وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری نے کہا ہے کہ کسی’نیازی لاء‘یا ذاتی قانون کا تصور قبول نہیں کیا جاسکتا ہے، خیبر پختونخوا میں حکومت کو آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق چلایا جانا چاہیے۔
میڈیا سے گفتگو میں طلال چوہدری نے کہا کہ کسی سزا یافتہ شخص کی مشاورت پر حکومتی فیصلے کرنا آئینی طور پر درست نہیں، یہ عمل آئینی بحران پیدا کرے گا۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت یا مشاورت سے کابینہ بنانے کے اعلانات آئین اور عدالتی فیصلوں کے منافی ہیں، موجودہ وفاقی حکومت آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آئین عدالت سے سزا یافتہ یا جیل میں قید شخص کو حکومتی یا انتظامی فیصلوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتا، ماضی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں بھی عدالت عظمیٰ نے ایسا ہی فیصلہ دیا تھا۔
طلال چوہدری نے یہ بھی کہا کہ عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ جیل میں موجود شخص کے فیصلے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہوتی، پی ٹی آئی کا بانی کے فیصلوں کو پارٹی پالیسی قرار دینا خود جماعت کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی کا آئینی ڈھانچہ صرف چیئرمین کے عہدے کو تسلیم کرتا ہے، خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اپنی صوابدید کے مطابق آزادانہ فیصلے کرے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ صوبے میں حکمرانی آئین کے تابع ہوگی یا کسی سزا یافتہ شخص کے اشاروں پر، کسی ’نیازی لاء‘ یا ذاتی قانون کے تصور کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں قانون سب کے لیے برابر ہے، کسی فردِ واحد کو آئین سے بالاترحیثیت نہیں دی جاسکتی، آئینی استحقاق کا احترام کیا جائے اور کسی غیر متعلقہ فرد کے دباؤ میں آکر حکومتی ڈھانچہ تشکیل نہ دیں۔
طلال چوہدری نے کہا کہ وزارتِ داخلہ اور وفاقی حکومت آئینی نظم و ضبط اور ادارہ جاتی استحکام کے لیے ہر ممکن اقدام جاری رکھے گی۔