ایک طویل عرصے بعد ہمارا دوست ناہنجار ہمارے دفتر آن دھمکا۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ اپنے ہی جیسے چند عجیب الخلقتمصاحبین میں گھرا ہوا تھا۔ ایک لفنگا سا لڑکا اور تین تلنگی سی لڑکیاں اس کے ساتھ تھیں جن کا مقصدِ حیات ہی شاید یہی تھا کہ اس کے ہر سیاسی تجزیئے پر حیران پریشان ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھیں اور اشارے کنائے میں دریافت کریں کہ اس جیسا نابغہ روزگار شخص آخر اس آسانی سے پیدا کس طرح ہو گیا، گویا اس کی پیدائش کے مراحل مکمل کرنے کے لئے کم از کم کوئی ایٹمی دھماکہ یا آسمانی آفت ضرور نمودار ہونی چاہئے تھی۔ اس کے فلسفیانہ فرمودات پر تو یہ لوگ باقاعدہ پھڑک ہی اٹھتے اور انگلیاں نچا کر، ناک بھوں چڑھا کر یوں داد دیتے جیسے نوآموز میراثی کسی بڑے گائک کے سروں پر دیتے ہیں۔
ناہنجار کی عبرتناک شخصیت میں ہماری دلچسپی فقط اس حد تک تھی کہ اس کی تمام تر خرافات میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا کہ جس پر ہم لرز اٹھتے۔ آج بھی وہ منحوس ہماری شان میں پے در پے گستاخیاں کرتا چلا جا رہا تھا اور اس کی نہایت پھیکی اور بد ذائقہ جگتوں پر بھی اس کے درباری ہنس ہنس کر بے حال ہو رہے تھے۔ جیو ٹی وی کی نشریات بحال ہونے پر اس نے ہمیں جو مردہ سی مبارکباد پیش کی اس سے یوں لگا جیسے وہ اندر سے بہت دکھی ہے۔
’’کیوں علامہ صاحب، جیو کی چینل ریٹنگ آج کل کہاں تک پہنچی ہے، شدید طنزیہ انداز میں اس نے جب یہی بات ہم سے تقریباً تیسری بار دریافت کی تو ہم نے عرض کیا کہ پچھلے پندرہ دن تو ہم پر بین لگا ہوا تھا، اس لئے ہم سرے سے موجود ہی نہیں تھے مگر اس سے پہلے جب ہم حوادثِ زمانہ کا شکار ہو کر مارے مارے پھرتے تھے اور جب کیبل آپریٹرز کی مبینہ مجبوریوں نے ہمیں سات سے ستر نمبر پر جا پھینکا تھا، ہم اللہ کے فضل و کرم سے تب بھی نمبر ون تھے اور انشاء اللہ عنقریب اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کر لیں گے۔ ہماری یہ بات ناہنجار کو یقیناً ناگوار گزری ہو گی کیونکہ وہ شدید غصے کے عالم میں اپنے ہمراہ آئے لڑکے کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ بیچارہ اٹھ کر کافی فاصلے پر جا بیٹھا کیونکہ اس کا ذاتی تجربہ بتا چکا تھا کہ ناہنجار ایسے حالات میں اسے بلاوجہ ایک آدھ تھپڑ بھی جڑ دیا کرتا ہے۔
ہمارے صدمائی بیان کا بدلہ اس نے تقریباً تین گھنٹے گفتگو کر کے لیا۔ باتیں تو اس نے بیشمار کیں مگر لب لباب کچھ یوں تھا کہ حکومت کے جانے کا امکان اسے دور دور تک دکھائی نہیں دیتا حالانکہ بقول اس کے یہ حکومت بھی پیپلز پارٹی حکومت کی طرح خاصی نا اہل ثابت ہو رہی ہے۔
عمران خان بارے ناہنجار کے تاثرات خاصے دلچسپ تھے۔ کہنے لگا کہ عمران کو نواز مخالف پوشیدہ قوتیں آگے لانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہیں مگر یہ بیچارہ ماسوائے اربن پنجاب کے کہیں بھی کسی جوگا نظر نہیں آتا۔ حتیٰ کہ موصوف کی عدم دلچسپی، ناقص کارکردگی اور چند حالیہ بیانات کے بعد تو تحریک انصاف کا خیبر پختونخوا میں بھی بستر گول ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
ناہنجار کےمصاحبین میں شامل ایک احمق سی لڑکی جو کہ سمجھدار نظر آنے کی انتہائی ناکام کوشش کرتے کرتے اب باقاعدہ تھک چکی تھی کہنے لگی، ’’سر یہ کس حد تک درست ہے کہ بار بار یقین دہانیوں کے باوجود واشنگٹن والے عمران کا اعتبار نہیں کرتے؟‘‘
’’تم واشنگٹن والوں کی بات کرتی ہو، عمران کا اعتبار تو اب اس کے محلے والے بھی نہیں کرتے‘‘، ناہنجار کی اس بیہودہ سی بات پر تمام درباریوں نے دل کھول کر داد تو دی مگر اس بے سروپا بات کی شانِ نزول معلوم کرنے کی جسارت کسی کو نہ ہوئی۔
ناہنجار نے نہایت دکھ بھرے لہجے میں یہ انکشاف کر کے سکتہ طاری کر دیا کہ وہ عنقریب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاکستان کو خیر باد کہنے والا ہے اور اس سلسلے میں اس نے نیروبیؔ میں ایک چھوٹا سا کاروبار بھی شروع کر دیا ہے۔ ہم نے پاکستان پر اس اچانک کرم فرمائی کی وجہ پوچھی تو اس نے ایک بار پھر شدید غصے کے عالم میں اپنے ساتھی کی طرف دیکھا وہ بیچارہ اٹھ کر مزید دور جا بیٹھا۔
’’بات دراصل یہ ہے برخوردار‘‘، ناہنجار نےزہر آلود لہجے میں بولنا شروع کیا۔ ’’پاکستان اب کسی بھی شریف آدمی کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ نالائق حکمرانوں، کرپٹ افسروں، بے حس انسانوں اور مفاد پرست اداروں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس غریب ملک میں یو پی ایس اور جنریٹرز کے استعمال پر روزانہ کتنا سرمایہ صرف ہوتا ہے؟ کیا تم جانتے ہو کہ یہاں امن و امان کی صورتحال کا عالم یہ ہے کہ پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز کی تعداد تقریباً تمہاری فوج کے برابر ہو چکی ہے۔ اب یہاں صرف وہی رہ سکتا ہے جس کے اپنے سکیورٹی گارڈز ہوں اور جو محفوظ کالونیوں میں رہ سکتا ہو۔‘‘
ناہنجار فرط جذبات سے بے حال ہو کر ہانپنے لگا جبکہ اس کے مصاحبین غالباً یہ سوچ رہے تھے کہ عالی مرتبت کو ابھی تک کسی نے نوبل انعام کیوں نہیں دیا۔
ہم نے پوچھا کہ کیا تمہیں چند ماہ تک اپوزیشن کی تحریک چلتی نظر آتی ہے؟ بولا، اب اس ملک میں تحریک کبھی نہیں چلے گی۔ احتجاجی ریلیاں اور مارچ پچھلے پانچ سال میں دس سے زائد ہوئی ہیں مگر تحریک کی شکل نہیں اپنا سکیں۔ وہ تحریک جو بھٹو صاحب نے ایوب خان کے خلاف چلائی یا وہ تحریک جو پی این اے نے بھٹو صاحب کے خلاف چلائی۔ اب بھول جائو ان تحریکوں کو کیونکہ اب یہ معاشرہ پوری طرح تقسیم اور بُری طرح کرپٹ ہو چکا ہے۔ اب اگر کوئی تحریک چلانے کو کہے تو اُسے کہو بھائی کل کے چلاتے آج ہی چلائو۔ طاہر القادری چار لاکھ بندے اکٹھے تو کر سکتا ہو گا مگر تحریک اب اس کے بس کا بھی روگ نہیں۔ عمران پچاس ہزار کاجلسہ یا ریلی دیکھ کر جو آپے سے باہر ہونے لگتا ہے وہ صرف اس کی سیاسی ناپختگی ہے، اور کچھ نہیں۔ باقی بچے گجرات کے چوہدری اور شیخ رشید...یہ بیچارے تو اٹھ کر ٹی وی نہیں چلا سکتے، تحریک انہوں نے کیا چلانی!