دَور اب احمد ندیم قاسمی، مُنیر نیازی اور احمد فراز جیسے شعراء سے خالی ہوگیا ہے، تو کیا ادب کی سرزمین بنجر ہوگئی ہے؟

ج: دیکھیے، ہر دَور کی اپنی تبدیل شُدہ توانائی اور اُس توانائی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ قاسمی و منیر و فراز کا عہد نہ آئی پیڈ اور آئی فون کی مسلسل بھنبھناہٹ سے پُر تھا، نہ مصنوعی ذہانت یعنی’’اے آئی‘‘ کی ہوش رُبائیت سے لرزاں۔ جب آپ کے چوگرد لمحہ بہ لمحہ بدلاؤ اور پَل پَل تبدیلی آرہی ہو، تو ذہنِ انسانی کیسے اُن سے محفوظ و مامون رہے گا؟ 

سوچنے کی بات یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں جو ارتکاز، توجّہ اور ٹھہراؤ کا فُقدان ہے، وہ کیسی نسل کو جنم دے گا۔ ہم سے قبل کے اذہان جو سکوت میں پلے تھے، وہ عمیق تھے، اب دَور فی الحال اُتھلے پن، سطحیت اور یک ہرتی سُخن کا ہے اور شومیٔ قسمت، یہی’’نیو نارمل‘‘ ہے، لیکن یقین کیجیے کہ اوسط کارکردگی کے اِس دَور میں بھی ایکسیلینس، جس کا ترجمہ مَیں’’شان داریت‘‘ کرتا ہوں، دِکھائی دے جاتی ہے۔ سو، خاطر جمع رکھیے، ہر دَور، گزشتہ ادوار کا مختتم و ناسخ بھی ہوتا ہے اور نئے ادوار کا موجد و فاتح بھی۔

س: اب مشاعروں اور ادبی میلوں کا میدان بھی اُجڑ گیا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟

ج: ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بہت تواتر اور تسلسل کے ساتھ قومی اور بین القوامی سطح پر مشاعرے ہو رہے ہیں۔ اُردو شعر و سخن پر زوال کی باتیں اور نسلِ نَو کی اُردو مشاعرے سے دَوری کی افواہیں، سب غلط اور مَن گھڑت ہیں۔

س: شاعری کے مجموعے تو بہت ہی کم چَھپ رہے ہیں۔ کیا بین الاقوامی سطح پر بھی ایسا ہی ہے؟

ج: دیکھیے، اصل بات یہ ہے کہ کیا شاعری اپنے قاری، سامع یا ناظر تک پہنچ رہی ہے؟ چاہے جس بھی میڈیم سے پہنچے۔ اگر کتاب کا کلچر کم ہورہا ہے، تو وہی کتاب پی ڈی ایف ایڈیشن میں پڑھی جارہی ہے، آن لائن اس کی سافٹ کاپی بِک رہی ہے۔ لاکھوں لوگ اپنی روزانہ کی سیر کے دَوران آڈیو کتابیں سُنتے ہیں۔ 

میرا خیال ہے کہ ہمیں اِس بات پر لایعنی مُصر نہیں ہونا چاہیے کہ کتاب ہارڈ کاپی ہی کے فارمیٹ میں پڑھی جائے۔ تسلیم کہ ہارڈ کاپی کا اپنا ایک رومانس ہے، کاغذ کا لمس، اوراق پلٹنے کی آواز، کتاب کی مہک، اس کا وزن اور صُورت یہ سب کیفیات اپنی جگہ، لیکن اگر شربت کی ترسیل اُسی شدومد سے جاری ہے، تو محض برتن کی قسم اور ساخت پر بھلا کیا ضد…!!

س: زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ زندگی میں جو چاہتے تھے، مِل گیا؟

ج: میری صرف یہ خواہش ہے کہ مَیں اپنی تمام خواہشوں کے پورا کیے جانے پر ربّ ِ کائنات کا مسلسل اور فراواں شُکر ادا کرسکوں۔

س: کوئی کام، جو ادھورا رہ گیا ہو؟

ج: ادھورے پن کا احساس ہی پُورے پن کی دلیل اور پُرباش شخص کی نشانی ہے۔ اگر آپ کو ہر طرف سے تکمیل کی کیفیت مل جائے، تو زندگی موت میں بدل جائے۔ ادھورے پن کی کسک ہی اگلی صبح کے لیے آپ کو تیار کرتی ہے۔ 

میرے بہت سے کام ادھورے ہیں، جن پر مَیں جی جان سے لگا رہتا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ مُنیر کی طرح ایک دریا کے پار اُترتا ہوں، تو ایک اور دریا کا سامنا ہوتا ہے، مگر یہی زندگی ہے اور یہی زندگی کی چاشنی۔

س: کیا دفتری امور شعر و شاعری میں رُکاوٹ کا باعث تو نہیں بنتے؟

ج: مُرتضٰی برلاس نے کیا خُوب فرمایا تھا کہ؎’’دوستوں کے حلقے میں ہم وہ کج مقدر ہیں…افسروں میں شاعر ہیں، شاعروں میں افسر ہیں۔‘‘تو ہمارا بھی ایسا ہی حال ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ناچیز نے دفتر میں اپنے فرائض اور شاعری میں اپنی کیفیت کو ایک دوسرے کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔

س: کتنے بچّے ہیں اور فیملی کو کتنا ٹائم دیتے ہیں؟

ج: خدائے جمیل و کریم نے مجھے تین مہکتی، لہکتی اور چمکتی دمکتی کلیوں سے نواز رکھا ہے۔ یہ تتلی نُما تین بیٹیاں میرے لیے زندگی کا حوصلہ بھی ہیں، میرا فخر و مان بھی۔ ایک بیٹی میرے چھوٹے بھائی حسنین حیدر کی ہے اور ایک چھوٹے بھائی لہسب شاف کی اور ان دونوں غُنچوں کو بھی مَیں دل و جان سے اپنی ہی بیٹیاں سمجھتا ہوں۔ 

میری شریکِ حیات، شہربانو ماشاء اللہ فائن آرٹس میں ماسٹرز ڈگری رکھتی ہیں۔ بے مثال Painter ہیں۔ جمالیات کے خالق خدا نے اُنہیں بے حد حَسین و جمیل بنایا ہے اور ساتھ میں حددرجہ سلیقہ مندی بھی عطا کی ہے۔

س: ایک دُعا، جو اکثر آپ کے لبوں پر رہتی ہو؟

ج: یہی کہ مجھے اور میرے تمام محبّتی لوگوں کو خیریت، عافیت، صحت، مہلت، سہولت اور کیفیت عطا ہو اور فروانی و تسلسل سے عطا ہو۔

س: شادی اریجنڈ تھی یا اپنی پسند سے کی؟

ج: اس کا جواب میں استاد کے لفظوں میں، یعنی بزبانِ یوسفی دوں گا کہ’’ ہماری شادی ارینجڈ تھی۔ ہم دونوں نے ارینج کی تھی۔‘‘

س: جب اداس ہوتے ہیں، تو شاعری کرتے ہیں یہ یا کچھ اور؟

ج: مَیں اداسی کو نعمت گردانتا ہوں۔ شاعری میری اداسی کی وجہ بھی ہے اور اس کی دوا بھی۔ اداسی سے زیادہ تخلیقی کیفیت شاید ہی کوئی ہو۔ بس آپ کو اِس نعمت کو مکمل اور مسلسل بسر کرنا آنا چاہیے۔

س: آپ کی زندگی کا نچوڑ کیا ہے؟

ج: میرا ایک شعر ہے؎’’کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی…کہ لوگ رونے لگے، تالیاں بجاتے ہوئے۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید