• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی، فحاشی وعریانی

زویا نعیم، حافظ آباد

معاشرتی نظام، ایک ایسا نازک تانا بانا ہے، جس کے ہر دھاگے میں تہذیب، اقدار، روایات، اور اخلاقیات کی گہری جھلک پنہاں ہوتی ہے۔ جب اس تانے بانے میں دراڑیں پڑنے لگیں، جب تہذیب کے ستون لرزنے لگیں، جب اقدار پامال ہونے لگیں اور اخلاقی حِس دم توڑنے لگے، تب ایک ایسا دَور شروع ہوتا ہے، جسے ہم ’’بے راہ روی کا عہد‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اور… آج کا معاشرہ اسی گم گشتہ راہ پر چل نکلا ہے، جہاں نہ منزل کا پتا ہے اور نہ رستے کا شعور۔ یہ وہ وقت ہے، جب اجتماعی ضمیر سو رہا ہے اور انفرادی مفاد کی چیخیں ہر طرف گونج رہی ہیں۔

معاشرتی بے راہ روی ایک ایسا ناسور بن چکی ہے، جو رفتہ رفتہ ہرطبقے، ہر عُمر، ہر جنس اور ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ یہ بے راہ روی محض نوجوان نسل کے اخلاقی زوال کا نام نہیں بلکہ ایک اجتماعی بیماری ہے، جس کی جڑیں ہمارے نظامِ تعلیم، خاندانی ساخت، ریاستی پالیسیوں، میڈیا کی لغزشوں اور مذہبی تربیت کی کمی میں پیوست ہیں۔

معاشرہ جب اقدار سے خالی ہوجائے، جب بڑوں کا ادب محض کتابوں کی حد تک محدود رہ جائے، جب والدین مصروفیت کو تربیت پر ترجیح دیں، جب معلمی محض نوکری کا درجہ اختیار کر لے اور جب مسجد، منبر اور محراب بے تاثیر ہوجائیں، تو بے راہ روی کی فصل لہلہانے لگتی ہے۔ تعلیم، جو کسی قوم کی ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے، آج وہ خُود ایک بازار بن چکی ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے محض ڈگریوں کی تقسیم گاہیں ہیں، جہاں تعلیم کا مقصد شعور دینا نہیں بلکہ روزگار پانا بن چُکا ہے۔

طلبہ اخلاق، تہذیب، روایات، برداشت اور ذمے داری جیسے اوصاف سے عاری ہوگئے ہیں۔ علم کے بغیر شعور اور شعور کے بغیر کردار ایک ایسی عمارت ہے، جس کی بنیاد ہی بُھربُھری مٹی پر رکھی گئی ہو۔ گھریلو تربیت، جو کسی بچّے کی پہلی درس گاہ ہوا کرتی تھی، اب وہ موبائل فون اور سوشل میڈیا کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ والدین جو کبھی بچّوں کے اخلاق، کردار، نشست وبرخاست اور گفتگو کے ذمے دار ہوتے تھے، اب ان کی تمام تر توجّہ معاشی دوڑ پر مرکوز ہے۔

ماں، کبھی اولاد کی تعلیم وتربیت کی نگہ بان، محبّت و ممتا کی پہچان ہوتی تھی، آج وقت کی کمی اور سماجی تقاضوں کے باعث محض فرائض نبھانے والی مشین بن کے رہ گئی ہے۔ باپ، خاندان کا بنیادی، سب سے مضبوط ستون، اب محض اخراجات پورے کرنے والا ایک روبوٹ ہے۔

وہ بچّے، جو بڑے بوڑھوں، بزرگوں کی گود میں تربیت پاتے تھے، اب اسکرینز سے تربیت لے رہے ہیں۔ اور جب اسکرین پر تشّدد، فحاشی، مادہ پرستی اور جھوٹ کو سچ کے رُوپ میں پیش کیا جائے، تو نسلیں بے راہ روی کا شکار کیوں نہ ہوں؟ 

میڈیا، جو رائے عامہ ہم وار کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے، آج اپنے اصل مقصد سے ہٹ کر سنسنی خیزی، عریانی و فحاشی، ٹرینڈنگ کے پھیلاؤ اور سب سے پہلے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ ہر طرف ایک ایسا شور برپا ہے، جو انسان کو سوچنے سمجھنے کی مہلت ہی نہیں دیتا۔

فلمیں، ڈرامے، جو کبھی معاشرتی اصلاح کا ذریعہ ہوا کرتے تھے، اب بےحیائی، خاندانی جھگڑوں، مکر و فریب، سازشوں اور خون خرابے کو گلیمرائزڈ کر کے پیش کر رہے ہیں۔ اشتہارات، جو پہلے اشیاء کی ضرورت اُجاگر کرتے تھے، اب عورت کی نمائش تک محیط ہیں۔ اوراِن ہی تمام وجوہ کے سبب ایک ایسا ماحول تیار ہوچُکا ہے، جس میں بے راہ روی کا فروغ فطری محسوس ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا بھی ابتداً لوگوں کوجوڑنے کا ذریعہ تھا، آج جھوٹ، حسد، احساسِ برتری، دکھاوے، نفرت، اورعریانیت کا گڑھ بن چُکا ہے۔ نوجوان نسل گُھٹنوں گُھٹنوں اس دلدل میں دھنسی، حقیقی زندگی سے تو یک سر ناآشنا ہی ہوتی جا رہی ہے۔ ’’ورچوئل دنیا‘‘ کی چکا چوند نے آنکھوں سے حقیقت کا پردہ ہٹا ہی دیا ہے۔ انسانیت، قربانی، صبر، حیا، لحاظ اور وفا جیسے الفاظ تو گویا ان کی لغت ہی سے مٹ گئے ہیں۔

اُن کی ڈکشنری لائیکس، شیئر، فالورز، ویوز اور وائرل ہی کے گرد گھومتی ہے۔ اور جب شہرت کا معیار علم و قابلیت نہیں، اوچھی حرکات ٹھہریں، تو منطقی نتیجہ، معاشرتی بگاڑ ہی کی صورت سامنے آتا ہے۔ پھر دینی تربیت کا فقدان اس بے راہ روی کوسنگین تر کر رہا ہے۔ معاشرے میں دین کو یا تو محض رسم بنا دیا گیا ہے یا انتہا پسندی کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ 

اعتدال، محبت، رواداری، اور اصل تعلیمات کی روشنی بجھ چکی ہے۔ قرآن، جوہدایت کا سرچشمہ ہے، محض تعویذ کے لیے کھولا جاتا ہے۔ نماز، تربیتِ نفس کا ذریعہ ہے، وقت کی کمی کے عذر نے اُسے بھی بس ایک عادت بنا کے رکھ دیا ہے۔ روزہ، صبر سکھاتا ہے، مگر بھوک، پیاس کاٹنے کی ایک رسم بن کے رہ گیا ہے۔ جب دین دل سے نکل کر محض ظاہری نمائش بن جائے، تو رُوح کی تاریکی لازمی ہے۔ اور یہ تاریکی ہی تو بے راہ روی کا سبب بنتی ہے۔

ریاستی سطح پر بھی بے حسی کی ایک چادر سی تنی ہوئی ہے۔ وہ ادارے، جنھیں معاشرتی بگاڑ کے خلاف ڈھال بننا چاہیے تھا، خود بگاڑ کے محافظ بن چُکے ہیں۔ قانون کی گرفت صرف کم زور پر ہے، طاقت وَر کے لیے سب چور دروازے کُھلے ہیں۔ 

حصولِ انصاف ایک خواب بن کے رہ گیا ہے اور جب انصاف خواب بن جائے، تو معاشرہ جرم کا عادی ہو ہی جاتا ہے۔ حکومتیں صرف اقتدار کی جنگ لڑتی ہیں، عوام کی اخلاقی حالت، اُن کی تعلیم و تربیت، سماجی مسائل اُن کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

پورے سماج کو ایک بہتی رو، گویا اُس کےحال پر چھوڑدیا گیا ہے۔ یوں تو بے راہ روی کی وجوہ کثیراور متنوّع ہیں، لیکن ان سب کا مرکز ’’ذمے داری کا فقدان‘‘ ہے۔ ہر فرد، ہر ادارہ، ہر طبقہ اپنی اپنی ذمے داریوں سے غافل ہو چکا ہے۔ جب تک یہ احساس بے دار نہ ہوگا۔ 

ماں پھر سے تعلیم و تربیت کا محورو مرکز نہیں ہوگی، باپ ایک مضبوط و پائے دار ستون کی شکل اختیار نہیں کرے گا، استاد شعور و آگہی کے چراغ نہیں جلائے گا، میڈیا تعمیر و اصلاح کی ڈگر پر رواں دواں نہ ہوگا، ریاست عدل و مساوات کی بنیاد پر استوار نہیں ہوگی اور دین کو دل کا نور، روشنی، رہنمائی کا ذریعہ نہیں بنایا جائے گا، تب تک معاشرتی بے راہ روی کا یہ سیلاب اِسی طرح ہماری اقدار و روایات، تہذیب و ثقافت، اخلاق و کردار بہا لے جاتا رہے گا۔ 

ہمیں بحیثیتِ فرد، بحیثیتِ قوم اور بحیثیتِ امت اپنے اپنے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں پلٹ کر ان بنیادوں کی طرف جانا ہوگا، جہاں اخلاق، حیا، لحاظ، محبت، علم، انصاف اور دین ایک سالم معاشرے کی بنیاد تھے، وگرنہ کل کا مورخ ہمارے بارے میں صرف اتنا لکھےگا۔ 

’’وہ ایک قوم تھی، جس نے اپنا اصل، شناخت بُھلا کر، اپنے دین، تہذیب و روایات پر بیرونی یلغار، زمانے کی روش کو فوقیت دی اور پھر ہوا کچھ یوں کہ ’’کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا‘‘ کے مصداق تاریخ کے اوراق ہی میں دفن ہوگئی۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید