• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معاشرتی و اخلاقی مزاحمت نہ ہوئی، تو جلد سچ بولنا جرم بن جائے گا
معاشرتی و اخلاقی مزاحمت نہ ہوئی، تو جلد سچ بولنا جرم بن جائے گا

کسی بھی خبر، کام یا واقعے کا حقیقت کے مطابق ہونا، سچّائی، سچ یا صدق کہلاتا ہے اور سچّائی پر اعتماد یا بھروسا، یقین کہلاتا ہے۔ بلاشبہ، یقین ایک نعمت ہے، مگر جب یہ غیر موزوں جگہ پر صَرف ہو، تو فتنہ بن جاتا ہے اور آج کے دَور کا سب سے بڑا فتنہ شاید یہی ہے کہ ہم نے سچ کا معیار کھو دیا ہے، جھوٹ کو جھوٹ سمجھنے کی صلاحیت ختم کر بیٹھے ہیں۔ 

دَورِ جدید میں سوشل میڈیا نے جہاں اطلاعات تک رسائی آسان بنادی ہے، وہیں سچ اور جھوٹ کی تمیز مشکل تر کردی ہے۔ جب ہر شخص کو بولنے، لکھنے اور خبروں کو شیئر کرنے کا غیر محدود اختیار حاصل ہو، تو وہ صرف اپنی رائے نہیں، بلکہ دنیا بھر کے تاثرات پر اثرانداز ہونے والا آلہ کاربن جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ لوگ سُنی سُنائی باتوں پر تحقیق و تصدیق کے بغیریقین کرلیتے ہیں۔ 

سوشل میڈیا کے اس دَور میں ایک جھوٹی خبر لمحوں میں ہزاروں افراد تک پہنچ جاتی ہے۔ ایک جعلی ویڈیو، گم راہ کُن تصویریا توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا کوئی بیان، دیکھتے ہی دیکھتے عوامی رائے بدل دیتا ہے۔ لوگوں کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں، گروہوں کے درمیان نفرت پھیلتی ہے، شخصیات کی کردارکُشی ہوتی ہے اور بعض اوقات تو نوبت فساد، جھگڑے اور قتل و غارت گری تک آجاتی ہے۔ اور یہ سب کچھ ایک ایسے ’’شیئر‘‘ کے سبب ہوتا ہے، جس کی حقیقت کا کسی کو علم نہیں ہوتا، جس کی تحقیق کا کسی نے تکلّف بھی گوارہ نہیں کیا ہوتا۔

بدقسمتی سے یہ المیہ صرف عوامی رویّے تک محدود نہیں رہا۔ سوشل میڈیا کی اثرپذیری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب ریاستی ادارے، عدلیہ، حکومتیں اور بین الاقوامی سطح کے فیصلے بھی اس کی مقبولیت کے دباؤ میں آرہے ہیں، حتیٰ کہ صورتِ حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ کسی کی عزت و آبرو ایک لمحے میں پامال کی جاسکتی ہے، کسی کو ہیرو یا ولن بنانے کے لیے صرف ایک وائرل کلپ ہی کافی ہے۔ 

اس ہتھیار سے صرف فرد ہی کا نہیں، بلکہ پورے معاشرے کااستحصال ہورہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ’’وائرل‘‘ کو ’’حق کا معیار‘‘ بنالیا گیا ہے، یعنی کوئی خبر یا کوئی بات جتنی زیادہ شیئر کی جاتی ہے، اُتنی ہی سچّی سمجھی جاتی ہے اور اس کا حوالہ یہ ہوتا ہے کہ ’’سب ہی یہی کہہ رہے ہیں۔‘‘ گویا منطق اور تحقیق کے بجائے حق کی دلیل اب اکثریت کی آواز بن گئی ہے۔ 

حالاں کہ قرآنِ مجید باربار غورو فکر اور تحقیق کا حکم دیتا ہے۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر6میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمہ:’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔‘‘ 

اس آیت کی روشنی میں سوشل میڈیا کی دنیا میں چلنے والے بیش تر پیغامات اور خبروں کی حیثیت واضح ہوجاتی ہے۔ اوّل تو یہ خبریں معتبر ذرائع سے نہیں آتیں، پھر ان کے پیچھے کوئی تحقیق ہوتی ہے، نہ ہی انہیں پرکھنے کا کوئی پیمانہ اپنایا جاتا ہے۔ صرف سُن کر آگے بڑھا دی جاتی ہیں اور یہی بڑھاوا، آگے چل کر ایک جھوٹ کو سچ میں بدل دیتا ہے، جس سے اکثر اوقات لوگوں کی زندگیاں تک تباہ ہوجاتی ہیں، مختلف معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں اور اعتماد کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ اگر تسلسل سے جھوٹ بولا جائے، تو وہ سچ لگنے لگتا ہے۔ یہی طریقہ آج سوشل میڈیا پر عام ہے۔ ایک مخصوص بیانیہ، ایک خاص ذہن سازی، مسلسل ویڈیوز، میمز اور تحریریں محض جذباتی اپیلز کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں بٹھا دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ فرد، سوچنے سمجھنے کے بجائے صرف ردِّعمل دینے والا روبوٹ بن کر رہ گیا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے والے صرف وہ عناصر نہیں ہوتے، جو سازشیں کرتے ہیں، بلکہ عام لوگ بھی اپنی ذاتی دشمنی، تعصّب یا شہرت کی ہوس میں اس جھوٹ کو پھیلا دیتے ہیں۔ 

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ہر فرد خود کو عقلِ کُل سمجھتا ہے۔ ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ وہ سچ پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے،حالاں کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کے لیے صرف ذہانت نہیں بلکہ تربیت، علم اور تقویٰ کی ضرورت ہے، اور جب معاشرہ تعلیم، تربیت اور علم سے دُور ہوجائے، تو سچّائی کے نام پر جذبات ہی بیچے جاتے ہیں۔

یہ بھی مشاہدے کی بات ہے کہ لوگ ان خبروں کو زیادہ شیئر کرتے ہیں، جو اُن کے نظریات سے میل کھاتی ہیں، چاہے وہ جھوٹی ہی کیوں نہ ہوں۔ اور ان خبروں کو نظر انداز کرتے ہیں، جو اُن کے تعصّبات کو چیلنج کرتی ہیں، چاہے وہ سچّی ہی کیوں نہ ہوں۔ اس رویّے نے سوشل میڈیا کو تصدیقی تعصب کا گڑھ بنا دیا ہے۔ ہر شخص اپنے خول میں قید ہو کر صرف وہی دیکھتا ہے، جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسے ماحول میں سچ دب جاتا ہے اور جھوٹ، تالیوں اور شیئرز کی گونج میں جیت جاتا ہے۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پرصف اول کے صارفین اکثر اپنی شہرت یا پیسا کمانے کے لیے سنسنی خیزی اور جھوٹ کو ہوا دیتے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر جھوٹے دعوے کرتے ہیں تاکہ ان کے فالورز کی تعداد بڑھے، ویوز میں اضافہ ہو اور اشتہارات کے ذریعے آمدنی حاصل ہو۔ بعض اوقات مذہب، قوم، فرقے یا سیاست کے نام پر نفرت پھیلائی جاتی ہے اور عام افراد، اُن کے مُہرے بن جاتے ہیں۔

یاد رکھیے، اگر آج جھوٹ کے خلاف معاشرتی اور اخلاقی مزاحمت نہیں کی گئی، تو آنے والے دنوں میں سچ بولنا بھی جرم بن جائے گا۔ جھوٹ اتنا عام اور مقبول ہوجائے گا کہ سچّی بات بھی عجیب، ناقابل فہم یا قابلِ مذمت لگنے لگے گی اور یہ وہ وقت ہوگا، جب ایک فرد کی سچائی، پورے ہجوم کے جھوٹ کے سامنے بے بس ہوجائے گی۔ لہٰذا ہمیں ہر لفظ، ہر کِلک اور ہر شیئر سے پہلے یہ غور کرنا ہوگا کہ کیا یہ بات درست ہے؟

کیا یہ خیر ہے؟ کیا اس سے کسی کو تکلیف تو نہیں ہوگی؟ کیا یہ معلومات واقعی فائدہ مند ہیں یا محض سنسنی خیزی؟ یہ ذمّے داری مِن حیثیت القوم ہر فرد کی ہے۔ ہر شخص جو موبائل فون یا کمپیوٹر استعمال کرتا ہے، وہ اس جنگ میں ایک کردار ہے۔ اگر خاموشی سے جھوٹ کے فروغ کا باعث بن رہا ہے، تو وہ مجرم ہے، لیکن اگر سچائی کے لیے کھڑا ہوتا ہے، تحقیق کرتا ہے، لوگوں کو جھوٹ سے بچاتا ہے، تو وہ اس عہد کے سچّے سپاہیوں میں شامل ہے۔

لہٰذا ضرورت اس امَر کی ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو ایک ذمّے دار، باشعور اور بااخلاق معاشرہ بنانے کے لیے استعمال کریں۔ سچ کو پہچاننے اور جھوٹ کو بے نقاب کرنے کی عادت ڈالیں۔ سُنی سُنائی بات پر یقین کریں، نہ اسے آگے بڑھائیں۔ تحقیق، تفکّر اور تنقیدی شعور عام کریں، کیوں کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا، تو یہ جھوٹ صرف فرد ہی کو نہیں، قوم کو بھی کھا جائے گا۔ اور جو قومیں جھوٹ پر یقین کرنے لگیں، ان کا زوال یقینی ہے، چاہے اُن کے ہاتھ میں موبائل ہو یا میزائل۔

سنڈے میگزین سے مزید